میرا خیال تھا کہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارے قومی سیاسی قائدین بارہ اکتوبر کو یکجہت ہو کر جمہوریت کے استحکام و عملداری کا تردد کرینگے مگر یہ تو ابھی تک اپنے اپنے پانچ جولائی اوربارہ اکتوبر ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بھئی! اگر آپ کو پانچ جولائی 1977ء کا مارشل لائی ماورائے آئین اقدام اب بھی جائز نظر آتا ہے اور آپ اس اقدام کو اپنے تئیں سول آمریت سے نجات سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی طرح پانچ جولائی کے ڈسے ہوئوں کو بارہ اکتوبر 1999ء والے جرنیلی ماورائے آئین اقدام میں اپنے تئیں ہی سول آمریت سے چھٹکارا ملتا نظر آیا تھا تو پھر آپ نے تاریخ سے سبق کیا حاصل کیا۔ تاریخ کا سبق تو یہ ہوتا کہ آپ پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر کو متحد اور متفق ہو کر یوم سیاہ سے تعبیر کرتے اور جمہوریت کی عملداری کو اپنی جانب سے کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا عہد کرتے۔ آپ تو ان دونوں دنوں کے ڈسے ہوئے سارے قائدین آج پی ڈی ایف کے پلیٹ فارم پر اکٹھے بھی ہیں اور مشترکہ احتجاجی تحریک کا شیڈول بھی طے کرچکے ہیں مگر 12؍ اکتوبر کو کوئی مشترکہ احتجاجی پروگرام رکھنے کی آپ کو اب بھی توفیق نہیں ہوئی۔ بس مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بارہ اکتوبر کو بطور یوم سیاہ منانے کا اعلان ہوا اور ماورائے آئین اقدامات کا سیاپا کرنے والے کسی دوسرے جمہوریت پرست کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑا۔ حضور! اگر آج بھی پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر آپ کے اپنے اپنے ہیں تو اس میں جمہوریت کو کشید کرنیوالا نسخہ کیسے کارگر ہو سکتا ہے …؎
تحریک انصاف حکومت مافیاز کی سرپرستی کررہی ہے:خرم دستگیر
نہ ہم سمجھے‘ نہ آپ آئے کہیں سے
اور یہ کیا کمال ہوا ہے کہ ماورائے آئین اقدامات کے موردالزام ٹھہرنے والوں نے خود ہی آئین و قانون کی عملداری و تابع فرمانی کا راستہ چن لیا ہے اور اس پر سختی سے کاربند بھی ہوگئے ہیں۔ اس عملداری و تابع فرمانی میں عساکر پاکستان نے بطور ادارہ حکومت کی چھتری کے نیچے کام کرنا ہوتا ہے اور اپنے لئے وقتاً فوقتاً صادر ہونیوالے اسکے احکام کی تعمیل کرنا ہوتی ہے۔ حکومت کس کی ہے‘ اس سے انہیں غرض نہیں ہوتی‘ انہوں نے ملک کے اندرونی اور بیرونی استحکام کیلئے حکومت کو معاونت فراہم کرنا ہوتی ہے جس کیلئے آئین کی دفعہ 245 اور آئین کے تھرڈ شیڈول میں شامل عساکر پاکستان کے حلف نامہ کی عبادت عساکر پاکستان کے فرائض کی انجام دہی کے معاملہ میں مکمل واضح ہے۔
عساکر پاکستان اپنی قیادتوں کے ماتحت گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے آئین و قانون کی عملداری اور تابع فرمانی میں رہ کر ہی تو فرائض سرانجام دے رہی ہیں تو حضور! آپ کیلئے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے‘ ماورائے آئین اقدام کا ماضی والا تصور اب قابل عمل اور قابل پذیرائی ہی نہیں رہا۔ آپ 2005ء سے اب تک کے اپنے معاملات کا تو جائزہ لیجئے۔ آپ نے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر خود کو میثاق جمہوریت کے ساتھ باندھ کر اپنی مخالف حکومت کو گرانے کیلئے ماورائے آئین اقدام والوں کو آئندہ اپنا کندھا فراہم نہ کرنے کا عہد کیا۔ اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جمہوریت پر کوئی مفاہمت نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے جرنیلی آمریت کے ماتحت ہونیوالے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ تک آپہنچے۔ مگر آپ کی جانب سے بدعہدی میثاق جمہوریت کے ساتھ بھی ہو گئی اور انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ کے ساتھ بھی۔ پھر 2008ء سے اب تک کے اپنے معاملات کا آپ جائزہ لیں تو آپ کی جانب سے ماضی والی محاذآرائی کی طرح ہر منتخب حکومت کیلئے صبح گیا یا شام گیا والی استوار کی گئی فضا میں جمہوریت کو فروغ و استحکام دینے کی کوشش ہوئی ہے یا گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کا اہتمام بالالتزام ہوا ہے؟
