دکھوں کی سانجھ۔ میںؔ اور رؤف طاہر
Jan 08, 2021

مجھے اپنی قلمکاری کی زندگی میں پہلی بار کالم لکھتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا ہے۔ دو دن تک اس ادھیڑبن ہی میں رہا کہ اپنے لڑکپن کے سجن رؤف طاہر پر کچھ لکھتے ہوئے آغاز کہاں سے کروں۔ بے شک موت برحق ہے‘ کسی کی موت پر یقین نہ بھی آئے تو بھی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ’’کل نفس ذائقہ الموت‘‘ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور قدرت کی جانب سے یہ بے ثبات زندگی کا اٹل پیغام بھی ہے۔ پھر بھی رؤف طاہر کی ناگہانی رحلت پر اب تک یقین ہی نہیں آرہا۔ پیر کی صبح سب سے پہلے مجھے ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کا مختصر سا پیغام وٹس اپ پر موصول ہوا‘ اس وقت میں دفتری کام کا آغاز کرچکا تھا۔ پیغام میں درج لفظ ’’رؤف طاہر‘‘ پر نظر پڑی اور اسے روٹین کا پیغام سمجھ کر نظرانداز کر دیا مگر دل کو دھڑکا سا لگ گیا‘ سو کچھ لمحے کے توقف کے بعد دل نے سارا پیغام پڑھنے پر مجبور کر دیا جس میں برادرم رؤف طاہر کے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر جانے کی جانکاہ خبر دی گئی تھی۔ دل میں بس اک ہوک سی اٹھی اور میں عملاً بے سدھ ہو گیا۔ جب یقین اور بے یقینی کی کشمکش شروع ہوئی تو ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کو فون کرکے تصدیق چاہی۔ انہوں نے رندھے لہجے میں یہ کہہ کر تصدیق کی کہ رؤف صاحب کے بیٹے نے یہ خبر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے۔ میں نے بے یقینی میں رؤف طاہر کے موبائل فون نمبر پر ڈائل کیا‘ بیٹے آصف رؤف نے کال اٹینڈ کی تو فوری طور پر نہ ان سے بات ہو پائی نہ مجھ سے۔ بس سسکیوں اور آہوں کا تبادلہ ہوا۔ آصف نے رؤف بھائی کے سانحۂ ارتحال کی گگھی بندھی آواز کے ساتھ تصدیق کی مگر اس دلِ بے مہر کو پھر بھی یقین نہ آیا۔ کالم لکھنے کا ارادہ باندھا تو ایس ایم ظفر کے آفس سے ملحقہ ڈھابے پر جیتا جاگتا قہقہے بکھیرتا رؤف طاہر میرے اور اشرف ممتاز کے ساتھ گپ شپ کرتا نظر آیا۔ ہائے…؎

تیرا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے 
وہی شباب‘ وہی دلکشی‘ وہی انداز 

قلم رکھ دیا‘ بھئی میں زندہ جاوید رؤف طاہر پر کیا لکھوں‘ کیونکر لکھوں‘ پھر ذہن پر سکوت مرگ طاری ہوگیا‘ کچھ لمحہ توقف کے بعد دوبارہ قلم اٹھایا تو یاروں کا غم خوار رؤف طاہر پھر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں نے اپنی بیٹی سمیرا سعید کی پنجاب یونیورسٹی کی جاب کے حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد سے مشترکہ ملاقات کا کہا تو وہ کھنچا چلا آیا۔ تصور میں یہی محسوس ہوا کہ وی سی صاحب سے ہماری یہی ملاقات ابھی تک جاری ہے اور ہائیکورٹ کیس کی قانونی موشگافیوں میں سے راستہ نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قلم پھر جھٹک کر رکھ دیا۔ کیا میں ایک جیتے جاگتے انسان کا نوحہ لکھوں؟ دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ یاروں کے ہر دکھ کا دم بھرتا اور ہر خوشی کا حصہ بنتا ہمارا بھائی رؤف طاہر ہم میں نہیں رہا۔ دل سے ہوک سی اٹھی…؎

یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا 
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا؟

ہائے ہائے… ’’یاری سوچھ سمجھ کے لاویں‘ ایہہ دُکھڑے عمراں دے‘‘

رؤف طاہر سے میرا تعلق خاطر 1974ء میں اس وقت قائم ہوا جب میں پاکپتن سے اور وہ ہارون آباد سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور آئے۔ ہم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں کلاس فیلو بنے اور چند دوستوں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نے ہمارا دوستوں کا ایک اٹوٹ گروپ بنا دیا۔ میرے اور رؤف طاہر کے علاوہ عبدالرشید مرزا‘ عبدالوحید خان‘ راجا ذوالقرنین ذوق اس گروپ میں اٹوٹ دوستی کے بندھن میں بندھ گئے۔ پیپلز لائرز فورم پنجاب کے سابق صدر اور سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری راجا ذوالقرنین اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ناظم تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی مہم چل رہی تھی‘ فرید پراچہ اسلامی جمعیت کی جانب سے صدر کے امیدوار تھے‘ ہم راجا ذوالقرنین کے ساتھ انکی انتخابی مہم میں جُت گئے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے حلقۂ متفقین میں شامل ہوگئے۔

