آج ارادہ تو مہنگائی پر وزیراعظم عمران خان صاحب کی جانب سے پیش کئے جانیوالے ’’لاجکس‘‘ پر مفصل بات کرنے کا تھا مگر اس موضوع سے منسلک چنگھاڑتی ہوئی دوسری خبروں نے دماغ مائوف کرکے رکھ دیا۔ اس لئے آج اس موضوع کی کسک دل میں محسوس کرتے ہوئے تھوڑا سا بوجھ اتارنے کی کوشش کروں گا اور پھر ایک دوسرا بوجھ اتارنا ہے جو اپنے کئی احباب کی جانب سے بھجوائی گئی انکی کئی کتب پر تبصرے کے حوالے سے میرے سر پر چڑھا ہوا ہے۔ آج ملک کے سماجی اور اقتصادی حالات کی بنیاد پر پسا‘ پسماندہ عام آدمی ہی نہیں‘ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ بھی زندگی گزارنے کے چلن میں کسمساتے ڈانواں ڈول نظر آتے ہیں اور اسلام آباد کی ایک خاتون جب لائیو کال میں وزیراعظم سے مہنگائی کے بڑھتے ہوئے ناقابل برداشت بوجھ کی بنیاد پر ان سے تھوڑا سا گھبرا لینے کی اجازت مانگتی ہے تو وزیراعظم زیرلب مسکراتے ہوئے انہیں طویل لیکچر دیتے ہیں کہ عوام موجودہ مہنگائی کو زیادہ نہ سمجھیں‘ وینزویلااور بعض دوسرے ملکوں میں بے تحاشہ مہنگائی ہے۔ پھر وہ یہ فلسفہ بیان کرتے ہیں کہ جمہوری نظام میں تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔ انقلاب فرانس اور خمینی انقلاب میں لوگوں کی گردنیں اتاری گئیں‘ خونی انقلاب کے نتیجہ میں ہی ایسا ہو سکتا ہے کہ سب کچھ ایک دم بدل جائے۔ گویا وزیراعظم صاحب سلطانیٔ جمہور کے تین سال گزار کر بھی سسٹم کے حوالے سے شش و پنج میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ راندۂ درگاہ عوام جمہوری سلطانوں کے چلن دیکھ کر ویسے ہی سسٹم سے برگشتہ ہو رہے ہیں اور اجتماعی خودکشیوں کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ رواں ماہ کے پہلے روز ہی اخبارات میں سات خودکشیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں حاصل پور کے ایک شخص کی جانب سے اپنی بیوی اور دو بچوں کو قتل کرکے خود بھی پھندے کے ساتھ لٹک جانے کا واقعہ بھی شامل ہے۔ آج اخبارات میں شائع ہونیوالے خودکشی کے آٹھ واقعات کی خبریں میرے لئے سوہان روح بن گئی ہیں۔ عوام میں خودکشیوں کا یہ رجحان تسلسل کے ساتھ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث انکے دگرگوں ہوتے اقتصادی حالات کے باعث پیدا ہو رہا ہے۔ ایسے حالات سے عاجز آئے لوگ دو ہی راستے اختیار کرتے ہیں۔ ایک جرائم کی دنیا والا راستہ اور دوسرا امتداد زمانہ سے گھبرا کر اپنی جان لینے والا راستہ۔ ان میں سے تیسرا راستہ بالآخر خونی انقلاب کا نکلتا ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب انقلاب فرانس کا حوالہ دینے سے پہلے اس کا پس منظر جان لیتے تو یہ مثال ہمارے آج کے اپنے معاشرے پر ہی صادق آجاتی کیونکہ انقلاب فرانس کی نوبت بھی وہاں کے عوام پر انکے حکمرانوں کی جانب سے مسلط کی گئی انتہاء درجے کی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے ردعمل میں ہی آئی تھی۔ حضور! ملک کے اقتصادی حالات اس نہج تک نہ لے جائیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد پر اترے عوام انقلاب فرانس جیسے خونی انقلاب کی نوبت لے آئیں۔
