سیکرٹ بیلٹ۔ کہیں ہپ‘ کہیں تھُو
Mar 09, 2021

ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سینٹ انتخابات اور وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد اب فریقین کے مابین چیئرمین سینٹ اور وائس چیئرمین سینٹ کے انتخاب کیلئے پوائنٹ سکورنگ کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ 12؍ مارچ فیصلے کا دن ہے۔ اس سے پہلے پہلے سارے مقاماتِ سودوزیاں کھل چکے ہونگے مگر چیئرمین سینٹ کیلئے باضابطہ فیصلے سے پہلے ہی حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے پتے تو شو کر دیئے تھے۔ موجودہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی تو سینٹ انتخابات کے انعقاد سے بھی پہلے دوبارہ اس منصب کیلئے متحرک ہو گئے تھے اور انہوں نے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے تھے۔ اسی طرح اپوزیشن کی صفوں میں سے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد اگرچہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اعلان کیا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے امیدوار کا فیصلہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر کیا جائیگا۔ اس کیلئے پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کا اجلاس بھی 8؍ مارچ کو طلب کرلیا گیا جس کے فیصلے یہ سطور شائع ہونے تک منظرعام پر آچکے ہونگے تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت نے پی ڈی ایم کے اجلاس اور اسکے فیصلے سے پہلے ہی چیئرمین سینٹ کیلئے سید یوسف رضا گیلانی کی لابنگ شروع کر دی اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت سمیت مختلف جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن) کے قائدین سے ملاقاتوں میں ان سے سید یوسف رضا گیلانی کیلئے ووٹ مانگنا شروع کر دیا۔ 

چیئرمین سینٹ کیلئے حکومتی امیدوار کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ رہا ہے کیونکہ صادق سنجرانی حکومتی اتحاد کے کسی فیصلے سے پہلے ہی خود ہی امیدوار بنے اور اپنے حق میں لابنگ شروع کی جس کے بعد حکمران پی ٹی آئی نے انہیں اپنی پارٹی میں یا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کسی مشاورت کے بغیر ہی حکومتی امیدوار نامزد کر دیا۔ اس طرح ہر دو فریقین کی جانب سے صادق سنجرانی اور سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ کیلئے اپنا اپنا امیدوار بنانے کی محض رسمی کارروائی کی گئی ہے جبکہ انکے بارے میں فیصلے سینٹ انتخابات سے بھی قبل پہلے ہی ہو چکے تھے۔ یہ فیصلے کہاں پر اور کس کے اشارے پر ہوئے‘ یہ ’’اوپن سیکرٹ‘‘ ہے۔ بس ان فیصلوں کے ساتھ چلنے کے حکم کی تعمیل فریقین کی مجبوری بنی ہے۔ 

جناب! صادق سنجرانی تو پی ٹی آئی میں شامل بھی نہیں‘ وہ خود کو آج بھی بلوچستان اتحاد ’’باپ‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں اور بلوچستان سے سینٹ کی نشستوں پر ’’باپ‘‘ کی کامیابی کو اپنی ہی کامیابی گردانتے ہیں۔ پھر ان کا بلاتوقف اور بغیر کسی تردد کے حکمران پی ٹی آئی کا امیدوار نامزد ہونا کسی ’’پردہ داری‘‘ کے زمرے میں تو نہیں آسکتا۔ پی ٹی آئی قائد عمران خان تو اپنی پارٹی کے بندے سے ہٹ کر پنجاب اور خیبر پی کے میں اپنی کسی اتحادی جماعت کو وزارت اعلیٰ یا کوئی دوسرا بڑا حکومتی منصب دینے کے روادار نہیں ہوئے اور وہ آج بھی پنجاب میں اپنے وسیم اکرم پلس کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں اور کسی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ اپنی پارٹی میں ہی رکھنا چاہیں گے تو وہ چیئرمین سینٹ کیلئے صادق سنجرانی پر اتنے ریشہ خطمی کیسے ہوگئے کہ انہوں نے اس کیلئے اپنی پارٹی اور اتحادیوں کی سطح پر کسی سے مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اگر سنجرانی خود ہی امیدوار بننے کے بعد حکومتی امیدوار بھی نامزد ہوئے ہیں تو بھائی صاحب!…؎