 یہ ہمارے دور طالب علمی کی سیاست کا بھی آغاز تھا۔ جمعیت کا طوطی بولتا تھا۔ فرید پراچہ سے پہلے جاوید ہاشمی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے جن کی بے باکی کے بھٹو آمریت کے سامنے ڈنکے بجتے تھے۔ ہمارا رومانٹسزم اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ انکے ناطے سے ہی شروع ہوا اور پھر ہمارے گروپ نے اسلامی جمعیت کی تربیتی نشستوں اور ذیلدار پاک اچھرہ میں سید مودودی کے لیکچرز میں بھی عاجزانہ حصہ لینا شروع کر دیا اور ’’جماعتیا‘‘ والا لیبل ہم نے بخوشی قبول کرلیا۔ اگلے سال پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں اسلامی جمعیت کی جانب سے عبدالشکور امیدوار تھے اور ہم انکے ’’ڈائی ہارڈ‘‘ سپورٹر۔ سو کامیابی پھر ہمارا مقدر ٹھہری۔ 

میں نے لاء کی تعلیم کے دوران ہی روزنامہ وفاق میں جزوقتی ملازمت اختیار کرکے پیشہ صحافت کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران دل میں سودا سمایا اور میں نے بے سرو سامانی کے باوجود طلبہ و طالبات کے نمائندہ جریدے ’’سٹوڈنٹ‘‘ کا اجراء کر دیا جس میں عبدالرشید مرزا اور رؤف طاہر میرے ہمقدم ہوئے۔ ہم نے طالب علم رہنمائوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا تو اسلامی جمعیت کی مخالف طلبہ تنظیموں کے الائنس کے ایک سرکردہ لیڈر سلیمان کھوکھر کا انٹرویو ٹائٹل سٹوری کے طور پر شائع کیا۔ وہ یونیورسٹی لاء کالج میں ہمارے کلاس فیلو بھی تھے۔ ہم درحقیقت ’’سٹوڈنٹ‘‘ پر طلبہ کی کسی خاص تنظیم کی چھاپ نہیں لگانا چاہتے تھے اس لئے تمام طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں کی کوریج جریدے کی پالیسی کا حصہ بنایا۔ اسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں سماجی ناہمواریوں کے موضوع پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات میں سے شاہی محلہ کی ایک نامی گرامی طوائف مس شہزادی کو بھی بلایا گیا۔ اسکی تقریر نے سماں باندھ دیا جو سماجی ناہمواریوں کے باعث کسی شریف زاری کے طوائف بننے کے دلائل سے مزین تھی۔ ہم نے اسکی تقریر لیڈنگ سٹوری کے طور پر ’’سٹوڈنٹ‘‘ میں شائع کی اور پھر میں‘ رشید مرزا اور رؤف طاہر ’’سٹوڈنٹ‘‘ کے دس پرچے لے کر مس شہزادی کے ’’کوٹھے‘‘ پر آگئے۔ شائقین و تماشبین تو وہاں نوٹ نچھاور کرنے جاتے تھے مگر ہم نے سٹوڈنٹ کے دس پرچے مس شہزادی کے حوالے کرکے اس سے دس روپے نکلوالئے کیونکہ ایک روپیہ ایک پرچے کی قیمت تھی۔ 

شعبۂ صحافت اختیار کرنے کیلئے میرا اور رؤف طاہر کا ذہنی میلان بھی ایک جیسا تھا۔ چنانچہ میری طرح رؤف طاہر نے بھی اس پیشۂ پیغمبری کو اپنا مسکن بنایا۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی کے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں میں نے رؤف طاہر کے ساتھ کچھ وقت اکٹھے گزارا۔ میں تو وفاق میں واپس آگیا مگر رؤف طاہر وہیں رہے۔ 

