امریکی عوام کے شعور کو میرا سلام
Nov 06, 2020

امریکی عوام کی اب تک کی سائیکی تو یہی رہی ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں امیدوار کو نہیں‘ اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور اقتدار پر براجمان ہونیوالی جماعت کی دو ٹرمیں ضرور پوری کراتے ہیں جس کیلئے امریکی آئین میں ایک ہی صدر کی صرف دو ٹرموں کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اگر موجودہ امریکی صدارتی انتخاب میں ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی دوسری ٹرم کیلئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے اب تک کے موصولہ نتائج کے مطابق قوی امکانات بھی موجود ہیں اور انکے مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کو نمایاں برتری حاصل ہورہی ہے تو امریکی انتخاب میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکی عوام ایک پارٹی کی اقتدار کی دو ٹرمیں پوری کرانے کیلئے اپنی جاری روایت توڑنے پر مجبور ہوئے ہونگے۔ گزشتہ صدارتی انتخاب میں اگرچہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن اپنے مدمقابل ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اپنی شہرت اور مقبولیت کی بلندی پر تھیں مگر وہ صدر منتخب ہو جاتیں تو اس انتخاب میں بھی امریکی عوام اپنی سائیکی تبدیل کرکے انہیں منتخب کرتے اور اپنی روایت سے ہٹ کر امریکی انتخاب کی نئی تاریخ مرتب کرتے مگر ہلیری کی مقبولیت کے بام عروج پر پہنچنے اور ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ان سے سرزد ہونیوالی حماقتوں اور مسلم کمیونٹی کیخلاف اپنی انتہاء پسندانہ سوچ کے باوجود امریکی عوام نے صدارت کا تاج انکے سر پر ہی رکھا کیونکہ اس انتخاب سے پہلے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے اقتدار کی دو ٹرمیں مکمل کر چکی تھی۔ 

