ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں پاکستان کی بین الاقوامی پرواز کے روکے جانے‘ ضبط ہونے اور اس پرواز کے مسافروں کے رسوا ہونے سے اس وطن عزیز کو عالمی برادری میں جو ہزیمت اٹھانا پڑی کیا اس پر ہمارے کرتا دھرتائوں میں سے کسی کی جبینِ نیاز پر خجالت کے پسینے کا کوئی ہلکا سا بھی چھینٹا نمودار ہوا؟ شاید ہم اپنی ادارہ جاتی اور انفرادی روایتی غفلتوں‘ نااہلیوں اور بدطینتیوں کی انتہاء کو پہنچ چکے ہیں کہ کوئی تہمت‘ کوئی رسوائی‘ کوئی ہزیمت ہمارے بے حس ضمیروں کو جھنجوڑ کر جگانے کے اسباب ہی پیدا نہیں کر پارہی اور ہم آج بھی اپنی ادارہ جاتی غفلتوں پر اٹھائی جانے والی ہر ہزیمت پر یہ سوچ کر اپنے تئیں مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ…؎
ویسے تو تمہی نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
کوالالمپور پر ضبط ہونیوالی ہماری پی آئی اے کی پرواز کے معاملہ پر بھی شرمندہ ہونے کے بجائے ہمارے ہوابازی کے وزیر موصوف غلام سرور خاں نے موجودہ روایتی سیاسی کلچر کے عین مطابق پاکستان کے سر آنیوالی اس ہزیمت و رسوائی کا سارا مدعا بھی سابق حکمران مسلم لیگ (ن) کے سر تھوپ دیا۔ شاید انہیں اس بے رحم سیاست کے ناطے چین کی بنسری بجا کر سکون کی نیند لینے کا موقع مل گیا ہوگا مگر اس وطن عزیز کی ساکھ کو جو بٹہ لگنا تھا وہ تو لگ چکا اور جو ناقابل تلافی نقصان ہونا تھا‘ وہ تو ہو چکا۔ کیا اس کا حساب اب آنیوالے چکائیں گے۔ پچھلوں نے جو بداعمالیاں‘ جو غفلت شعاریاں‘ جو بے ضابطگیاں اور جو بدقماشیاں کیں‘ آنیوالوں کو کم از کم اس کا اعادہ تو نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہماری ’’باوقار سروس‘ لاجواب پرواز‘‘ کیلئے ویسے تو اس معاملہ میں بھی ’’چلّو بھر پانی‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے کہ یہ لیز پر طیارے لے کر اڑا رہی ہے۔ شاید پی آئی اے کا سارا منافع اسے جونکوں کی طرح چمٹے حکام و افسران کے پیٹ بھرنے کیلئے ہی ناکافی ثابت ہو رہا ہے اس لئے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی اختیار کرکے دوسرے ملکوں کی کمپنیوں سے طیارے لیز پر لے کر گزارا کیا جارہا ہے تاکہ اسکی پروازیں کم از کم فضا میں اڑتی ہوئی تو نظر آئیں۔ مگر روایتی غفلت و بدطینتی تو ہمارے کلچر کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے اس لئے کسی عالمی معاہدے میں بھی لیز کی قسطیں بھی بروقت ادا نہ کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ ہمارے نئے پاکستان کے اڑھائی سال کے عرصہ میں کم از کم یہ کلچر تو بدلا ہوا نظر آنا چاہیے تھا مگر اس تبدیلی میں بھی بس ’’کھالے‘ پی لے‘ موج اڑا‘‘ والی سوچ ہی غالب نظر آرہی ہے۔