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روایت میری سرکار نہ ڈالی جائے
عوام تو اب اپنی اس ذہنی کیفیت تک پہنچ چکے ہیں کہ وزیراعظم کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے دوران ہر چیز کی خود نگرانی کرنے کے اعلان کے بعد انہیں اس بار پکوڑوں‘ سموسوں‘ دہی بھلے سے بھی محرومی کا دھڑکا لگ گیا ہے جس کیلئے انہوں نے ابھی سے سوشل میڈیا پر رونق لگا دی ہے۔
تو حضور! اس احساس کیساتھ دل و دماغ کی تروتازگی اور کشادگی کی گنجائش کہاں نکل پائے گی۔ میں کوشش کررہا ہوں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اس کرب سے خود کو وقتی طور پر بے نیاز کرلوں اور کتب بینی کا کلچر فروغ دینے کی کوشش کروں۔ اگرچہ ہمارے ناشر حضرات نے کتابوں کی قیمتیں بھی آسمانوں تک پہنچا کر اس کلچر کے فروغ کے راستے منجمد کردیئے ہیں مگر جو کتب ہمیں جیسے تیسے مطالعہ کیلئے دستیاب ہو رہی ہیں‘ انہیں محض شیلفوں میں سجا کر تو نہ رکھا جائے۔ میں آجکل ڈاک سے موصول ہونیوالی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف ہوں جس سے دل و دماغ پر چھائی قنوطیت سے خود کو باہر نکالنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو نکل ہی سکتا ہے۔ سو آج اپنے زیرمطالعہ کچھ کتابیں آپ کے ساتھ بھی شیئر کررہا ہوں۔ ان میں سے ہر کتاب مفصل تبصرے کی متقاضی ہے مگر ان چند سطور میں سرسری تبصرہ اور ہر کتاب پر طائرانہ نگاہ کی گردش ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف۔
گزشتہ دنوں مجھے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے اپنے والد مرحوم میاں محمودعلی قصوری پر لکھی عبداللہ ملک کی کتاب ’’داستانِ خانوادۂ میاں محمود علی قصوری‘‘ بذریعہ ڈاک بھجوائی۔ میاں محمود قصوری ہمارے وطن عزیز کی وہ نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری کٹھن مراحل طے کرتے ہوئے نبھائی اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سیاسی اختلافات پیدا ہونے پر اپنے اعلیٰ حکومتی عہدے سے استعفیٰ دیکر گھر واپس آگئے۔ میری اپنی بھی انکے ساتھ نیازی مندی رہی ہے اور انکے 5۔فین روڈ والے گھر اور آفس میں انکے ساتھ کئی نشستیں رہیں۔ بلاشبہ وہ بلند پایہ اور بلند آہنگ وکیل اور مدبر سیاست دان تھے اور میاں خورشید محمود قصوری ملک میں آئین و قانون کی عملداری کیلئے انکی روشن کی گئی شمع کو ہی تھامے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان پر مرتب کردہ عبداللہ ملک کی کتاب نایاب ہو چکی تھی اس لئے میاں خورشید محمود قصوری نے اسکی جمہوری پبلیکیشنز والے ہمارے دوست فرخ سہیل گوئندی کے ذریعے دوبارہ اشاعت کا اہتمام کرایا ہے۔ یہ کتاب برصغیر کی سیاسی تحریکوں اور بالخصوص پنجاب کی سیاست کا احاطہ کرتی ہے اس لئے پاکستان کی تاریخ کے مطالعہ کیلئے اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہو سکتی۔
