پہلا دن
Jan 01, 2021

انسانی زندگیوں پر بھیانک اثرات مرتب کرنے اور ننگ و وحشت‘ جنگ و جدل اور امراض و حوادث کے ذریعے دنیا کی عملاً تباہی کا اہتمام کرنیوالا سال 2020ء جس کروفر کے ساتھ اپنی وحشت ناکیوں کا سارا بوجھ آج 21ویں صدی کے 21ویں سال پر لاد کر رخصت ہوا ہے اس پر مجھے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے اپنے ایک عزیز شاعر دوست ریاض نغمی مرحوم کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا ہے۔ ہائے۔ نظام قدرت کے سارے کرب کا تصور کیسے اس شعر میں سمٹ آیا ہے۔ 

فلک کا رنگ ہے نیلا زمیں کی چوٹوں سے 
چھپا کے دونوں کا غم‘ چاند ہو گیا پیلا 

بھئی! یہ دھرتی تو اب انسانی دکھوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اپنے ذہنی خناس میں پالتے پالتے اور کائنات کی ہر چیز کو مسخر کرنے کی لگن کو بڑھاتے بڑھاتے انسان اپنے ہی ہاتھوں وسعت پذیر کی گئی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے محض ایک دائرے‘ ایک نکتے میں سمٹ آیا ہے۔ چنانچہ اس دھرتی کے کسی بھی نامعلوم مقام پر کوئی سانحہ ہوتا ہے‘ کوئی افتاد ٹوٹتی ہے اور کرب و بلا کا کوئی منظر بنتا ہے تو دنیا کے ہر کونے پر موجود انسانوں کو اپنے ہونے اور اپنے ساتھ کسی انہونے کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔ 2020ء نے تو اس روئے زمین پر یہ دھڑکے ایسے لگائے کہ انسان ابھی تک ہوش و حواس کھوئے بیٹھا ہے۔ شاید مکافاتِ عمل میں اب مراجعت کا سفر شروع ہو چکا ہے اور ہم بے بس انسان آسیب کو اوڑھے اس سفر میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو انہونے کا خوف ہمیں دو قدم پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ شاید ترقیٔ معکوس کا لفظ ہمارے آج کے چلن کی مناسبت سے ہی ایجاد ہوا تھا۔ بقول منیرنیازی…؎

منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ 

خدا کی پناہ! 2020ء میں زور پکڑنے والے کرونا وائرس نے اس انسانی معاشرے کی جو درگت بنائی ہے وہ انسانی سرکشیوں پر خالقِ کائنات خداوند کریم کی پکڑ ہی کی عکاس ہے۔ مگر کیا ہم سرکش انسانوں نے اس سے عبرت حاصل کرلی ہے۔ کیا اس نظام قدرت پر غلبہ حاصل کرنیوالے ہمارے توسیع پسندانہ عزائم و مقاصد کہیں ماند پڑے ہیں۔ کیا جنگ و جدل سے ایک دوسرے کو زیر کرنے والا خناس ہماری سرشت سے نکل گیا ہے۔ کیا طبقاتی فرق کو پاٹ کر ہم آپسی بھائی چارے کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔ کیا ہماری حرص و ہوس میں کوئی کمی آگئی ہے۔ اور میں اپنی سوچ کا زاویہ صرف اپنی معاشرت پر مرکوز رکھوں تو کیا کرونا وائرس کی آزمائش نے ہمیں ہماری منافقتوں‘ دوسروں کا حق چھین کر کھانے کی علتوں اور خود کو آقا و عالیجاہ سمجھ کر اپنے سے کمزور انسانوں کی گردنیں ناپنے کی خصلتوں سے خلاصی دلا دی ہے؟ ارے ہم تو انہونی کے خوف میں بھی اپنے کروفر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ کسی قومی کاز کی خاطر اپنی جھوٹی انائوں کی قربانی دینے پر آمادہ نہیں۔ اپنی ذات مجسمۂ عیب ہونے کے باوجود دوسروں کے عیب ڈھونڈ کر نکالنے اور ان کا ڈھنڈورا پیٹنے کے فن میں اتنے یکتا ہو چکے ہیں کہ مکافاتِ عمل کا کوئی ڈراوا بھی ہمارے شعور و لاشعور میں خوف کی کوئی تریڑی پیدا نہیں کرتا۔ اسی لئے ہمیں قدرت کی جانب سے 2021ء کے آغاز ہی میں 2020ء کی غضب ناکیوں سے بھی زیادہ خوفناک آلام و مصائب کی لپیٹ میں آنے کی وارننگ دی جا چکی ہے جو موسمیاتی تغیر و تبدل کی صورت میں اور کرونا وائرس سے بھی زیادہ جان لیوا کسی وائرس کی شکل میں ہم پر نازل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے آج اپنی ساری انائیں‘ حرص و ہوس‘ جاہ و حشمت اور خدائی دعوئوں والے کروفر کو تج کر خالق کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو جایئے اور راضی برضا ہونے کا چلن اختیار کرلیجئے۔ ہمارے عجزوعاجزی کی قبولیت کی کوئی سعد گھڑی شاید ہمیں مزید بھٹکاوے سے بچا لے۔ وماعلینا الالبلاغ۔ 