ایک تو ویتنامی کمپنی سے لیز پر لئے گئے طیارے کی قسطوں کی بروقت ادائیگی میں ڈنڈی ماری گئی اور غیرادا شدہ قسطوں کی رقم ہضم کرنے کی نیت سے برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے بے نیازی کی چادر اوڑھ لی گئی اور دوسرے اسی متنازعہ طیارے کو بیرون ملک پرواز کیلئے بھیجنا بھی اپنی ہٹ دھرمی کا حصہ بنالیا گیا۔ اب اس امر کی تحقیقات تو ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘ کے ہی مصداق ہے کہ جب پی آئی اے کے پاس 12 بوئنگ طیارے پرواز پر بھجوانے کیلئے موجود تھے تو پھر اسی طیارے کو بیرونی پرواز پر کیوں بھجوایا گیا جس کا چھ ماہ کا کرایہ واجب الادا تھا۔ اپنے کھاتے میں آنیوالی اس غفلت کا حساب دینے اور اس پر مارے شرمندگی کے مستعفی ہونے کا سوچنے کی بجائے ہوابازی کے وزیر موصوف نے سابق حکومت کے دور میں ہونے والے لیز کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔
ایک غیرملکی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی پرواز ٹیک آف سے پہلے ضبط ہونے پر پاکستان کیلئے جس سبکی کا اہتمام ہوا‘ اس کا جوابدہ کس کو ہونا ہے اور پھر اس پرواز کے مسافروں کو پاکستان واپس آنے کیلئے جو پریشانیاں اٹھانا پڑیں‘ اسکی جوابدہی کس کے کھاتے میں آنی ہے‘ بھائی صاحب! بلیم گیم کی سیاست سے ہٹ کر اس بارے میں تو کچھ سوچ بچار کرلی جائے۔ اگر ماضی والی غفلت شعاری اور ڈنگ ٹپائو والی ساری روائتیں ہی برقرار رکھنی ہیں تو آپ کے کس ’’طرۂ امتیاز‘‘ پر ہماری آنیوالی نسلیں فخر کریں گی۔ ادارہ جاتی غفلت شعاری اور دھونس دھاندلی والے جس کلچر نے ملک کی ساکھ و توقیر کو سابقہ حکمرانوں کے ادوار میں بٹہ لگایا ہے‘ اسی کا تو آج بھی تسلسل برقرار ہے۔ ماضی میں ہمارے پلّے تو سید جماعت علی شاہ جیسے ایسے بدطینت حکام بھی پڑے رہے جو بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعہ پر عالمی بنک کے روبرو ہزیمتوں سے لبریز ایسا بیان بھی قلمبند کرا آئے تھے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا پانی کا کوئی تنازعہ ہی نہیں ہے۔ ہم نے ایسے وطن فروشوں کے ہاتھوں ہی بھارت کیخلاف بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم سے متعلق اپنے کیس عالمی بنک میں ہارے تھے اور اب تو ماشاء اللہ غیرملکی عدالتوں میں ہمارے لئے ایسی ہزیمتیں ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ اسی عہدِ بے مثال کی ’’سرخروئی‘‘ ہمارے حصے میں آئی ہے کہ ریکوڈک کے کیس میں آسٹریلیا کی ٹیتھیان کمپنی نے عالمی بنک کے عدالتی فورم ’’آئی سی ایس آئی ڈی‘‘ میں ہم پر ’’دھوبی پٹرا‘‘ مار کر ہمیں چھ ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی کا سزاوار ٹھہرا دیا۔ اس کیس کے ہارنے پر پاکستان کیلئے جس ہزیمت کا اہتمام ہوا‘ کیا اس پر ہمارے کرتا دھرتائوں میں سے کسی کو ہلکی سی بھی پشیمانی کا احساس ہوا؟
ارے بھائی! اگر احساس ہوا ہوتا تو براڈشیٹ کے کیس ہی میں اس وطن عزیز کو ہزیمتوں سے بچالیا جاتا۔ مگر…؎
تھی جو قسمت میں سیاہی ‘وہ کہاں ٹلتی ہے
کھیر بھی آئی میرے سامنے دلیہ ہوکر
برطانوی عدالت نے براڈشیٹ کے کیس میں بھی اسکے اٹھائے گئے نقصان کی ساری ذمہ داری ہمارے معتبر احتساب کے ادارے نیب پر ڈال دی اور براڈشیٹ کے مبینہ نقصان کا ازالہ ہمیں اپنے قومی خزانے سے سات ارب روپے نکال کر کرنا پڑا۔ ایسی ہزیمتوں پر اور کچھ نہیں تو کم ازکم اپنی گورننس کے بارے میں تو فکرکرلی جائے۔ سابقین کی بے تدبیریوں کا ڈھول پیٹ کر اپنی ذہنی تسکین کا تو اہتمام ہو سکتا ہے مگر ملک کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