پھر ان کا صحافتی سفر مجیب الرحمان شامی صاحب کے بادبان سے ہوتا ہوا روزنامہ جسارت تک آگیا جہاں عبدالکریم عابد صاحب بیورو چیف اور ذوالقرنین انتظامی شعبہ کے ہیڈ تھے۔ رؤف طاہر نے یہاں بطور رپورٹر اپنے صحافتی سفر کو آگے بڑھایا اور پھر عابد صاحب کے انتقال کے بعد وہ لاہور میں جسارت کے بیورو چیف بن گئے جبکہ میں وفاق سے آزاد‘ وہاں سے صداقت اور صحافت سے ہوتا ہوا واپس وفاق میں آیا اور جنگ کے لاہور سے اجراء پر اسکی پہلی نیوز ڈیسک ٹیم کا حصہ بنا مگر چند ہی ہفتوں بعد مجھے نوائے وقت سے بلاوا آیا تو جنگ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نوائے وقت میں آگیا جو تعمیری نظریاتی صحافت کیلئے میرا خواب تھا۔ اس پیشے میں رؤف طاہر کے ساتھ ہی میری سب سے زیادہ ہم آہنگی رہی۔ ہماری شادی بھی ایک ہی سال 1980ء میں ہوئی۔ علامہ اقبال ٹائون میں سکونت بھی ساتھ ساتھ ہی رہی اور صحافتی ٹریڈ یونین کے معرکے بھی ہم اکٹھے سر کرتے رہے۔ رؤف طاہر ذہناً ضیاء کے مارشل لاء کے حامی تھے مگر جمہوریت کا کیڑا انکے ذہن میں موجود تھا اور کھلبلی پیدا کرتا رہتا تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کی ہم نے اکٹھے کوریج کی جس میں ہماری نئی دوستیاں بھی بنیں۔ 1984ء میں لاہور پریس کلب کے احیاء کی ڈان بیورو سے تحریک شروع ہوئی تو ہم بھی اس کا سرگرم حصہ بن گئے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔ پھر پی ایف یو جے برنا اور رشید صدیقی گروپ کے ہم خیال دوستوں نے اس تنظیم کو فعال بنانے اور اسکے آئین کی پاسداری کیلئے پی ایف یو جے دستور گروپ کی بنیاد رکھی تو میں اور رؤف طاہر اسکے پائینئرز میں شامل ہوئے۔ اس پلیٹ فارم پر بھی ہماری بہت معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ رؤف طاہر بلاشبہ ایک سچے‘ کھرے‘ خالص دیانتدار اور اصولوں پر ڈٹ جانے والے باکردار صحافی تھے۔ لاہور پریس کلب کی ہمارے دور کی باڈی نے ہی مشترکہ پریس کلب کی بنیاد رکھی تھی۔ رؤف طاہر 1995ء میں نوائے وقت میں آئے اور رپورٹنگ ٹیم کا حصہ بنے۔ دفتری سیاست میں وہ ہمیشہ میرا دم بھرتے رہے۔ پھر انہوں نے اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کی خاطر اردو نیوز جدہ کی ادارت سنبھال لی اور دس سال سعودی عرب میں گزار دیئے مگر اس دوران ہمارا باہمی رابطہ مسلسل برقرار رہا۔ وہ 2008ء میں واپس آئے تو انکی رضامندی کے ساتھ میں نے انکی نوائے وقت گروپ میں واپسی کا راستہ ہموار کیا۔ محترم مجید نظامی سے بات کی جنہوں نے انکے وقت ٹی وی میں بطور پروگرام اینکر اور نوائے وقت میں بطور کالم نگار تقرر کی منظوری دے دی۔ انہوں نے وقت ٹی وی کے ٹاک شو کا آڈیشن بھی دے دیا مگر اسی دوران انہیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے میڈیا ایڈوائزر کی پیشکش ہوئی تو وہ ڈی جی پی آر آفس میں جا بیٹھے۔ میں اور اشرف ممتاز ہنسی مذاق میں انہیں کہا کرتے تھے کہ ہمارے دوست نے کلاس تبدیل کرلی ہے۔ مگر انکے ساتھ دوستی کا بندھن انکی آخری سانس تک قائم رہا۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کے انتقال پر کالم لکھا تو گویا انہوں نے اپنے دل کا سارا غم اس میں انڈیل دیا۔ کالم پڑھتے ہی میں نے انہیں فون کیا تو میرے آنسو جاری تھے۔ ’’رؤف بھائی! آج آپ نے بہت رلایا ہے‘‘ میرے اس لفظ پر رؤف طاہر کا گلا بھی رندھ گیا اور ہم ٹیلی فون پر بغیر بات کئے آنسوئوں کے ذریعے اپنے دکھی جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ ایسی دردمندی کا جذبہ اب کہاں سے پائوں گا۔ میں تو آج عملاً تنہائ‘ مفلوج اور مغلوب ہوگیا ہوں۔ یادوں کے چلتے جھکڑ ایک کالم میں نہیں سما سکتے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ ہماری نشستیں تو کمال کی رہی ہیں۔ میاں نوازشریف کے ساتھ رؤف طاہر کی رغبت کی ایک الگ کہانی ہے۔ پی ایف یو جے کے اتحاد کیلئے ہمارے آئی ایچ راشد‘ چودھری خادم حسین‘ اورنگزیب اور الطاف ملک کے ساتھ سلسلۂ جنبانی کی ایک الگ داستان ہے۔ اس سلسلۂ تکلم میں عمر بیت جائیگی‘ داستان ختم نہیں ہوگی۔ رؤف طاہر اگلے جہان سدھارے تو ہم بھی انکے پیچھے پیچھے ہی چل رہے ہیں۔ بس بلاوے کا انتظار ہے۔ کیہہ دم دا بھروسہ یار‘ دم آوے نہ آوے۔ 

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com