اب آتے ہیں سید ظفر علی شاہ کیس کے فیصلہ کے حوالے سے پیدا ہونیوالے فوری تاثر اور اسکے مابعد مثبت اثرات کی جانب۔ ہم اپنی عدالتی تاریخ کا جائزہ لیں تو نظریہ ضرورت کے تحت ماورائے آئین اقدام والوں کے آگے سرنگوں ہونے کی جس بدعت کا جسٹس منیر نے آغاز کیا تھا وہ آگے چل کر مزید پختہ ہوتی ہی نظر آئی۔ یحییٰ خان کے جرنیلی اقتدار کیخلاف عاصمہ جیلانی کے کیس میں فاضل عدلیہ کا فیصلہ ضرور جرأت رندانہ کے زمرے میں آتا ہے جس میں جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا مگر اس جرأت رندانہ کا اظہار فیصلے کی صورت میں اس وقت کیا گیا جب جنرل یحییٰ خان سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار سے فارغ ہو چکے تھے۔ اسکے بعد جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کے کیس میں جنرل ضیاء الحق کے پانچ جولائی 1977ء کے ماورائے آئین اقدام کو باقاعدہ آداب بجا لاتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا اور انکے پی سی او کے آگے سرتسلیم خم کیا۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہوا کہ نظریہ ضرورت اور عدلیہ لازم و ملزوم ہو چکی ہے۔ اس تناظر میں جنرل پرویز مشرف کے 12؍ اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدام کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سیدظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس جرنیلی اقدام کے آگے بھی کسی کے پر نہ مارنے کی فضا ہی برقرار تھی۔ بے شک اس سے پہلے ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ جسٹس سید سجاد علی شاہ کے محض ایک اختلافی نوٹ کے ساتھ صدر غلام اسحاق خان کے آئین کی دفعہ 58۔ٹو بی کے تحت نوازشریف کی حکومت ختم کرنے کے 1993ء کے اقدام کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دے چکی تھی اور یہ فیصلہ فریم کراکے چیف جسٹس کے کورٹ روم میں آویزاں بھی کر دیا گیا تھا تاہم یہ فیصلہ ایک سول حکمران کے اقدام کیخلاف صادر ہوا تھا۔ پھربھی اس فیصلہ کی ’’ورتھ‘‘ محض ایک ماہ تک ہی قائم رہ سکی اور ماورائے آئین اقدام والوں نے نظریۂ ضرورت ہی کا سہارا لے کر میاں نوازشریف کی بحال کی گئی حکومت پھر انہی کے ہاتھوں ٹوپل کرادی اور نوازشریف کے ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی فارغ کر دیا۔ اس طرح نظریہ ضرورت کمزور ہونے کے بجائے مزید پختہ ہوگیا۔ چنانچہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں جنرل مشرف کے ماورائے آئین اقدام کیخلاف سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے روبرو سید ظفرعلی شاہ کی آئینی درخواست کی سماعت کا آغاز ہوا تو فریقین کو نظریۂ ضرورت سے ہٹ کر کسی فیصلے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران جو اتار چڑھائو ہوتے رہے اور درخواست گزار پارٹی خود مشرف کے 12؍ اکتوبر کے اقدام کو آئینی تحفظ دینے کی تجویز پیش کرکے آگے کے لائحہ عمل پر زور دیتی رہی‘ اسکی جزئیات تک ’’ارشاد نامہ‘‘ میں آپ کے زیر مطالعہ آئیں گی۔
جب خالد انور اور عدالتی معاون ایس ایم ظفر کے اسی حوالے سے دیئے گئے دلائل کی روشنی میں عدالتِ عظمیٰ نے متفقہ طور پر ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کیلئے جنرل پرویز مشرف کو تین سال کی مہلت دینے کا فیصلہ صادر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا کہ وہ اس مقصد کیلئے آئین میں ترمیم کر سکتے ہیں بشرطیکہ آئین کی کوئی شق انکے اس اختیار کی راہ میں حائل نہ ہو۔ اس وقت کئی دوسرے مفکرین اور آئینی و قانونی ماہرین کی طرح میرا بھی فوری تاثر یہی تھا کہ اس سے تو نظریۂ ضرورت کو مزید موٹا تازہ ہونے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے مگر اب ’’ارشاد نامہ‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری رائے یکسر بدل گئی ہے اور میں اس امر کا قائل ہو گیا ہوں کہ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلہ سے تو درحقیقت نظریۂ ضرورت کو بریک لگی ہے۔