نہ تم سمجھے‘ نہ ہم آئے کہیں سے 
پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے 

اس فضا میں ’’چھیڑخوباں‘‘ سے گریز ہی بہتر ہے۔ جنہیں آج سینٹ کے انتخاب کیلئے اوپن بیلٹ کا غم کھائے جا رہا ہے اور وہ اوپن بیلٹ نہ ہونے پر الیکشن کمیشن کو رگیدنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے‘ انہی کو اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں سیکرٹ بیلٹ فیوض و برکات پر مبنی نظر آئیگا کیونکہ سینٹ میں اپوزیشن بنچوں کی 54‘ اور حکومتی بنچوں کی 47 نشستوں کی موجودگی میں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب حکومت کی ناکامی کی علامت بن جائیگا۔ اگر اس انتخاب میں حکومتی امیدواروں نے کامیاب ہونا ہے‘ جس کے حکومتی اکابرین کی جانب سے دعوے بھی کئے جارہے ہیں تو وہ خفیہ رائے شماری میں کسی ’’چھومنتر‘‘ کے استعمال سے ہی ممکن ہو سکتا ہے جیسا کہ ڈیڑھ سال قبل خفیہ رائے شماری میں چھومنتر کے زور پر سنجرانی کیخلاف اپوزیشن بنچوں کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنائی گئی تھی۔ اس وقت تو اپوزیشن بنچوں کی برتری بھی 18, 17 ووٹوں کی تھی جبکہ اب تو محض سات ووٹوں کا فرض ہے۔ 12؍ مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اپوزیشن کی یہ عددی برتری ٹوٹے گی تو ہارس ٹریڈنگ کا الزام کس کے سر جائیگا۔ حضور! یہ ایسی اصولی سیاست ہے کہ نتیجہ اپنے حق میں آئے تو ہارس ٹریڈنگ کی لعنت ’’ہپ ہپ‘‘ اور اپنے خلاف آئے تو ’’تھُو تھُو‘‘۔

آج شاید اپوزیشن والے سینٹ الیکشن کیلئے شو آف ہینڈز کی ضرورت محسوس کررہے ہوں اور 12؍ مارچ کو سینٹ میں اپنے امیدواروں کی شکست کی صورت میں انہیں سیکرٹ بیلٹ حکمران پی ٹی آئی کے موقف سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر لعنت اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا نظر آئے۔ پھر باہم جھگڑا کیا ہے۔ مسئلہ تو سارا چھومنتر کا ہے۔ جب تک سیاست کو اسکے اثرات سے نہیں نکالا جائیگا‘ جمہوریت کی حقیقی عملداری اور آئین و قانون کی سچی کھری حکمرانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اصولوں کی لفاظی کو اوڑھ کر خود کو ’’پوِتر‘‘ سمجھنا سسٹم کی اصلاح کے خواب کی تعبیر تو نہیں بن سکتا۔ اس ’’معطر‘‘ فضا میں سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک غزل حسبِ حال ہے۔ پس پڑھیئے‘ سر دُھنیے مگر لب نہ کھولئے…؎

سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو

ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو

بے کسی‘ بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام‘ چلنے دو

اہلیت کیا ہے میری‘ چھوڑ اسے
نام کافی ہے‘ نام چلنے دو

مفت مرتا نہیں تو راہوں میں
تجھ کو دیتے ہیں دام‘ چلنے دو

تم ہو زاہد تو جائو‘ گھر پہ ٹِکو
مے کدے میں تو جام چلنے دو

تیسرے اجداد کے تھے آقا ہم
خود کو بھی زیر دام چلنے دو

حق کو چھوڑو‘ کتاب کو چھوڑو
حکم حاکم سے کام چلنے دو

ہم جو اترے تو پھر‘ اندھیرا ہے
سو یہی غم کی شام چلنے دو

شاہ جائے گا‘ شاہ آئے گا
تم رہو گے غلام‘ چلنے دو

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com