اب کی بار تو لگتا ہے‘ انسانی زندگیاں پت جھڑ کے موسم کی زد میں آگئی ہیں۔ کرونا تو بس اک بہانہ بنا ہے مگر بچھڑنے والے دوست احباب کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ایک پل ایک دوست عزیز کے اس جہانِ فانی سے اچانک رخصت ہونے کی خبر ملتی ہے تو دوسرے پل ایک اور سنگی ساتھی ازلی جدائی کا چرکہ لگا جاتا ہے۔ اور کیفیت ایسی بن گئی ہے کہ…؎
اجے اگلے اتھرو سُکے نئیں
لَو ہور جنازے آگئے نیں
ارے بھائی صاحب! اس گوشت پوست کے انسانی لوتھڑے کی اوقات ہی کیا ہے۔ مسبب الاسباب نے نظامِ کائنات میں جس کا جو اور جتنا کردار رکھا ہے‘ اس نے کم نہ زیادہ‘ بعینہ وہی کردار نبھانا ہے اور پھر مشیت ِایزدی سے اس نے اگلے سفر کو نکل جانا ہے۔ بس اب یہ چل چلائو کچھ زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے اور…؎
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے ‘ زندہ رہیئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
بھئی بے ثبات زندگی میں‘ جس میں اگلے لمحے کی بھی خبر نہیں‘ ہم سو برس کی آسودگیوں کا اہتمام کرکے بیٹھے ہوں اور ہذا من فضلِ ربیّ کی گردان کئے جارہے ہوں تو رب کی آزمائش کچھ زیادہ ہی جھنجوڑ جاتی ہے۔ ایک’’کُن‘‘ کی مرہونِ منت کائنات کی بھلا ربِ کائنات کے نزدیک کیا اوقات ہے۔ یہ تو زلزلے کا ایک جھٹکا برداشت نہیں کر پاتی اور مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ آسمانوں پر کڑکتی بجلی اتنا لرزاتی ہے کہ تنفس کا سلسلہ بے ترتیب کردیتی ہے اور آج کی کرونا جیسی نامعلوم اور غیرمحسوس آفت پلک جھپکتے میں انسانی لاشوں کے کشتوں کے پشتے لگا جاتی ہے۔ پھر بھی ہمارا کروفر ہے کہ کہیں ٹکنے کا نام ہی نہیں لیتا مگر ہماری حیثیت و حقیقت یہی ہے کہ…؎
پل میں یوں تبدیل سب منظر ہوا
جو یہاں تھے‘ وہ کہیں کھونے لگے
اسی منظر میں آج میں رفتگاں کی یاد میں کھویا بیٹھا ہوں اور ’’کِسے یاد رکھیں‘ کِسے بھول جائیں‘‘ کے شش و پنج میں پڑا ہوں۔ کیسے کیسے گوہرنایاب ہم نے عہد کرونا کے اب تک کے مختصر عرصے کے دوران کھو دیئے ہیں۔ انکے نام لکھنا شروع کروں تو اس کالم میں مزید کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں نکل پائے گی۔ اب کرونا کی دوسری لہر نے باقیماندگان کی چل چلائو کی قطاریں لگا دی ہیں‘ بس محفلوں کی رونقیں ہی اٹھتی چلی جارہی ہیں اور ستم یہ ہے کہ ایک جاتا ہے تو پچھلے گزرے ہوئوں کی یادوں کی جوت بھی جگا جاتا ہے۔ بالخصوص میری جن احباب کے ساتھ نیازمندی رہی وہ تو بہت تیزی سے اٹھتے جا رہے ہیں سو…؎
ہوا ہی ایسی چلی ہے کہ جی بحال نہیں
وگرنہ ہم تو بہت کم اداس رہتے ہیں
غیریقینی کی کیفیت ایسی بن گئی ہے کہ یقین کہیں ٹکتا نظر ہی نہیں آرہا اور حالت ایسی ہے کہ…؎
خوف کے یوں بیج ہم بونے لگے
کوئی دستک دے تو گھر رونے لگے
پچھلے دنوں یکے بعد دیگرے اپنے محترمین و احباب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی‘ سعود ساحر‘ انورعزیز چودھری‘ احمد مختار کے اچانک وداع ہونے کے جھٹکے برداشت کرنا پڑے تو یوں محسوس ہوا جیسے…؎
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