کیا اسے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے سے تعبیر کیا جائے کہ 2008ء کی جمہوریت میں عدالتی فعالیت کے راستے نکلوا کر کسی ماورائے آئین اقدام کی سرعام دعوت جاتی رہی اور 2013ء کی جمہوریت میں امپائر کی انگلی اٹھوانے کا شدومد کے ساتھ ماحول گرمایا جاتا رہا مگر جنرل پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا عہد نبھایا اور جنرل راحیل شریف نے سامنے موجود ترغیبات کے باوجود اس عہد کو نہ صرف تھامے رکھا بلکہ آگے بھی بڑھایا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اپنے پیشرو جرنیلوں کے اسی عہد کی پاسداری کررہے ہیں۔ اس عہد کی پاسداری میں دو جمہورتیں اپنی پانچ پانچ سال کی آئینی معیاد مکمل کرچکی ہیں اور تیسری جمہوریت اس عہد کی چھتری تلے رواں دواں ہے۔ تو بھائی صاحب! ماضی کے تلخ و حسیں تجربات یا غلطیوں سے سبق آپ نے سیکھایا ماورائے آئین اقدام والوں نے۔ ’’دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔
آپ تو پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر باہم مل کر منانے کے بھی روادار نہیں ہو رہے اور اُدھر منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیتے رہنے اور جمہوریت کو کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا عہد ہو رہا ہے اور اس عہد کو عملی جامہ بھی پہنایا جارہا ہے۔ حضور آپ کو تو ملک کی 73 سالہ تاریخ میں پڑنے والی اس نئی اور خوش آئند روایت پر سرشار ہونا چاہیے کہ ماورائے آئین اقدام والوں نے آئندہ ایسے کسی اقدام کیلئے اپنے اپنے اقتدار کا گندہ کھیل کھیلنے والوں کا کندھا حاصل کرنے سے خود ہی معذرت کرلی ہے اور خود کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں تک محدود کرلیا ہے۔ آج ایک جماعت اور اتحاد کی حکومت ہے۔ کل آپ کی یا کسی اور کی حکومت ہوگی تو عساکر پاکستان اپنے عہد اور آئینی و قانونی ذمہ داریوں کے تابع حکومت کے وقتاً فوقتاً جاری ہونیوالے احکام کی ہی تعمیل کریگی۔ پھر آپ اودھم کیوں مچا رہے ہیں اور تحریک چلا کر آخر کس پر دبائو ڈالنا چاہتے ہیں۔ ادھر سے تو اب کسی حکومت کو گرانے کیلئے اودھم مچانے والوں کو لال جھنڈی دکھائی جا چکی ہے۔ آپ حکومت کی پالیسیوں پر مطمئن نہیں اور حسن اتفاق سے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو چکے ہیں تو آپ کے پاس حکومت کی تبدیلی کا جائز‘ قانونی اور آئینی آپشن موجود ہے‘ اسے آزمائیں۔ اسمبلیوں میں اپنے مخالف صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور قومی و صوبائی سپیکروں کیخلاف مواخذہ اور عدم اعتماد کی تحریکیں لائیں اور اپنی عددی اکثریت دکھا کر تبدیلی لے آئیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ مگر صاحب! آپ جمہوریت کی پاسداری کے دوسروں سے متقاضی ہو کر خود پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر بھی باہم مل کر نہیں منا سکتے تو آپ کے میثاق جمہوریت اور میثاق پاکستان کس کام کے۔ جمہوریت اگر ٹریک پر چل نکلی ہے تو اسے ٹریک پر ہی رہنے دیں اور ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق بھی سیکھ لیں۔ اب کی بار کی کوئی غلطی آپ کو سنبھلنے کی مہلت بھی نہیں دیگی اور لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا پر محیط ہو جائیگی۔