سرور کائنات، رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت والے مقدس مہینے ربیع الاول کے آغاز ہی میں اگر فرانس کے صدر میکرون فرانسیسی جریدے میں نبی ٔ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ستائش کرتے ہیں اور پھر یہ خاکے فرانس کی دیواروں پر چسپاں کرنے کی بھی اجازت دے دیتے ہیں تو کیا یہ محض آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی یقین دہانی کا گھسا پٹا ڈرامہ ہے یا اسکے پیچھے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خلاف الحادی قوتوں کے بغض کا عملی مظاہرہ مقصود تھا؟۔ ہمارے لبرل (درحقیقت بغض دین اسلام سے معمور) مادرپدر آزاد طبقات کو تو فرانس میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی اس مذموم و مکروہ حرکت بھی آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی کوشش ہی نظر آتی ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اس دانستہ تخریب کاری اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے والی اس گستاخی پر مسلم اُمہ بالخصوص ترک صدر رجب طیب اردوان کے سخت ردعمل کو اپنی عاجلانہ تنقید کے ہدف پر رکھا ہوا ہے۔ میکرون کا مذہب مسیحیت بتایا جاتا ہے مگر ہماری مسیحی برادری بھی اس کی اس قبیح حرکت پر برافروختہ اور شرمندہ ہے۔ اگر شرم نہیں آتی تو شہری آزادیوں کے نام نہاد چیمپئن ہمارے ’’آزاد خیال‘‘ لبرل طبقات کو۔ بھئی آپ فرانس یا دوسرے مغربی معاشروں میں جہاں مسیحی ، یہودی یا دوسرے غیر مسلم طبقات اکثریت میں ہیں ، حضرت عیسیٰ، مسیحیت ، صیہونیت اور ان کی مقدس کتابوں کے بارے میں ہلکے سے بھی گستاخانہ کلمات ادا کر کے تو دیکھیں، آپ کا آزدیٔ اظہار کا فلسفہ بتی بنا کر آپ کو گھسیٹر دیا جائے گا۔ کبھی سیکولر بھارت میں گائوماتا کی شان میں گستاخی کر کے دیکھیں۔ آپ کو آپ کے آزادیٔ اظہار کے ساتھ ہی چیتھڑوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اگر رحمت للعالمین کی شان میں گستاخی پر آپ کا دل بلیوں اچھلتا ہے تو آپ کے دل میں چھپا دین اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی خناس ہی آپ کی سرخوشی کا اہتمام کرتا ہے۔
میکرون کی اس قبیح حرکت کے بعد اگر فرانس میں اب مسلم کش فسادات کی بھی سرپرستی کی جا رہی ہے جس کے دوران پیرس کی سب سے بڑی مسجد پر حملہ ہو چکا ہے اور مسلمانوں کو چن چن کر زد و کوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو بھائی صاحب! کیا یہ محض آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لئے ہو رہا ہے۔ ہمارے دین نے تو ہمیں رواداری کا درس دیا ہے اور تمام انبیاء کرام اور ان کے مذاہب کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے جن کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پھر کیا کوئی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے آقا کی شان میں گستاخی اور عمداً و صریحاً گستاخی کو آزادیٔ اظہار کی منطق کی بنیاد پر برداشت کر لے۔ آپ ایسے مکروہ فلسفوں کو اپنے پراگندہ ذہن میں ہی سنبھال کر رکھیئے ۔ شمعٔ رسالتؐ پر مر مٹنے والے پروانوں کو حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ و دفاع کرنا آتا ہے۔ انہیں چیلنج مت کیجئے۔ شرفِ انسانیت محسنِ انسانیتؐ سے ہی منسوب ہے۔ ان کے حوالے سے کہیں کوئی اپنی گندی سوچ کا اظہار اور ذہنی خلجان کا مظاہرہ کرے گا تو بدبخت میکرون اور اس قبیل کے دوسرے جنونیوں کی تواضع گندے انڈوں سے بھی ہو گی اور ایسے گندے انڈوں کی دوسرے طریقوں سے خبر لینا بھی جائز ہو گا۔
