یہی تو میرا شروع دن کا تجسس تھا کہ آئین کی دفعہ 226 کی موجودگی میں اس میں ترمیم کئے بغیر سینٹ کے انتخابات کیلئے شوآف ہینڈز کی گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ اس آئینی دفعہ میں تو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کے سوا تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونگے۔ چنانچہ اس آئینی دفعہ کی موجودگی میں اس وقت تک سینٹ کے انتخابات کیلئے شوآف ہینڈز کی گنجائش نہیں نکالی جا سکتی جب تک پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ ترمیم منظور کراکے دفعہ 226 میں یہ متعین نہ کیا جائے کہ وزیراعظم‘ وزراء اعلیٰ اور سینٹ کے سوا تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہونگے۔ میرا نہیں خیال کہ اہل اقتدار کے عالی دماغوں کو آئین کی دفعہ 226 کا ادراک نہیں ہوگا یا یہ دفعہ انکے ذہنوں سے محو ہو گئی ہوگی۔ شوآف ہینڈز کے طریقہ انتخاب کیلئے جو دلائل وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی کے دوسرے اکابرین پیش کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ بجا ہیں۔ اگر ہم نے ہارس ٹریڈنگ کی مجوزہ مروجہ لعنت سے نجات حاصل کرنی ہے اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہے تو ہمیں شوآف ہینڈز سمیت تمام ممکنہ عملی اصلاحات کی جانب جانا ہوگا تاہم پارلیمنٹ ہی اس کیلئے مناسب‘ موذوں اور مجاز فورم ہے کیونکہ اس وقت ملک میں رائج پارلیمانی جمہوری نظام آئین کے ماتحت ہے۔ یہ نظام ہماری ضروریات پر پورا نہیں اتر رہا اور اس نظام پر اس حوالے سے میرے اپنے بھی تحفظات ہیں کہ سلطانیٔ جمہور کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام (جمہور) تک پہنچ ہی نہیں پاتے اور جن کے نام پر سلطانی کی جاتی ہے انہیں اس نظام میں عملاً راندۂ درگاہ بنائے رکھا جاتا ہے اور بقول اقبال ’’درویشی بھی عیاری ہے‘ سلطانی بھی عیاری‘‘ اس نظام میں سلطان کی منافقت ہی غالب رہتی ہے جو جمہور کے ساتھ ’’پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘ والا رویہ اختیار کئے رکھتے ہیں۔ اگر سلطانیٔ جمہور میں جمہور راندۂ درگاہ ہے تو پھر کسی ایسے نظام کا کیوں نہ تجربہ کرلیا جائے جس میں فی الواقع جمہور کی سلطانی نظر آئے۔ اس حوالے سے تھنک ٹینکس اور دانشورں کے حلقوں میں اکثر امریکی طرز کا صدارتی نظام یا متناسب نمائندگی کا نظام موضوع بحث رہتا ہے۔ انکے محاسن و نقائص پر بھی بات ہوتی ہے اور عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم ظاہر کیا تو اس سے اسلام کے زریں دور کے نظام خلافت اور شورائی نظام کی جانب بھی توجہ جانے لگی اور دل لگتی کہیئے تو یہی نظام ہمیں عوام الناس کے دکھوں کے مداوا کیلئے زیادہ صائب نظر آتا ہے مگر بھائی صاحب! جو کچھ بھی ہونا ہے‘ قاعدے قانون کے تحت ہی ہونا ہے۔ ورنہ تو سرزمین بے آئین کا معاملہ ہوگا جو ہم وقفے وقفے سے 34 سال تک بھگت چکے ہیں۔ یا پھر ’’شاہِ معظم کی سواری آتی ہے‘‘ والا رعب و دبدبہ ہوگا اور یہ بھی اس ارضِ وطن پر غیرمنقسم ہندوستان کے دوران ایک ہزار سال تک بھگتا اور نبھایا جا چکا ہے۔ اس نظام کی جگہ انگریز کے کالونیل سسٹم نے لی جس نے شاہِ معظم والے برتری کے تصور سے اس خطے کے مسلمانوں کو نکالنے کیلئے ان پر ہندو ساہوکار کو غالب کر دیا۔ اسی جبر و تسلط کے ردعمل میں مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کی سوچ پیدا ہوئی تھی جسے شاعر مشرق علامہ اقبال نے پروان چڑھایا اور قائداعظم نے اسے حقیقت کے قالب میں ڈھال کر دکھایا مگر اس میں پارلیمانی جمہوری نظام ’’سلطانیٔ جمہور‘‘ کا تصور پیش کرکے قائداعظم نے شہنشاہ معظم والی شخصی حکمرانی کا راستہ روک دیا تھا۔ بے شک انکی وفات تک ملک اپنے آئین سے سرفراز نہیں ہوا تھا مگر جمہور کی رائے سے تشکیل پانے والے پاکستان کی بنیاد انہوں نے سلطانیٔ جمہور پر ہی استوار کی تھی۔ آج 73ء کا آئین پارلیمانی جمہوری نظام کا ہی مجموعہ ہے جس میں بے شک بہت سی قباحتیں موجود ہیں مگر اس آئین کی عملداری میں کسی دوسرے نظام کی ماورائے آئین گنجائش ہرگز نہیں نکالی جا سکتی۔ ایسا کیا جائیگا تو وہ صرف ’’دھکا‘‘ ہوگا جو اس ارضِ وطن کو چار بار لگ چکا ہے۔
اگر حکومت سسٹم کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے تو اس کیلئے پارلیمنٹ ہی بحث مباحثہ کا مجاز فورم ہے۔ آپ نے سسٹم کو پارلیمانی کی بجائے کسی دوسرے قالب میں ڈھالنا ہے تو اس کیلئے آپ کو نیا آئین تشکیل دینا ہوگا جس کیلئے آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرانے کی ضرورت ہو گی۔ موجودہ اسمبلی میں بہرحال آئین میں ترمیم تو کی جا سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ سے بالا بالا کوئی تبدیلی لانے کی خواہش ہے جیسا کہ شوآف ہینڈز والی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا اور پھر صدارتی آرڈی ننس جاری کیا گیا تو یہ عام فہم سوچ کے تحت بھی پارلیمنٹ کی نفی کرنے کے مصداق تھا۔ اگر آپ اپوزیشن کو مطعون کر رہے ہیں کہ اس نے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر میثاق جمہوریت کرکے اس میں خود سینٹ کے انتخابات شوآف ہینڈز سے کرانے کی شق رکھی تھی تو آپ اسی بنیاد پر شو آف ہینڈز کیلئے اسمبلی میں آئینی ترمیم لا کر اپوزیشن کو آزمائش میں ڈال سکتے تھے مگر آپ نے یہ راستہ اختیار کرنا مناسب ہی نہ سمجھا۔
اب سپریم کورٹ آپ کے ریفرنس کی سماعت کے دوران خود باور کرارہی ہے کہ ہم پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے اور آئین سینٹ انتخابات خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کرانے کا کہتا ہے تو پھر آئین ہی کی عملداری ہوگی۔ فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ نے تو گزشتہ روز یہ بھی باور کرا دیا کہ ہر ادارے کو اپنا کام اپنی آئینی حدود میں رہ کر ہی کرنا چاہیے اس لئے جناب! آپ اپنے ادارے پارلیمنٹ کی اپنے ہاتھوں تحقیر نہ کریں۔ یہ آئینی جمہوری فورم سسٹم کو آپ کی خواہشات کے مطابق چلانے کیلئے موجود ہے۔ آپ شو آف ہینڈز کا طریقہ انتخاب چاہتے ہیں تو اس کیلئے پارلیمنٹ میں ترمیم لے آئیں۔ آپ جن کو پارلیمنٹ سے بالا بالا بے نقاب کررہے ہیں‘ وہ اس ترمیم میں آپ کا ساتھ نہیں دینگے تو آپ کو انہیں بے نقاب کرنے کا باضابطہ موقع مل جائیگا۔ مگر خدارا اپنے کسی اقدام یا سوچ سے شہنشاہ معظم والا تشخص پیدا نہ ہونے دیں کیونکہ خرابی کا ایک دروازہ کھلے گا تو اس سے سو مزید دروازے کھلنے کی راہ ہموار ہو جائیگی۔