مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید صاحب کو کسی جلسہ کے حدود اربع میں لوگوں کے سمونے اور جلسہ میں موجود اصل تعداد کو جانچنے میں مہارت تامہ حاصل ہے۔ وہ اپنی اس ’’فنی‘‘ استعداد کا مظاہرہ عمران خان کے 2011ء سے 2014ء تک کے پبلک جلسوں کی جانچ پڑتال کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ مینار پاکستان لاہور کی وسیع و عریض گرائونڈ میں عمران خان کا 2011ء کا جلسہ بلاشبہ بہت بڑے پبلک جلسوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس روز وقت ٹی وی کے لائیو ٹاک شو میں پرویز رشید صاحب میرے ہمراہ تھے اور باقاعدہ فیتہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ وہ جلسہ والے مقام کو تصورات میں ناپ کر وہاں موجود کرسیوں اور حاضرین کا تخمینہ لگاتے رہے اور اس جلسہ کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے انہیں دس اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے لاہور ایئرپورٹ سے برآمد ہونیوالے جلوس اور وہاں سے مینار پاکستان تک جلسہ گاہ بنی شاہراہ قائداعظم اور لوئر مال روڈ اور پھر سورج ڈوبنے کے بعد مینار پاکستان پر منعقد ہونیوالے اس روز کے جلسہ کی یاد دلائی۔ پرویز رشیدصاحب کا اس وقت پیپلزپارٹی کے جیالوں میں ہی شمار ہوتا تھا۔ میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی لاہور آمد پر علی الصبح انکے فقیدالمثال استقبال سے مینار پاکستان کے شام کے جلسہ تک نوائے وقت کیلئے اس دن کے ہر لمحہ کی کوریج کررہا تھا۔ چنانچہ میں پورے اعتماد کے ساتھ گواہی دیتا رہتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑا پبلک اجتماع نہ پہلے کبھی ہوا‘ نہ آج کے دن تک ہو پایا ہے۔ علامہ خادم رضوی کا عظیم الشان اور یادگار جنازہ تو قطعی الگ معاملہ ہے اور اس کا کسی سیاسی اجتماع سے موازنہ کرنا بھی نہیں چاہیے کہ یہ کسی قسم کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پایاں محبت و عقیدت کے ناطے مسلمانوں کے ملی جذبات کا اظہار تھا جس کا تقابل کسی سیاسی اجتماع کے ساتھ ممکن ہی نہیں۔ اسکے علاوہ کوئی ریکارڈ ساز سیاسی اجتماع ہوا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا دس اپریل 1986ء والا اجتماع ہی تھا جبکہ بعدازاں خود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنا قائم کردہ یہ ریکارڈ نہ توڑ سکیں۔
میں نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفی سے ایم آر ڈی‘ پی ڈی اے‘ پی ڈی ایف‘ سی اوپی‘ پاکستان عوامی اتحاد‘ اے آر ڈی اور اے پی ڈی ایم سمیت ہر اپوزیشن اتحاد کے جلسے جلوس دیکھے ہوئے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالحمید بھاشانی کی کسان تحریک کا بھی نوعمری میں مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور حکومت مخالف ایسے پبلک اجتماعات اور مظاہروں کیخلاف حکومتی جبر اور پابندیوں کو بھی دیکھا اور کبھی کبھار بھگتتا بھی رہا ہوں چنانچہ عمران خان کے 2011ء والے مینار پاکستان کے جلسے پر لائیو ٹاک شو میں تبصرہ کرتے ہوئے بھی میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے مینار پاکستان والے اجتماع کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا تھا اور پرویز رشید صاحب نے بھی اس سے اتفاق کیا مگر وہ عمران خان کے پبلک اجتماع کے فلاپ ہونے کی اپنی منطق پر حدود اربع اور کرسیاں لگی جگہ کی پیمائش کرکے بھی مجھے قائل نہ کرسکے۔ آج کل وہ کہیں گم یا گم صم ہیں اس لئے وہ حکومتی اور اپوزیشن اجتماعات کے شرکاء کی تعداد کا کہیں تقابلی جائزہ لیتے نہیں پائے جاتے البتہ حکمران پی ٹی آئی کو اپوزیشن کے جلسوں کی ایسی ہی پیمائش کرنیوالے صوبائی وزیر‘ مشیر فیاض الحسن چوہان اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی شکل میں اور وفاق کی سطح پر بھی علی زیدی اور شہبازگل کی شکل میں کھوجی اور ’’کاہڈے‘‘ دستیاب ہیں جنہوں نے پی ڈی ایم کے گزشتہ روز کے مینار پاکستان والے جلسے کو باقاعدہ ناپ تول کر فلاپ ثابت کر دکھایا اور نئے نئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو تو اپوزیشن اتحاد کی کشتی بیچ منجدھار میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے مگر بھلے لوگو! کبھی یہ بھی سوچ لیا کرو کہ عوامی غم و غصہ کے اظہار والے ایسے پبلک اجتماعات کی نوبت کیوں آتی ہے۔ عمران خان نے اپنے مینار پاکستان والے 2011ء کے پبلک جلسہ کے ذریعہ حکومتی اتھارٹی اور گورننس کو چیلنج کیا اور تبدیلی کا نعرہ لگایا تو اس وقت کی حکومتی پالیسیوں کے باعث گھمبیر ہوتے روٹی روزگار اور مہنگائی کے مسائل سے راندۂ درگاہ ہوئے عوام کا غم و غصہ ہی انکے تبدیلی کے نعرے کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا تھا اور وہ اپنی سیاست کے صفر کے زاویہ سے آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے تھے۔ انکے مینار پاکستان والے جلسے نے ہی 2013ء کی جمہوریت میں انہیں خیبر پی کے کی صوبائی حکمرانی کا حقدار بنایا اور قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا مقام دلایا اور پھر روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کیخلاف انکے شامل حال ہوئے عوام کے سیاپے نے ہی انہیں 2018ء کی جمہوریت میں وفاقی اور صوبائی حکمرانی سے ہمکنار کیا ہے اس لئے اب آپ اپنے ہاتھوں بڑھائے اور نئے پیدا کئے گئے عوام کے مسائل کی بنیاد پر عوامی غم و غصے کا جائزہ لے کر اپوزیشن کے پبلک جلسوں کا مشاہدہ اور موازنہ کریں گے تو آپ کو اپنے مصاحبین کی جانب سے فلاپ کا ڈھول پیٹنا دل کو تسکین حاصل ہونے کے باوجود حقائق کی عکاسی کرتا نظر نہیں آئیگا۔ حضور! آپ کسی کا گلا دبا کر اسے یہ تنبیہہ نہیں کر سکتے کہ تم میرے اس عمل کے ردعمل میں آنکھیں کیوں نکالتے ہو۔ یہ تو اس کا فطری ردعمل ہوگا۔ ارے صاحب!
بھُکھّے کولوں برُکی کھوہ کے کہندے او کہ بولے نہ
جس دا جُھگا بھُجے آخر اوہ تے رولا پاوے گا
اس لئے آپ ’’فلاپ‘‘ کے ڈھول پر مسحور ہونے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے سکون لینے کے بجائے پبلک جلسوں اور لانگ مارچ کی نوبت تک پہنچنے والی اپوزیشن تحریک کے اصل اسباب و محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ…؎
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اور یہ تو بہت کچھ ہے حضور والا! تبدیلی کے خواب دیکھنے والے راندۂ درگاہ عوام آپ کے عوامی اقتدار کے اڑھائی سال کے عرصے کے دوران اصل سکون اور آرام کی خاطر فی الواقع قبرستانوں کی جانب لڑھکتے چلے جارہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اجتماعی خودکشی کے واقعات شاید آپ کی آنکھوں سے محو ہیں۔ الیکشن افسر کی تین چار اسامیوں کیلئے موصول ہونیوالی ڈیڑھ دو لاکھ درخواستیں جو الیکشن کمیشن کے آفس میں سمائی نہیں جارہیں‘ آپ کو موصول ہونیوالی سب اچھا کی رپورٹ میں شاید شامل ہی نہیں کی جاتیں۔ اور آج بڑھتی مہنگائی کا شمار تو کانوں کو ہاتھ لگا کر بھی نہیں ہو پائے گا۔ تو حضور! عوام کا یہی کرب اور دکھ ہے جو انہیں پی ڈی ایم کے احتجاجی پروگراموں کی جانب دھکیل رہا ہے۔ آپ ایسے عوامی غم و غصے کا توڑ فلاپ کے ڈھول بجوا کر سوچیں گے تو ناچتی ہوئی بھوک ساری اقدار ملیامیٹ کردیگی۔…؎