حالیہ سینٹ انتخابات میں جو ’’جمہوری‘‘ کھیل تماشا ہوا اس نے ہمارے مروجہ سسٹم کے حوالے سے بحث و تمیص کے کئی دروازے کھولے ہیں۔ بے شک سسٹم وہی اچھا ہوتا ہے جو ملک کی ترقی‘ خوشحالی اور بقاء و استحکام کا ضامن ہو اور جس کے ثمرات سے عوام براہ راست مستفید ہورہے ہوں۔ میں اس حوالے سے ان صفحات پر اکثر اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہوں جس پر مثبت‘ منفی تنقید کے دروازے بھی کھلے رہتے ہیں تاہم مقصود صرف سسٹم کی اصلاح ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنے اور جائزہ لینے کا حق تو حاصل ہے ناں کہ سلطانیٔ جمہور کے نام پر جمہور کو راندۂ درگاہ بنانے والے مروجہ سسٹم ہی کا دامن تھامے رکھا جائے یا اسکی جگہ کسی دوسرے نظام کا تجربہ کرلیا جائے۔ اس معاملہ میں ہمارے راستے میں آئینی اور قانونی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ مروجہ پالیمانی جمہوری نظام کو صدارتی جمہوری یا متناسب نمائندگی والے منتخب جمہوری نظام میں تبدیل کرنا مقصود ہو تو اس کیلئے ہمیں آئین کا سارا ڈھانچہ تبدیل کرنا یعنی نیا آئین تشکیل دینا ہوگا جبکہ مروجہ سسٹم میں مطلوبہ اصلاحات اسی آئین میں بعض ترامیم یا مروجہ قوانین بشمول عوامی نمائندگی ایکٹ‘ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حاصل اسکے اختیارات کا دائرہ مزید وسیع کرکے کی جاسکتی ہیں مگر اس کیلئے حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کے مابین افہام و تفہیم کی مثالی فضا درکار ہوگی جس کا ہمارے آج کے سیاسی چلن میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
میں جب اس صورتحال کا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ہمارے قومی سیاسی قائدین اپنے چال چلن کے باعث ہی ماورائے آئین اقدامات کی راہ ہموار کرتے اور جمہوریت کا جنازہ نکالتے ہیں تو میرے بعض کرم فرمائوں کی جبینِ نیاز شکن آلود ہو جاتی ہے جو ماورائے آئین اقدامات کے معاملہ میں سیاست دانوں کو بے قصور گردانتے ہیں اور سارا ملبہ ایسے اقدامات والوں پر ہی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے شک 1958ء والے مارشل لاء تک ایسا ہی معاملہ ہوگا مگر میری دانست میں اس کیلئے فضا بھی قیام پاکستان سے پہلے والا ’’سٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنے کے خواہش مند سیاست دانوں نے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ہموار کی تھی۔ اسکے بعد تو ہماری سیاسی نرسریوں میں زیادہ تر ’’پودوں‘‘ نے فوجی آمریت کی چھتری کے نیچے ہی پرورش پائی اس لئے میرے کرم فرمائوں کو اپنی شکن آلود جبینِ نیاز کے ساتھ کچھ اپنا کتھارسس بھی کرلینا چاہیے۔ آج کی سیاست پر تو اسی چھتری کے نیچے پروان چڑھنے والے سیاست دانوں کا غلبہ ہے اس لئے اصل ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑے بغیر حقیقی تبدیلی کا تصور کیسے پنپ پائے گا۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر بالخصوص مختلف وٹس ایپ گروپوں میں سسٹم کی تبدیلی اور اصلاح کے حوالے سے گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ جو دوست ان گروپوں میں شامل نہیں وہ وٹس ایپ کے ذریعے انفرادی رابطوں کے ساتھ اس بحث کا حصہ بنے ہوئے ہیں جس نے سینٹ کے حالیہ انتخابات میں کسی ’’چھومنتر‘‘ اور دھن دھونس کے استعمال کے باعث گدلی ہونیوالی سیاسی فضا میں تقویت حاصل کی ہے۔ ہمارے دیرینہ دوست اور بائیں نظریات کے حامل معتبر بزرگ سیاست دان پرویز صالح نے ’’سٹیپس فار اے بیٹر پاکستان‘‘ کے نام سے ایک وٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جس میں ہر مکتبۂ فکر اور ہر مکتبۂ زندگی کے لوگ شامل ہیں‘ اس گروپ میں سسٹم کی اصلاح کے حوالے سے بحث مباحثہ ہمہ وقت چلتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہمارے دیرینہ دوست اور نوائے وقت کے سینئر کالم نگار اسداللہ غالب صاحب نے ’’پی سی آئی اے نیو‘‘ کے نام سے ایک وٹس ایپ گروپ تشکیل دے رکھا ہے جس میں دانشوروں‘ سیاست دانوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس سمیت ہر مکتبۂ زندگی کے لوگ سسٹم کی اصلاح کے معاملہ میں اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر یہ بحث کسی منظم طریقے سے قومی سطح پر شروع ہو تو یقیناً نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ آج کی سیاست میں حکمران طبقات ہوں یا انکے سیاسی مخالفین‘ سب کے سب ہمارے روایتی اور مروجہ کرپشن کلچر میں سر کے بال سے انگلی کے ناخن تک مکمل لتھڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں مگر اصلاح کے عملی اقدامات کی طرف آنے کی بجائے ایک دوسرے کے گریبانوں کی خبر لیتے رہنے میں ہی راحت محسوس کرتے ہیں۔ پھر جذباتی ہوئے بغیر سوچ بچار کرنے میں کیا مضائقہ ہے اور ہمارے آج کے سیاسی چال چلن کا یہ نتیجہ نکالنے میں کیا دِقت ہو سکتی ہے کہ یہ سب باہم مل کر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کے جتن میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی سیاسی ماحول کے تناظر میں میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’ہماری جمہوریت کا مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ میں سینٹ انتخابات کے مراحل میں ’’چھومنتر‘‘ کے عمل دخل کا تذکرہ کیا جس پر سوشل میڈیا پر گرماگرم بحث ہوئی۔ رانا اکرم ربانی زیرک سیاست دان ہیں‘ انہوں نے اپنے تبصرے کے ساتھ بعض انتخابی اصلاحات بھی تجویز کی ہیں اور ایک تصویر شیئر کرکے معنی خیز کیپشن لگایا۔ اس تصویر میں دائیں جانب سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر‘ درمیان میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور بائیں جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تشریف رکھتے ہیں۔ رانا صاحب نے اس کا کیپشن لگایا کہ ’’ایوان زیریں‘ ایوان بالا اور ایوان بلند و بالا‘‘۔ سسٹم کی اصلاح کیلئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ اسمبلیوں کے انتخابات میں موجودہ انتخابی مہم کا طریق کار تبدیل کر دیا جائے۔ ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ پوائنٹس متعین کرلئے جائیں جہاں جلسہ عام کا اہتمام کیا جائے‘ ہر امیدوار اپنا تعارف اور اپنی پارٹی کا منشور واضح کرے۔ پھر عوام کو سوال کرنے کا حق حاصل ہو۔ محدود؍ مخصوص تعداد میں فلیکس‘ پوسٹر الیکشن کمیشن بنوائے جس پر نعرے امیدوار کی مرضی سے تحریر کئے جائیں۔ ہر امیدوار زرضمانت کے علاوہ اخراجات کی متعین کردہ حد الیکشن کمیشن میں جمع کرائے اور پیسے کا استعمال جو ٹکٹ جاری کئے جانے سے شروع ہو کر ووٹنگ کے دوران بھی جاری رہتا ہے‘ کم کیا جائے۔ چھومنتر کا عمل دخل کم نہیں‘ ختم کرنا بھی ضروری ہے۔
انکی اس تجویز کی تائید کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تجویز کی گرہ لگائی کہ ملک میں امریکہ اور برطانیہ کی طرز پر دو یا تین جماعتوں کے مابین انتخابی مقابلہ ہونا چاہیے۔ کسی کو بطور آزاد امیدوار کھڑا ہونے کی اجازت نہ ہو۔ پولنگ سے چند روز قبل صرف پارٹی ہیڈز کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اپنا پارٹی منشور پیش کرنے کی اجازت دی جائے اور کوئی امیدوار ازخود اپنی انتخابی مہم چلانے کا مجاز نہ ہو۔ امیدواروں کی نامزدگی کا اختیار صرف پارٹی ہیڈ کو حاصل نہ ہو بلکہ اس کیلئے پارٹی کا ایک بااختیار بورڈ تشکیل دیا جائے۔ اس سے ہمارے انتخابی نظام کو ’’الیکٹیبلز‘‘ والی مجبوری سے بھی خلاصی مل جائیگی۔ کروڑوں کے انتخابی خرچے بھی بچ جائیںگے اور ہارس ٹریڈنگ کی لعنت سے بھی نجات مل جائیگی۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سابق چیف الیکشن کمشنر محترم ارشاد حسن خان نے میری اس تجویز سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے باور کرایا کہ یہ تجویز آئینی ترمیم کے بغیر روبہ عمل نہیں آسکتی۔ آئین کی دفعہ 62 ملک کے ہر شہری کو انتخاب میں حصہ لینے کا اہل قرار دیتی ہے۔ ماسوائے اسکے کہ وہ آئین کی دفعہ 63 کی کسی شق کے تحت نااہل نہ ہو۔ اسی طرح انتخابی قوانین آئین کی دفعہ 222 کے ماتحت ہیں جبکہ پارلیمنٹ آئین سے متصادم کوئی قانون وضع کرنے کی مجاز نہیں۔ ان آراء کی روشنی میں میرا یہی تجسس اور موقف ہے کہ سسٹم میں اصلاح مقصود ہے تو قانون اور آئین میں جو بھی ترمیم ضروری ہے وہ کرلی جائے اور اگر نئے آئین کی ضرورت ہو تو وہ بیڑا بھی اٹھا لیا جائے۔