بے شک نظام قدرت کے آگے ہم حقیر پر تقصیر انسانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ کائنات کے سب نشیب و فراز اور انسانوں کے عروج و زوال کے سارے معاملات خالقِ کائنات خداوند کریم کے دستِ قدرت میں ہیں۔ انسانوں کی تقدیریں اور زمانوں کے احوال دست قدرت کے لکھے ہوئے ہیں جنہیں برقرار رکھنے اور تبدیل کرنے کی قدرت بھی ربِ ذوالجلال ہی کو حاصل ہے۔ اسکی منشاء کے بغیر کوئی پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں سرک سکتا۔ ہم نے بہرصورت ہر آئی بھوگنی ہے اور اپنا اپنا نامۂ اعمال ساتھ لے کر جانا ہے۔ پھر بھی دلِ ناآسودہ کو دھڑکے اور وہم سے لگے رہتے ہیں…؎
کل نوں خورے کیہہ ہووے گا‘ ڈردا رہناں
پَل نوں خورے کیہہ ہووے گا‘ ڈردا رہناں
تو بھائی صاحب! اس حیاتِ بے ثبات میں ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‘‘۔ یقیناً یہ ہنگامہ ہماری جستجو کا ہے۔ ہم اپنے اندر انائیں پال کر خدائی کے دعوے دار بن بیٹھے ہیں اور اپنی سرشت میں موجود بھٹکاوے کے عنصر کو پھیلا کر بھٹکتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جنگ و جدل‘ مار دھاڑ‘ چیرپھاڑ‘ حرص و ہوس اور شہنشاہِ معظم کیلئے باادب‘ باملاحظہ‘ ہوشیار کے مناظر و میدان ہماری جبلت کا حصہ بنے بھٹکاوے نے ہی سجائے ہیں۔ سو ہماری مجموعی معاشرتی زندگی بھی اسی بھٹکاوے کا پرتو نظر آتی ہے۔
اللہ کی رسی بے شک دراز ہے اور اس میں بھی ربِ کائنات کی کوئی نہ کوئی حکمت کارفرما ہے۔ انسانی سرکشی بڑھتی ہے تو اس کیلئے دراز رسی کے کھینچے جانے میں بھی ربِ کائنات کی ’’کن فیکون‘‘ کی قدرت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ بے شک انسان نے بہت ترقی کرلی ہے۔ اپنے تجسس کو آگے بڑھاتے بڑھاتے چاند اور مریخ تک کی خبر لینے لگا ہے اور اس ناطے سے اپنے ذہنوں میں یہ خناس سموئے بیٹھا ہے کہ یہ سب سائنس اور سائنسی علوم کا کارنامہ ہے۔ ایسے ناہنجاروں کو خدا کی قدرت کے ساتھ ضد ہے جو یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اسکے خاکی وجود کی تخلیق سے اسکے فنا ہونے تک اسکی ہر جسمانی‘ ذہنی حرکت کا ایک ایک حصہ اور ایک ایک پل دستِ قدرت میں ہے۔ بھئی! اپنے سائنس کے علم سے خاکی جسم کے ڈھیر ہوجانے کے بعد اس میں دوبارہ زندگی کی روح پھونک کر تو دکھائو۔ خالقِ کائنات اگر محض چند لمحات کیلئے اس کائنات کو آکسیجن سے محروم کردے تو اپنی سائنس کے زور پر زندہ رہ کر تو دکھائو۔ دستِ قدرت سے جب زلزلے کی صورت میں زمین جھنجوڑی جاتی ہے تو مشیتِ ایزدی کے بغیر اس لمحے خود کو اور کائنات کو اس آزمائش سے بچا کر تو دکھائو۔ اگر قدرت کے بے بہا خزانوں میں سے کسی لمحے صرف پانی تک انسان کی رسائی ناممکن ہو جائے تو اپنی سائنس کے زور پر اس نظام کائنات کو رواں دواں رکھ کر تو دکھائو۔ ارے…؎
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پائوں پہ جاتا ہے
تیری کیا اوقات ہے بندے‘ جس پہ تو اِتراتا ہے