سال ِ نو کے حوالے سے میری ایک نظم ’’پہلا دن‘‘ کلام سعید میں شامل ہے۔ آج وہی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ ’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘۔

سالِ نو کا پہلا دن ہے اور میں کھویا بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں‘ پہلا دن تو پچھلے سال بھی آیا تھا
اس دن سے اس دن تک میری کتنی سوچیں بدلی ہیں
آج بھی دُکھی ہوں اور تب بھی غم کا گیت سنایا تھا

٭…٭…٭

سوچ رہا ہوں پہلا دن بھی کیا کیا تحفے دیتا ہے
اس دن ساری گزری باتیں آنکھوں میں آجاتی ہیں

اس دن پچھلے زخموں سے بھی ٹیس ابھرنے لگتی ہے
اس دن کی کرنیں تو دل میں اور بھی آگ لگاتی ہیں

٭…٭…٭

میں نے دیکھا ہے انسانوں کے آباد گھرانوں میں
اکثر شام ڈھلے سے ہی تاریکی چھائی رہتی ہے
ان کے چولہوں میں نہ کوئی آگ جلائی جاتی ہے
ان کے آنگن میں نہ ہفتوں کوئی صفائی رہتی ہے

٭…٭…٭

بازاروں اور گلیوں میں جب میری نظریں جاتی ہیں
مجھ کو تو ہر کوئی وہاں مایوس دکھائی دیتا ہے
ہر کوئی‘ ہر لمحے گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ہے
ہر در‘ ہر گھر کے اندر سے شور سنائی دیتا ہے

٭…٭…٭

مانتا ہوں میں یہ سب باتیں مایوسی کی باتیں ہیں
یہ آہوں میں ڈوبی میرے دل کی ہی آواز سہی 
اوروں کو احساس نہ ہو تو کیا میں بھی انجان بنوں
پستی کا انجام بھی پستی‘ یہ اس کا آغاز سہی

٭…٭…٭

بہتر ہے کہ ہم اس دن سے ہی کوئی تدبیر کریں
تاکہ ان تاریک گھرانوں میں بھی کچھ امید بندھے
تاکہ الجھے چہروں پر بھی رونق لوٹ کے آجائے
تاکہ پھرسے کوئی ظالم اپنی خوشیاں چھین نہ لے 

٭…٭…٭

جب تک اپنی قوم کے انساں تن سے ننگے پھرتے ہیں
تب تک اپنی قوم کا ننگا پن بھی چھپ نہ پائے گا 
تب تک اپنی قوم تمدن میں نہ آگے جائے گی 
جب تک ایک اک فرد ہمارا پیٹ نہ بھرکے کھائے گا

٭…٭…٭

جب ہم اپنے دل میں خوش ہوں تب ماحول بھی اچھا ہے
ورنہ جیسے دن ہیں سارے‘ ان میں اک یہ دن بھی کیا ہے
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com