نظریۂ ضرورت والی عدلیہ تو پہلے ہر ماورائے آئین اقدام کے آگے سر تسلیم خم کرکے اس پر مہرتصدیق ثبت کرتی رہی ہے جبکہ ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلہ کے تحت ایک حاضر سروس جرنیلی آمر کو یہ قرار دیکر انکے اقتدار کے تین سال کے اندر قید کر دیا گیا کہ جو ہو چکا سو ہو چکا‘ اب آپ تین سال کے اندر ملک کو جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالیں گے اور خود بیرکوں میں واپس جا کر دفاع وطن کی اپنی اصل ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ بھلا یکاوتنہاء اقتدار والے جرنیلی آمر مطلق کو انکے اندھے اقتدار کی موجودگی میں ایسا حکم دینا کوئی آسان کام تھا۔ یہ تو شیر کے منہ سے نوالہ اور جنگل کے بادشاہ کے پنجے سے اس کا شکار چھیننے کے مترادف تھا مگر جسٹس ارشاد حسن خان بے خوف ہو کر یہ کارنامہ سرانجام دے گئے اور اس فیصلہ کی بنیاد پر جنرل مشرف بھی پہلے بلدیاتی انتخابات اور پھر 2002ء کے عام انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو واپس ٹریک پر ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔
اب آئیے ذرا جرنیلی آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینے کی جانب۔ بظاہر تو یہ آمرمطلق کو بن مانگے تحفہ دینے والا منظر نظر آتا ہے مگر اس کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیجئے تو اس فیصلہ کے تحت درحقیقت جرنیلی آمریت والی اس سوچ کی موجودگی میں کہ آئین تو محض چند کاغذوں کی کتاب ہے جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں‘ ایک کمانڈو جرنیل کو آئین کی تابع فرمانی اور پاسداری کا راستہ دکھایا گیا۔ مشرف نے بھی تو اس وقت آئین کو معلق ہی کر رکھا تھا جبکہ انہیں آئین میں ترمیم کا دانہ ڈال کر درحقیقت آئین کی حکمرانی کا پابند کیا گیا اور انہیں باور کرایا گیا کہ آئین بدستور موجود ہے اور ملک کا برتر قانون ہے جس کے آپ کو تابع رہنا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کے پس منظر میں یقیناً یہ سوچ کارفرما ہوگی کہ اس وقت پارلیمنٹ کا تو وجود ہے نہیں اس لئے اگر مشرف کو جمہوریت کی بحالی کے پراسس میں آئین کی کسی شق میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہو تو وہ ذہن میں آئین کو پھاڑ کر پھینکنے والا فتور لائے بغیر آئینی تقاضا پورا کرلیں۔ اس طرح عدالت عظمیٰ نے جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں درحقیقت عدالتی نظریہ ضرورت کو پہلا ڈنٹ ڈالا جس سے تقویت پا کر عدالت عظمیٰ نے 2007ء میں جسٹس افتخار محمد چودھری کیخلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلہ کے تحت نہ صرف انہیں چیف جسٹس کے منصب پر بحال کیا بلکہ نظریہ ضرورت سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان بھی کیا۔ جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کرتے وقت یقیناً ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلہ سے ہی رہنمائی لی ہوگی اس لئے یہ فیصلہ جہاں ملک میں جمہوریت کو ٹریک پر رکھنے کی بنیاد بنا ہے وہیں عدلیہ کی نظریہ ضرورت کو دفن کرنیوالی سرخروئی پر بھی منتج ہوا ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی لمحہ فکریہ ہے تو ہمارے ان قومی سیاسی قائدین کیلئے جو جرنیلی آمر مشرف کو مزید دس ٹرموں کیلئے باوردی صدر منتخب کرنے کو بے قرار تھے‘ یقیناً اس سوچ سے ہی تقویت پا کر مشرف دوسری ٹرم کیلئے بھی وردی سمیت صدر منتخب ہوئے مگر پھر سخت عوامی تحریک کے نتیجہ میں انہیں وردی اتار کر جرنیلی چھڑی اپنے جانشین جنرل کیانی کے سپرد کرنا پڑی جس کے بعد دانت نکلے اور پنجے کٹے جنگل کے اس شیر کے زمین پر پائوں جم ہی نہ پائے اور مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے سے پہلے ہی وہ سیاسی بزرجمہروں کے ریڈکارپٹڈ پروٹوکول کا سہارا لے کر اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکل آئے۔ سیاہ و سفید کے اختیارات والے اقتدار سے انکی مراجعت درحقیقت عدلیہ کی سرخروئی ہے جس کا سہرا تاریخ کے اوراق میں بجا طور پر جسٹس ارشاد حسن خان کے سر پر ہی سجا ہوا نظر آئیگا۔ ’’ارشادنامہ‘‘ کا آپ اس سنہرے تصور کے ساتھ مطالعہ کرینگے تو آپ کو روشن جمہوری پاکستان کیلئے تاریخ کے دھارے بدلتے اور درست سمت کی جانب گامزن ہوتے نظر آئینگے۔ (ختم شد)