ایسی ہی ایک کتاب ’’حصول پاکستان‘‘ برادرم شاہد رشید صاحب نے گزشتہ روز مجھے محترم مجید نظامی کی 93ویں سالگرہ پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں منعقدہ تقریب کے موقع پر گفٹ کی۔ یہ کتاب ملک کے معروف مؤرخ و محقق احمدسعید صاحب کی تحریر کردہ ہے جس کی اشاعت کا اہتمام بھی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے کیا ہے جو ایوان قائداعظم کے سلسلۂ مطبوعات کی 48ویں شائع ہونیوالی کتاب ہے۔ تاریخ کے طالب علم یقیناً اس کتاب سے بہتر رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
محترمہ بلقیس ریاض ہمارے ملک کی نامور ناول نگار اور سفرنامہ نگار ہیں۔ بہت شستگی اور روانی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتی ہیں۔ ان دنوں سماجی موضوعات پر نوائے وقت میں کالم بھی لکھ رہی ہیں۔ انکی جانب سے مجھے اکٹھی چھ کتب موصول ہوئیں جن میں چار ناول ’’خوابوں کا محل‘‘ ’’ہرجائی‘‘ ’’پشیمان‘‘ ’’دھندلا پیکر‘‘ اور دو سفرنامے ’’امریکہ میں رمضان شریف‘‘ اور ’’ساحل سے ساحل تک‘‘ شامل ہیں۔ بلاشبہ انکی تحریروں میں انکی صاف گو‘ زمانہ ساز‘ بے باک‘ پراعتماد‘ بے تکلف اور مجلس پسند شخصیت کا عکس جھلکتا نظر آتا ہے اور یہ گواہی خود انکے گھر کے اندر سے انکے دانشور صاحبزادے رضارومی نے دی ہے جن کے بقول بلقیس ریاض لوگوں کے مجمع میں اپنی انفرادیت قائم رکھتی اور زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کرتی ہیں۔ ہمارے آج کے ناآسودہ زمانے میں ایسی شخصیات کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہمارے غزل گو شاعر قمر رضا شہزاد نے کمال ہی کر دیا۔ اپنی غزلوں کے چھ مجموعہ ہائے کلام کو ’’خاک زار‘‘ کے نام پر 512 صفحات کی کلیات میں ایک گلدستے کی شکل دے دی۔ انکی یہ کتاب بذریعہ ڈاک موصول ہوئی تو غزل کے میدان میں قمر رضا شہزاد کے مقابل کوئی دوسرا نظر نہ آیا۔ انہوں نے خود بھی اسکی گواہی اپنے ان اشعار کے ذریعے دی ہے کہ…؎
میرے علاوہ کوئی اور گونجتا ہی نہیں
یہاں کلام بھی میں‘ صاحبِ کلام بھی میں
٭…٭…٭
میں اسی لئے کسی معرکے میں نہیں رہا
کوئی مجھ سا میرے مقابلے میں نہیں رہا
ابرار ندیم صاحب بھی پنجابی شاعری میں اپنا خاص مقام بنا چکے ہیں۔ انکی بھجوائی پنجابی شاعری کی کتاب ’’اساں دل نوں مرشد جان لیا‘‘ پڑھتے ہوئے واقعی چَس آگیا۔ آپ بھی تھوڑا سا محظوظ ہولیں…؎
اتھرو تارا ہو سکدا اے
دکھ دا چارہ ہو سکدا اے
اِکو واری فرض تے نہیں ناں
عشق دوبارہ ہو سکدا اے
اجے نہ رشتے توڑ توں سارے
اجے گزارا ہو سکدا ہے
اور ہمارے سرگودھا کے دانشور دوست ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے تو کتابوں پر کئے گئے اپنے تبصروں کی یکدم چھ کتب بنالی ہیں جو پچھلے دنوں مجھے ڈاک سے موصول ہوئیں۔ یہ تبصرے انہیں 2009ء سے 2020ء تک موصول ہونیوالی علمی ادبی کتب پر کئے گئے ہیں جو مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے اور اب وہ چھ کتابوں عرفان کتب‘ طائر افکار‘ لیاقتِ کتب‘ مخزن کتب‘ تحفۂ قرطاس ادب اور آہنگ کتب کے صفحات میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ اپنے اس زور نویس بھائی کیلئے میں یہی کہوں گا کہ…؎
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