امریکی عوام کو اپنی اس روایت کی بنیادپر تو ری پبلکن کی دوسری ٹرم کیلئے ٹرمپ کے سر پر ہی صدارت کا تاج رکھنا چاہیے تاہم اب امریکی عوام ایک پارٹی کی دو ٹرمیں پوری کرانے کی روایت سے باغی نظر آئے ہیں اور ری پبلکن امیدوار کی جگہ پھر ڈیموکریٹک پارٹی کو مسند اقتدار پر بٹھانا انہوں نے اپنی مجبوری بنایا ہے تو امریکی عوام کی سوچ کی یہ تبدیلی لازمی طور پر ٹرمپ کی حرکتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو کچلنے والی انکی انتہاء پسندانہ سوچ کے ردعمل میں رونما ہوئی ہے۔ امریکی عوام درحقیقت پارٹی کی پالیسیوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور وہ کسی پارٹی کے امیدوار کو نہیں بلکہ اسکے منشور کو ووٹ دیتے ہیں۔ چونکہ امریکہ میں روایتاً دو جماعتی نظام مستحکم ہو چکا ہے جس میں امریکی عوام کو ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس لئے ہر پارٹی کے دور اقتدار کی پالیسیوں کو سامنے رکھ کر انہیں اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کیلئے بہتر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے جبکہ ایک پارٹی کی دو ٹرمیں پوری کرانے کی روایت انہوں نے حکومتی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے خود ہی ڈالی ہوئی ہے۔ ہمیں اس تناظر میں کبھی ایسی خوش فہمی نہیں رہی اور نہ ہی ہونی چاہیے کہ فلاں پارٹی اقتدار میں ہوگی تو پاکستان امریکہ تعلقات بہتر ہو جائینگے اور اسکے برعکس دوسری پارٹی اقتدار میں آئیگی تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائیگا کیونکہ پاکستان اور دوسری بیرونی دنیا کیلئے امریکی پالیسی برسراقتدار پارٹی کے منشور کے ہرگز تابع نہیں ہوتی۔ اس میں سراسر امریکی مفادات کو پیش نظر رکھا اور فوقیت دی جاتی ہے۔ سو اقتدار چاہے ری پبلکنز کا ہو یا ڈیموکریٹس کا‘ پاکستان اور دوسرے ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات امریکی مفادات کے تابع رہیں گے۔ اگر کسی وقت امریکہ پاکستان کا دوست نظر آئیگا تو ایسا امریکی مفادات کی بنیاد ہی ہوگااور اسی طرح جب امریکہ کی جانب سے پاکستان کو گرم ہوا کے جھونکیں آئیں تو یہ امریکی مفادات کا ہی تقاضا ہوتا ہے۔ برسراقتدار پارٹی نے تو بس امریکی مفادات کے تابع رہ کر بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کی سمت متعین کرنا ہوتی ہے اور امریکی آئین میں وضع کردہ امریکی پالیسی یہ ہے کہ اپنے مفادات اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر امریکہ کو کسی بھی ملک پر حملہ آور ہونے کا حق حاصل ہے۔ اگر ہم امریکی مفادات کی امریکہ سے بھی آگے بڑھ کر تابعداری اور پاسداری کر رہے ہوں تو امریکی حکومت چاہے ہماری سول یا جرنیلی حکومت کو ناپسند بھی کرتی ہو تو بھی امریکہ ہمارے لئے ریشہ خطمی رہے گا اور جیسے ہی ہم میں خودداری والی سوچ پیدا ہوگی جس کے شائبہ کی بھی امریکہ کو بھنک پڑ جائیگی تو حکومت ریپبلکنز کی ہو یا ڈیموکریٹس کی‘ ہمیں رگیدنا اور انتہاء درجے کی دشمنی پر اتر آنا امریکی پالیسیوں کا حصہ بن جائیگا۔ آپ خود تصور کر لیجئے امریکی نائن الیون کا واقعہ ری پبلکنز حکومت کے دوران صدر بش جونیئر کے دور میں رونما ہوا جس کی بنیاد پر امریکہ نے پاکستان کو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا کر بھی اسے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں کے تحت رگیدنا اپنی پالیسی کا حصہ بنایا تو یہ امریکی پالیسی ڈیموکریٹس کے صدر باراک اوبامہ کے دونوں ادوار میں بھی برقرار رہی اور ہماری خودداری اور خودمختاری کو کھلم کھلم چیلنج کرنیوالا ایبٹ آباد اپریشن اور اسی طرح سلالہ چیک پوسٹوں پر امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے حملے بھی اوبامہ کے دور میں انکی سرپرستی میں ہوئے۔ پھر ٹرمپ نے آکر پاکستان کا ’’سکریو‘‘ مزید ٹائٹ کیا اور اسکی سول اور فوجی گرانٹ تک روک کر اسکی سلامتی کو بھارت کی مودی سرکار کے لب و لہجے میں چیلنج کرنا شروع کر دیا تو ایسا انہوں نے پاکستان کے حوالے سے امریکی مفادات پر مبنی پالیسی کے تابع ہی کیا۔ اسی طرح امریکہ کو ٹرمپ کے دور میں افغانستان سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کیلئے پاکستان کی معاونت حاصل کرنے کی مجبوری لاحق ہوئی تو یہی ٹرمپ پاکستان کیلئے ریشہ خطمی نظر آیا۔ اگر اس موقع پر ڈیموکریٹ صدر امریکی اقتدار پر براجمان ہوتا تو اسکی بھی ہمارے ساتھ ایسی ہی پالیسی ہوتی۔ چنانچہ 3؍ نومبر 2020ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں‘ جوبائیڈن اقتدار میں آتے ہیں یا سال 2000ء کے امریکی انتخاب کی طرح اس بار ری پبلکن ٹرمپ امریکی سپریم کورٹ کا سہارا لے کر پھر اقتدار کی راہداریوں میں بدمستیاں کرتے نظر آتے ہیں تو بھی ہمارے ساتھ امریکہ کا وہی رویہ‘ وہی پالیسی ہوگی جس کی امریکی مفادات کے تحت واشنگٹن انتظامیہ کو ضرورت ہوگی۔ 

موجودہ صدارتی انتخاب میں اصل بات تو امریکی عوام کے فیصلہ کی ہے۔ اگر اس فیصلہ کی بنیاد پر ری پبلکن پارٹی کی ایک ہی ٹرم کے بعد دوبارہ ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں آرہی ہے تو پھر بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں امریکی مفادات پر مبنی پالیسی کو بھی یقیناً ڈنٹ پڑیگا۔ آخر کچھ تو ایسا ہوا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے اختیار کی گئی پالیسیوں کی بنیاد پر امریکی عوام ایک پارٹی کی دو ٹرموں کیلئے اپنی روایت توڑنے اور متعینہ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اگر امریکی عوام کی بدلتی ہوئی اس سوچ کے باعث امریکہ میں خانہ جنگی کی فضا ہموار ہوتی نظر آرہی ہے جس کی ٹرمپ کے حامیوں کے مظاہروں‘ انکی پولیس کے ساتھ جھڑپوں اور گرفتاریوں کی صورت میں شروعات بھی ہوچکی ہیں تو یہ دنیا میں امریکہ کا برتری کا زعم ٹوٹنے کی بھی نشاندہی ہے۔ اس کیلئے ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے ردعمل میں انہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے تو ہمارے لئے امریکی معاشرے کو توڑنے والا ٹرمپ کا یہ کردار کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ خلق خدا کے راج میں تاج اچھلتے اور تخت گرتے نظر آئیں تو سمجھ لیجئے کہ برتری کے زعم والی اس معاشرت میں انقلاب برپا ہوگیا ہے جو دوسری معاشرتوں میں اپنا ساختہ انقلاب برپا کرنے کی سازشوں میں مگن رہی ہے۔ امریکی عوام کے اس انگڑائی لیتے شعور اور سوچ کو میرا عاجزانہ سلام۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com