سو اب تو قرار والا کوئی ماحول ہی نہیں رہا۔ بس رفتگاں کی یاد ہے اور ہم ہیں دوستو۔ تلخ یادوں کے اسی موسم میں ہمارے ’’بادشاہ‘‘ جہانگیر بدر کی برسی بھی گزر گئی۔ اور اب بالخصوص سعود ساحر اور چودھری احمد مختار کی زندگیوں کے پت جھڑ کے اس موسم میں بکھر جانے سے ہمارے ایک دیرینہ خوابیدہ دوست فاروق قریشی کی یادیں بھی اچانک تازہ ہو گئی ہیں جن کی دو روز بعد 30 نومبر کو برسی ہے۔
ہم تو واقعی انہیں بھول بھلا بیٹھے تھے مگر انکے داماد سہیل اختر ملک نے اچانک انکی یادوں کی گھنٹی بجا دی اور پھر 80ء کی دہائی کے وہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے آکر تلخ و شیریں یادوں کے کچوکے لگانے لگے۔ میری ان سے یاداللہ کا سلسلہ کیمپ جیل لاہور میں شروع ہوا تھا۔ یہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا دور تھا اور ملک کی تمام جیلیں پی این اے کے کارکنوں اور قائدین سے بھر گئی تھیں۔ 23؍ مارچ 1977ء کو ائرمارشل اصغر خان کے جلوس کی کوریج کیلئے چوک لاہور ہائیکورٹ آیا۔ حکومتی جبر وتسلط کے باعث اس جلوس کی تو نوبت نہ آسکی البتہ نرم چارہ بنے پی این اے کے کارکن ضرور جلالی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور میں خواہ مخواہ میں انکی دھمک اور دھاک کی زد میں آکر ’’اسیرتحریک‘‘ بن گیا۔ رائو مہروز اختر کا صاحبزادہ مسعود اختر بھی پولیس تشدد سے لہولہان ہو کر میرے ساتھ ہی گرفتار ہوا اور ہمیں پولیس تھانہ سول لائنز میں پہنچا کر قتل‘ ڈکیتی‘ بلوے کے 18 سنگین مقدمات کی سلامی دی گئی اور رات بھر پولیس حوالات میں جگائے رکھنے کے بعد ہمیں اگلے روز ڈسٹرکٹ کیمپ جیل لاہور منتقل کر دیا گیا۔ وہیں پر میری ملک محمد قاسم‘ خان اقبال احمد خان‘ رائو مہروز اختر‘ لیاقت بلوچ‘ محمد فاروق قریشی اور پی این اے کے دوسرے اسیر قائدین اور کارکنوں سے ملاقاتیں ہوئیں جو گہری دوستیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ فاروق قریشی کا 1981ء سے شروع ہونیوالی ایم آر ڈی کی کٹھن تحریک کے دوران بھی نمایاں کردار رہا۔ ان کا ریگل چوک کے سامنے صوبہ خان ٹیلر سے ملحقہ ایک گھر میں ڈیرہ تھا چنانچہ ہائیکورٹ سے ریگل چوک تک ایم آر ڈی کا جو بھی احتجاجی پروگرام ہوتا فاروق قریشی اسکے روح رواں ہوتے۔ شام کو اکثر صوبہ خان ٹیلر کے سامنے ریگل چوک کے فٹ پاتھ پر ہماری نشستیں ہوتیں جہاں فاروق قریشی کرسیاں لگوا دیتے چنانچہ علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ حبیب جالب‘ اسلم گورداسپوری‘ رؤف طاہر‘ ذوالقرنین‘ سہیل اختر ملک‘ اکثر ان نشستوں میں رونق محفل بنا کرتے۔ حبیب جالب سے انکی رومانوی شاعری بھی انہی نشستوں میں سننے کا موقع ملا۔ ضیاء مارشل لاء کی سختیاں اور ایم آر ڈی کی تحریک کا جوش و ولولہ‘ پھر روزانہ گرفتاریاں دینے کی حکمت عملی نے تو حکومتی تدبیروں کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ شفیق و ملنسار فاروق قریشی کی روزانہ کی مہمان نوازی نے ہمیں انکی محبتوں کا اسیر کر دیا۔ آج کے سیاسی کلچر میں تو ایسی رواداری اور ملنساری عنقاء ہو گئی ہے۔…؎