اس سوچ کے حامل لوگ ہی زمین پر فتنے اُٹھانے اور فساد برپا کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کا صدر بھی ایسے فسادیوں کی صف میں شامل ہو تو وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بجائے تصادم کی راہ ہی ہموار کرے گا اس لئے فرانسیسی صدر کی اس حرکت پر مسلم دنیا کے رسمی مذمتوں والے نہیں‘ مؤثر اور عملی ردعمل کی ضرورت ہے جس کا آغاز ترک صدر اردوان نے فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے اور ترکی کے سفیر کو فرانس سے واپس بلوا کر کیا۔ ساتھ ہی میکرون کو اپنے دماغی علاج کا مشورہ بھی دیا۔ مگر مجموعی طورپر تو مسلم اُمہ کی قیادتیں منافقانہ مصلحتوں کے لبادے میں ہی لپٹی نظر آتی ہیں۔ ابھی تک او آئی سی کے ہنگامی اجلاس اور مسلم دنیا کی نمائندہ اس تنظیم کی جانب سے رسمی مذمتی قرارداد کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
ہماری اپنی قومی قیادتوں کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے احتجاجی مراسلہ بھجوا کر رسمی مذمت کا فرض ادا کیا مگر منتخب ایوانوں کے ذریعے فوری اور سخت ردعمل کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔ میکرون کی گستاخانہ حرکت کے ایک ہفتے بعد سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بلائے گئے تو ان میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی غیر سنجیدگی دیکھنے کے لائق تھی۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن قائدین گستاخانہ خاکوں کے خلاف مؤثر احتجاج کی کوئی متفقہ حکمت عملی سوچنے اور طے کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم والی سیاست کو ہی فروغ دیتے نظر آئے۔ اپوزیشن کی جانب سے خواجہ آصف اور حکومتی بنچوں کی جانب سے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اپنی اپنی قرارداد لیکر آگئے۔ پہلے مرغوں جیسی لڑائی میں اپنے سروں پر مٹی ڈالنا ضروری سمجھا اور بطور خاص اس کا اہتمام کیا گیا کہ اس موقع پر بھی اپوزیشن کو ’’مودی کا یار‘‘ کا طعنہ دینا کہیں رہ نہ جائے۔ سو وزیرخارجہ کو اپنی پیش کردہ مذمتی قرارداد کی منظوری سے پہلے اپوزیشن بنچوں میں مودی کی روح حلول ہوتی نظر آگئی۔ جس پر وہ خوب گرجے برسے اور اپوزیشن نے ان کی ہوٹنگ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ خواجہ آصف کی پیش کردہ قرارداد میں حکومت سے پاکستان کا سفیر فرانس سے واپس بلوانے کا تقاضا کیا گیا اور شاہ محمود قریشی نے اپنی پیش کردہ طویل قرارداد میں اردوان جیسے کسی سخت ردعمل کا اشارہ تک نہ دیا۔ بس او آئی سی سے یہ تقاضا کر دیا کہ 15 مارچ کے دن کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن قرار دیا جائے۔ ارے۔ہمارے محض رسمی مذمتوں والے اس کردار نے ہی تو بدبختوں کو شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے اور وہ اپنی اسی گندی سوچ اور قبیح جرم کو اظہار رائے کی آزادی کے مجہول تصور و فلسفہ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تف ہے ہمارے ان آزاد خیال طبقات پر جو اس وقت بھی اس گندی سوچ کی ہی وکالت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سو…؎
اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
حضور! آپ اور کچھ نہ کیجئے۔ فرانسیسی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کیلئے ترک صدر اردوان کا فیصلہ پوری مسلم دنیا میں صدق دل کے ساتھ لاگو کر دیجئے۔ مکروہ میکرون اپنی معیشت کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنی غلیظ حرکت سے تائب ہوتا مسلم قیادتوں کے آگے گڑگڑاتا نظر آئے گا۔ مگر وہ کیا ہے کہ…؎
حمیت نام تھا جس کا
گئی تیمورکے گھر سے
ہم سے تو وہ سوڈانی بدو ہی اچھے ہیں جنہوں نے فرانسیسی سفارتخانے کے بخیے ادھیڑ کر مکروہ میکرون کو دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔ کیا تحفظ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاسبان تب جاگیں گے جب…ع