آج دیکھیں گے ‘ پی ڈی ایم میں کتنے گن ہیں
Dec 08, 2020

اقتدار کی راہداریوں میں استعفوں کی سیاست بھی کوئی آج کی سیاست نہیں ہے اس لئے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متوقع استعفوں کی سیاست کسی اچھوتے طرز سیاست کے زمرے میں آئیگی نہ ماضی سے مختلف اسکے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آج پی ڈی ایم کی ہائی کمان نے اپنے اجلاس میں تحریک کا اگلا لائحہ عمل طے کرنا ہے جس میں اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی بابت کوئی قطعی فیصلہ متوقع ہے۔ اب تک کی اندر کی خبر تو یہی ہے کہ پی ڈی ایم کی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی فی الحال استعفوں کا آپشن استعمال نہیں کرنا چاہتی جبکہ اپوزیشن اتحاد کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو استعفوں کا آپشن استعمال کرنے کیلئے تیار ہونے کے باوجود یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے کہ اس سیاست میں اسکے متعدد ارکان اسمبلی استعفوں سے انکار کرکے اپنی پارٹی قیادت سے الگ راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قائد مریم نواز نے گزشتہ روز اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا ورکرز کنونشن میں اسی بنیاد پر یہ ڈراوا دیا کہ انکی پارٹی کا جو رکن اسمبلی استعفوں کے فیصلہ کا ساتھ نہیں دیگا‘ پارٹی کارکن اسکے گھر کا گھیرائو کرینگے۔ انکے بقول پی ڈی ایم کے آج کے اجلاس میں ’’آریاپار‘‘ کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس سے یہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ پی ڈی ایم کی جو جماعت استعفوں کے فیصلہ کا حصہ بننے سے گریز کریگی اسکی پی ڈی ایم سے راہیں جدا ہو جائیں گی اور پھر پی ڈی ایم کی اپنی حیثیت بھلا کیا رہ جائیگی۔ اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کی طاقت وہی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کا استعفوں کی سیاست میں مؤثر کردار ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی دوسری سے سیاسی راستہ الگ کرنا پی ڈی ایم کی موت کا راستہ نکالنے کے مترادف ہوگا سو مریم نواز کا اعلان کردہ یہی آریا پار ہے۔ 

اگر پی ڈی ایم نے استعفوں کی سیاست فی الواقع حکمران پی ٹی آئی اور اسکی اتحادی جماعتوں کیلئے آئندہ مارچ میں سینٹ کے انتخابات میں سرخروئی کی نوبت نہ آنے دینے کی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی صف بندی مضبوط بنانا ہوگی ورنہ یہ سیاست بھی چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اٹھائی گئی سبکی میں ایک اور سبکی کا اضافہ کریگی۔ اگر پی ڈی ایم کی صف بندی مضبوط ہو جائے اور اس میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی حلفاً پارٹی قیادت کے ہر فیصلے کی تعمیل کا خود کو پابند بنالیں تو سینٹ کے انتخاب سے پہلے اپوزیشن اتحاد قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اور بلوچستان میں حکمران اتحاد کا جھٹکا کرسکتی ہیں جس کے بعد استعفوں کی سیاست نئی اپوزیشن کی جانب منتقل ہو جائیگی اس لئے موجودہ اپوزیشن کیلئے زیادہ سودمند سیاست ہائوس کے اندر تبدیلی کیلئے اپنی صف بندی مضبوط بنانے کی ہو سکتی ہے۔ آج پی ڈی ایم کی ہائی کمان کو اپنے اجلاس میں بالخصوص اس معاملہ پر ضرور اپنا کتھارسس کرنا چاہیے کہ وہ چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اٹھائی گئی سبکی کے مداوا کے قابل ہو چکی ہے یا نہیں۔ آپ پراعتماد ہیں تو پھر اپنے ارکان اسمبلی کو استعفوں کی آزمائش میں کیوں ڈالتے ہیں۔ انہیں یکسو کرکے اور حکومتی اتحاد میں سے مطلوبہ ’’دانے‘‘ نکال کر اپنے پلڑے میں ڈالئے اور اقتدار کی بساط الٹ دیجئے ورنہ استعفوں کا آپشن استعمال کرکے بھی آپ کے ہاتھ پلے کچھ نہیں آئیگا۔ 

ویسے تو عدم اعتماد کی تحریک کیلئے ماضی کے تجربات بھی کوئی سودمند نہیں رہے۔ اس سیاست میں اب تک صرف دو مراحل میں کامیابی ہوئی ہے اور وہ بھی پنجاب اور بلوچستان اسمبلی میں۔ پنجاب کی 90ء کی اسمبلی میں حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) کے اندر ہی بغاوت کرائی گئی اور سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو کے ہاتھوں وزیراعلیٰ غلام حیدروائیں کا دھڑن تختہ کرایا گیا۔ اسی طرح بلوچستان کی 2013ء والی اسمبلی میں حکومتی اتحاد ہی میں ڈنٹ ڈلوا کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی بساط الٹائی گئی۔ ’’یہ کامیابیاں‘‘ بطور خاص کسی اپوزیشن جماعت یا اپوزیشن اتحاد کا طرۂ امتیاز تو نہیں بنی تھی‘ انکے پیچھے بھی وہی ’’چھومنتر‘‘ اثر پذیر ہوا تھا جو چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کیلئے مجرب نسخہ بنا تھا ورنہ تو حکومت کیلئے سخت آزمائش والے 88ء کی اسمبلی کے دور میں بھی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کیخلاف مضبوط اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک بھی کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ 

