’’اے چاند یہاں نہ نکلا کر‘‘
Sep 15, 2020

سانحۂ موٹروے میں وحشیانہ زیادتی کا شکار ہونیوالی فرانسیسی نژاد خاتون کے دلدوز واقعہ پر قومی سوگ کی فضا طاری تھی اور اس فضا میں بھی ’’محافظ‘‘ لاہور (سی سی پی او) دیدہ دلیری کے ساتھ اس مظلوم خاتون کو ہی اپنے ساتھ ہونیوالی درندگی پر ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے اور اس بیان کے ردعمل میں ملک بھر میں مختلف حلقوں کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی زد میں آنے کے باوجود حکمرانوں کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے کہ گھمبیر ہوتی اداسی و وحشت کے اس ماحول میں قوم کی انتہائی مظلوم و بے بس بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا ایک مراسلہ مجھے اپنی ای میل سے موصول ہوا۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں اور ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ اس مراسلہ کا مطالعہ کیا‘ ماحول پر پہلے ہی وحشت طاری تھی اور اداسی کی چادر تنی ہوئی نظر آرہی تھی۔ مراسلہ پڑھنے لگا تو اس کا ایک ایک لفظ پتھر کی طرح برس کر دل و دماغ کو زخمی کرتا گیا۔ اس مراسلے کے چیدہ چیدہ حصے اس امید کے ساتھ آپکے سامنے رکھ رہا ہوں کہ شاید آپ میرا غم بانٹنے میں مددگار ہو سکیں۔ ڈاکٹر فوزیہ یہ کہہ کر میرے ساتھ اپنا غم شیئر کررہی ہیں کہ اس ماہ ستمبر میں اس دعا کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے مخاطب ہوں کہ آپ کے مؤقر روزنامہ کی کاوشوں اور آپ کی تحریروں کی بدولت امریکی جیل میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی اذتیوں‘ صعوبتوں کا عرصہ شاید کچھ کم ہو جائے۔ اس مراسلہ میں سانحۂ موٹروے پر کڑھنے والی قوم کو اطلاع دی گئی ہے کہ جرم بے گناہی کی پاداش میں اس ماہ 23؍ ستمبر کو ڈاکٹر عافیہ کی ناانصافی پر مبنی 86 سالہ سزا کے دس سال مکمل ہو جائیں گے جبکہ 2003ء کو وحشیانہ انداز میں کی گئی اسکی گرفتاری سے اب تک وہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے اور امریکی جیل میں ناروا قید کے 17 سال چھ ماہ گزر چکی ہے۔ اسکی گرفتاری کا زمانہ وہ ذلت آمیز زمانہ تھا جب امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے ہمارے شہریوں کو معمولی ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا جس پر ایک امریکی صحافی نے پھبتی کسی تھی کہ پاکستانی تو چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کر دیتے ہیں اور ہمارے اس وقت کے کمانڈو جرنیل صدر مشرف نے تو اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں ہزیمتوں میں ڈوبے اس کردار کا اعتراف بھی کرلیا تھا۔

اگر اس قوم کے ذہنوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ٹوٹنے والی قیامت محو ہو گئی ہے تو میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے اس مراسلے میں آہ و بکا کرتے الفاظ کے ذریعے ہی ڈاکٹر عافیہ پر غم و اندوہ کے پہاڑ توڑنے والے اس لمحے کی یادتازرہ کر دیتا ہوں۔ جب 2003ء میں اسے اسکے بچوں سمیت کراچی سے حراست میں لے کر غائب کیا گیا اور وحشیانہ تشدد کی بھینٹ چڑھا کر افغانستان کی بگرام جیل میں گلنے سڑنے کیلئے پھینک دیا گیا۔ امریکہ ہی سے فارغ التحصیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نفیس خاتون پر ایک امریکی فوجی کی بندوق چھین کر اسے مارنے کی کوشش کرنے کا بے سروپا الزام لگایا گیا۔ عقوبت خانے میں اسکے ساتھ امریکی ’’مہذب‘‘ معاشرے کے بندوق بردار باوردی انسانوں نے انسانیت کو شرما دینے والا جو سلوک روا رکھا اور جس طرح اسکے معصوم بچوں کو اس سے چھین کر غائب کیا گیا‘ وہ ہمارے ’’وحشی‘‘ اور ’’جانگلی‘‘ معاشرے میں رونما ہونیوالے ننگ انسانیت واقعات سے کچھ کم تو نہیں ہے اور ہماری حمیت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پر ٹوٹنے والی اس قیامت پر انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی دہائی دینے والی موم بتی فیم کسی ایک بھی تنظیم کو آج تک کسی ہلکے سے احتجاج یا مذمتی بیان جاری کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ ایک بے گناہ خاتون کو چھیاسی سال کی قید کی سزا ملنے پر تو عرش کے کنگرے بھی ہل گئے ہونگے کہ …؎ ’’افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر‘‘ مگر ہمارے معاشرے میں انسانیت کی دہائی دینے والوں میں سے کسی کا دل نہیں پسیجا۔ 

ڈاکٹر عافیہ کو 2010ء میں مقدمہ کی کارروائی کے دوران زخمی حالت میں امریکی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے بھری عدالت میں جج سے مخاطب ہوتے ہوئے فریاد کی تھی کہ ’’میں پاگل نہیں ہوں‘ میں ایک مسلمان عورت ہوں‘ مجھے مرد فوجی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن ڈالا جاتا ہے‘‘۔ اگر عدالت میں موجود کسی انسان کے سینے میں دل ہوتا تو عافیہ کی فریاد سن کر شدت جذبات سے پھٹ جاتا مگر وہاں تو انسانوں کے روپ میں موجود یا وحشی بھیڑیے تھے یا ایک نہتی عورت سے خوف کھانے والے پینٹاگون کے اشاروں پر ناچنے والی پتلیاں گویا…؎
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com