سائنس نے بے شک بہت ترقی کی ہے۔ نظام کائنات کے رواں دواں رہنے اور نشیب و فراز سے دوچار ہونے کے کچھ معاملات کا کھوج بھی لگالیا ہے۔ زلزلے‘ طوفان‘ بارش اور سردی‘ گرمی‘ حبس اور موسم کی خوشگواری کو جانچنے پر کچھ نہ کچھ قدرت بھی حاصل کرلی ہے مگر حضور والا! یہ خدائی اوصاف بھی تو دستِ قدرت نے ہی ناقص انسانی ذہنوں میں ڈالے ہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آپ کائنات کے مالک و مختار بن بیٹھیں۔ قدرت نے آپ سے جتنا اور جو کام لینا ہے بس اسی تک آپ کو محدود رہنا ہے۔ آپ اس سے آگے نکلنے کا سوچو گے تو بس اسی لمحے آپ کی دراز کی گئی رسی کھینچ لی جائے گی اور آپ کو آپ کی اوقات دکھا دی جائیگی اس لئے کبھی نظام قدرت کو چیلنج نہ کرو اور مشیتِ ایزدی سے ٹکرانے کا کبھی نہ سوچو۔
وزیر اعظم ڈپٹی کمشنر ز کو عوامی مسائل سننے کے احکامات جا ری کریں : امجد نذیر
اس صدی کا موجودہ سال دکھوں اور آلام کے حوالے سے انسانوں پر کتنا بھاری ثابت ہوا ہے اور آنیوالے سال میں انسانی زندگی کا کیا نقشہ بننا ہے‘ کیا حشر ہونا ہے یہ سب خالقِ کائنات کی منشاء کے مطابق ہے۔ اس نے انسانی ذہن کو یہ کھوج لگانے کی رسائی ضرور دے دی ہے کہ اس صدی کے ختم ہونیوالے موجودہ سال دسمبر کے جاتے جاتے بھی انسانوں پر آلام کی افتاد ٹوٹنے والی ہے جو 25 دسمبر سے عملاً قلفی جمانے والے جاڑے اور کئی روز تک جاری رہنے والے طوفانِ بادوباراں کی صورت میں نازل ہو گی اور کرونا وائرس سے بھی انسانی جانوں کیلئے زیادہ سنگین کسی مرض یا آفت کو ساتھ لے کر آئیگی اور اس طرح آنیوالا سال 2021ء بھی لاکھوں بے بس انسانوں کو کرب و آلام سے گزارتا گزارتا انکی فانی زندگی کے خاتمے کی نوبت لے آئیگا تو آپ کو یہ ادراک و آگاہی قدرت کی جانب سے اس وارننگ کی صورت میں دی گئی ہے کہ سنبھل جائو‘ مزید سرکشی اختیار نہ کرو‘ مظاہر قدرت کو چیلنج نہ کرو اور خدائی رویوں سے رجوع کرلو‘ کسی کی حق تلفی نہ کرو‘ شرف انسانیت کو مزید بٹہ نہ لگائو‘ جنگ و جدل کا خناس پال کر اس کائنات میں ہر ذی روح کی ہلاکت اور پورے کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت مت لائو۔
مگر حضور! آپ کی سرشت میں موجود اور غالب ہوتا ہوا بھٹکاوے کا عنصر آپ کو بھلا کہاں ٹکنے دیگا۔ سو ہماری ان سرکشیوں‘ ریاکاریوں‘ بدکاریوں اور خدائی دعوے والی رعونتوں نے ہمارے لئے ربِ کائنات کے غیض و غضب کا اہتمام آنیوالے سال کے دوران بھی کئے رکھنا ہے۔ آپ کرونا کی ویکسین ایجاد ہونے پر فخر و اطمینان کا اظہار کرتے رہیے‘ دستِ قدرت آپ کو اس سے بھی بڑی نئی آزمائش میں ڈال کر آپ کی خدائی سوچوں کے پرزے اڑا دیگا۔
سو آپ آنیوالے سال کا عاجزی سے استقبال کیجئے‘ اپنی اب تک کی سرکشیوں سے کنارہ کرکے اور سچے دل سے تائب ہو کر اور نظام قدرت پر قدرت کی کامل عملداری کا یقین و اعتراف کرکے نئے سال میں داخل ہونے کی تیاری باندھیئے۔ موجودہ سال میں بھگتے گئے انسانی آلام آپ کے کروفر کی حقیقت جاننے اور عبرت حاصل کرنے کیلئے کافی ہونے چاہئیں ورنہ آپ کا رائیگانی کا سفر تو جاری ہے…؎
ڈَھگاّ ڈُوڈھ تے ڈِچکراں ہیٹھلے نوں
رہویں وِچ خیالاں دے کیوں بندے
ویلے پِچھوں توں جاگ کے وَتّ روسیں
لمّی تان کے گیا ایں سَوں بندے
٭…٭…٭