عدم اعتماد والی سیاست میں صرف ایک سرخروئی اب تک ہماری سیاسی تاریخ میں ریکارڈ ہوئی ہے اور یہ سرخروئی بھی ووٹوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ مواخذے کی تحریک کا سامنا نہ کر پانے والے صدر مشرف کے استعفے کی بنیاد پر حاصل ہوئی جنہوں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مار کر 2008ء کے انتخابات میں اپنی ساختہ مسلم لیگ (ق) کی دوبارہ کامیابی کی راہیں پیپلزپارٹی کے ساتھ کئے گئے این آر او کی خوش فہمی میں خود ہی مسدود کردی تھیں ورنہ تو اس پارٹی کی قیادت انہیں مزید دس ٹرموں کیلئے وردی سمیت صدر مملکت کے منصب پر برقرار رکھنے کے عزم پر کاربند تھی جبکہ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر پہلا کام ہی ان کیخلاف مواخذے کی تحریک پیش کرنے اور پھر پارلیمنٹ میں اس تحریک کی کامیابی کی فضا ہموار کرنے کا کیا چنانچہ مشرف کے پاس دو راستے ہی بچے کہ وہ یا تو مواخذے کی تحریک کی کامیابی کی ہزیمت اٹھا کر ایوان صدر چھوڑ دیں یا اس تحریک کیلئے ووٹنگ سے پہلے ہی استعفیٰ دیکر آبرومندی کے ساتھ ایوان اقتدار سے باہر نکل آئیں سو انہوں نے دوسرا راستہ اپنایا اور ریڈکارپٹڈ الوداعی سلامی لے کر اقتدار سے ہی نہیں ملک سے بھی باہر چلے گئے۔ 

آج کی اپوزیشن کی یہی آزمائش ہے کہ وہ استعفوں یا عدم اعتماد کی سیاست میں خود کتنی مضبوط اور متحد ہے۔ اگر اسے اپنی مضبوط صف بندی کا یقین ہو جائے تو استعفوں کا آپشن ویسے ہی بیکار ہو جائیگا اور پھر انتقامی سیاست کو بھی بیک گیئر لگ جائیگا ورنہ استعفوں کی سیاست میں پیپلزپارٹی بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریگی جس کے پاس سندھ کا اقتدار ہے اور اس اقتدار کے بل بوتے پر ہی وہ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانے کی پوزیشن میں ہوگی جس کے پاس عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا یہ جواز موجود ہوگا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں کام کرنے ہی نہیں دیا۔ 

اب استعفوں کی سیاست سے کچھ حلقوں کو یہ توقع ہے کہ اس سیاست کے دبائو میں سسٹم کو بچانے کے نام پر ہائوس کے اندر تبدیلی کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے مگر جناب! گزشتہ اسمبلیوں میں اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے براہ راست سپیکر قومی و پنجاب اسمبلی کو بھجوائے گئے اجتماعی استعفوں اور پھر ایم کیو ایم متحدہ کے اجتماعی استعفوں سے کیا ہائوس کے اندر تبدیلی کی گنجائش نکل پائی تھی یا نئے انتخابات کی نوبت آگئی تھی؟ آئینی طور پر تو وہ سارے استعفے سپیکر سیکرٹریٹ کو موصول ہوتے ہی منظور ہو گئے تھے مگر اس وقت کے قومی اور صوبائی سپیکروں نے آئین کے اس تقاضے سے انحراف کرتے ہوئے یہ استعفے واپس لوٹا دیئے صرف اس خدشے کے تحت کہ خالی نشستوں کے ضمنی انتخابات میں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ حالانکہ یہ ساری نشستیں مستعفی جماعت ہی جیت لیتی تو ہائوس کی ہیئت ترکیبی میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ موجودہ حکمران جماعت بھی آپ کی استعفوں کی سیاست میں یہی حکمت عملی اختیار نہیں کریگی؟ یہ حکمت عملی اسکی تو ضرورت ہوگی تاکہ سینٹ کے انتخابات تک اسکے حلقۂ انتخاب کو بچائے رکھا جائے۔ 

اس سیاست میں اگر اپوزیشن کی کوئی حکمت عملی کارگر ہو سکتی ہے تو وہ سندھ اسمبلی کو توڑ کر سینٹ کو ایک حلقۂ انتخاب سے محروم کرنے کی حکمت عملی ہے جس کے باعث سینٹ کے انتخابات لٹک جائیں گے۔ سو ترپ کا پتہ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ آج دیکھتے ہیں پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے اجلاس میں بھی یہ پتہ شو کرتی ہے یا نہیں۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com