ان دنوں سوشل میڈیا پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ایک رعونت بھری تقریر کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ یہ تقریر انہوں نے یقیناً ایک خالصتاً ہندو اجتماع میں ہندوتوا پر مبنی اپنے عزائم اجاگر کرنے اور اپنے ہندو انتہاءپسندی پر مبنی ایجنڈا پر ہندوﺅں کو خوش اور مطمئن کرنے کیلئے کی ہے جس میں وہ بالخصوص وادی کشمیر کو ہندو ریاست کا حصہ بنانے کیلئے سرانجام دیئے گئے اپنے ”کارنامے“ گنوا کر اپنے اگلے عزائم کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس اجتماع میں وہ یہ کہہ کر ہندو برادری سے اپنے لئے تالیاں پٹوانے کا اہتمام کرتے ہیں کہ ”رام مندر ٹرسٹ بنانے کا کام۔ ڈن، دفعہ 370 ہٹانے کا فیصلہ ڈن، جموں و کشمیر و لداخ کو پردیش بنانے کا کام۔ ڈن اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کی دفعہ 3۔ ڈن۔“ اسکے بعد وہ رعونت کے ساتھ بڑ مارتے ہیں کہ یہ تو ایک سیمپل ہے اور اس سیمپل سے آپ کو پتہ لگ گیا ہو گا کہ ہم اصل کام کیا کرنا چاہتے ہیں۔ بھئی یہ کام اب کسی سے ڈھکا چھپا تو نہیں رہا، بس ہم نے ہی اپنی آنکھوں پر موٹی تہہ کی پٹی باندھ رکھی ہے۔
”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے“
کشمیر کو ہڑپ کرنے کا کام تو ہندو بنیاءقیادتوں نے تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا۔ وہ کشمیر جو ہماری لائف لائن ہے، بانی پاکستان قائداعظم کی اعلان کردہ شہہ رگِ پاکستان ہے جس کے ساتھ ہماری زرعی، اقتصادی ترقی اور ہمارا مستقبل وابستہ ہے، جس کا پاکستان کے ساتھ الحاق تقسیم ہند کے وضع کردہ اور تسلیم شدہ فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے ہمارے یقین کی حد تک نوشتۂ دیوار ہے اور جس کے باسی خود ہی اپنا مستقبل اور مقدر پاکستان کے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں۔ ارے بھائی صاحب! وہ کشمیر تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی پنجۂ ہنود میں ہے اور آج یہ پنجہ انتہائی شاطر، مکروہ، جنونی، مکار و عیار اور کینہ پرور نریندر مودی کا پنجہ بن چکا ہے جو اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر ہی نہیں، پاکستان کے ساتھ ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بدنظریں گاڑے بیٹھا ہے۔
مودی کی یہ سوچ اکیلے مودی کی تو نہیں، مہابھارت کے ایجنڈے پر کاربند ہر جنونی ہندو کی سوچ ہے اس لئے ہمیں بھارت کی جانب سے مودی کا نہیں بلکہ ہندوتوا کا سامنا ہے اور پاکستان کو دوبارہ اپنا حصہ بنانا اسکے ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ہے۔ آپ اس ارض وطن اور کشمیر کے حوالے سے ہندوتوا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اسکے سارے عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے مراحل میں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کسی شک و شبہ سے بالاتر تھا مگر اس خطے کی اہمیت کا ادراک رکھنے والی ہندو بنیاءلیڈر شپ نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر کا اسکے ساتھ الحاق ناممکن بنا دیا اور اس کیلئے ڈوگرہ مہاراج کے ساتھ ایک جعلی معاہدہ¿ بیع کو اچھالا گیا۔ یہ ایسا ہی من گھڑت معاہدہ ہے جیسا اٹھارہویں صدی میں صیہونیوں کو ارضِ فلسطین پر آباد کرانے کیلئے طے پانے کا دعویٰ ہوا تھا۔ آج فلسطین پنجہ¿ یہود میں ہے تو اسی تناظر میں کشمیر پنجۂ ہنود میں ہے اور امتِ واحدہ کی سوچ ہنودویہود گٹھ جوڑ کی اسیر ہوچکی ہے۔ سو ہماری ”کردنیاں“ ایسی ہیں کہ ”انہیں دیکھ کے شرمائیں یہود“۔
مودی تو آج چٹے ننگے للکارے مار رہا ہے مگر اس سے پہلے کے کانگرسی ہندو بنیاءلیڈروں نے بھی کچھ کم تو نہیں کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کشمیر کو متنازعہ بنانا پنڈٹ جواہر لال نہرو کی خانہ ساز سازش تھی جو مہاراجہ ہری سنگھ کے جعلی معاہدے کے ساتھ اقوام متحدہ جا پہنچا۔ پھر بھی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے بے پایاں عزم کے ناطے ان کا استصواب کا حق تسلیم کیا اور نہرو کو کشمیر میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی تو اقوام متحدہ کے فورم پر اس کا وعدہ کرنے کے باوجود نہرو نے واپس آکر کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا اور پھر اس ہٹ دھرمی کو مزید پختہ کرتے ہوئے بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ایک ترمیمی شق ڈال کر اپنی زیرقبضہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کے ساتھ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیری عوام اس بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے بھارتی فوجیوں کی سنگینوں اور گولیوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اپنی جانیں مادر وطن پر نچھاور کرتے رہے مگر ہندو جنونیت میں کوئی کمی آئی نہ بنیا لیڈر شپ کی جبینوں پر خجالت کا کوئی قطرہ نمودار ہوا۔ نہرو کے جانشین لال بہادر شاستری نے گیدڑ والی کینہ پروری کے تحت پاکستان پر ستمبر 1965ءمیں جنگ مسلط کر دی اور پھر نقصان اٹھا کر اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا مگر کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کی پالیسی برقرار رکھی۔ نہرو کی لاڈلی اندراگاندھی نے ”موراوور“ کیا۔ پاکستان پر دسمبر 1971ءمیں جنگ مسلط کی۔ مکتی باہنی کی کمک حاصل کی اور اسکی مدد سے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ ساتھ ہی یہ بڑ مار دی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
یہ پاکستان کیلئے بہت کڑا وقت تھا۔ اسکی 90 ہزار سے زائد فوجیں بھارت کی قید میں تھیں‘ مشرقی پاکستان تو کٹ گیا تھا‘ مغربی پاکستان کے بھی بہت سے علاقے بھارت کے زیرتسلط آچکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو بچے کھچے پاکستان کے صدر بن کر اسکی تعمیرنو کیلئے فکرمند تھے اور انہی نامساعد حالات سے فائدہ اٹھانے کیلئے اندرا گاندھی نے ایک نئی سازش کا جال پھینکا۔ بھٹو کو انکی فیملی اور کابینہ سمیت سرکاری دورے پر بھارت مدعو کیا اور شملہ لے جا کر انکے ساتھ 1972ء کا معاہدہ طے کرلیا جس کا مقصد کشمیریوں کے حق رائے سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں غیرمؤثر بنانا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو پابند کردیا گیا کہ وہ کسی دوطرفہ تنازعہ کے حل کیلئے کسی علاقائی یا عالمی فورم سے رجوع نہیں کریگا اور پاکستان بھارت خود دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات حل کرینگے۔
بھارت اس شملہ معاہدہ کو ہی ڈھال بنا کر اقوام متحدہ اور سارک سربراہ کانفرنس سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیریوں کے حق خودارادیت سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اب تک مخالفت کرتا رہا ہے جبکہ اس نے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے شملہ معاہدہ کی بنیاد پر کبھی دوطرفہ مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ مودی سرکار نے تو اب کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کیلئے بھارت کی سابقہ ہندو بنیاءقیادتوں کے مشن کو مہمیز لگائی ہے اور مزید یہ کیا ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہمارا کیس غارت کرنے کی سازش کی ہے۔ اس خانہ ساز سازش کے تحت مودی سرکار نے گزشتہ سال 5اگست کو وادی کشمیر پر بھارتی پارلیمنٹ کا سہارا لے کر شب خون مارا اور آئین میں موجود اسکی خصوصی حیثیت ختم کرا دی۔ لداخ کو جموں سے کاٹا اور پھر ان دونوں کو الگ الگ طریق کار کے تحت بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا۔ اس کیلئے مودی سرکار نے دنیا بھر میں ہونیوالے کسی احتجاج اور کسی مذمت و تشویش کی پرواہ نہیں کی۔
اسکی جنونیت یہیں پر نہیں رکی بلکہ اس نے بھارتی شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر اس ہندو کو اپنی مقبوضہ ریاستوں جموں اور لداخ کا ڈومیسائل حاصل کرنے کا حق دے دیا جو وہاں ملازمت کرتا رہا ہو یا کررہا ہو اور کسی بھی دوسری حیثیت میں ان مقبوضہ ریاستوں میں مقیم رہا ہو۔ جی جناب! یہی وہ اصل کام ہے جس کے کرنے کا مودی نے اپنی رعونت بھری تقریر میں حوالہ دیا تھا۔ یہ کام وادی کشمیر کو مسلم اکثریتی آبادی کے سٹیٹس سے نکال کر ہندو اکثریتی آبادی میں تبدیل کرنے کا ہے اور مودی سرکار سرعت کے ساتھ یہ کام کئے جارہی ہے مگر ہم ایسے خوش فہم ہیں کہ کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی منزل حاصل ہوتی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حضور! آنکھوں سے دبیز تہوں والی پٹی اب اتار دیجئے۔ ہندوتوا کی سوچ اب ارض فلسطین پر غالب ہونیوالی صیہونی سوچ کی طرح ارض کشمیر پر غالب ہوتی نظر آ رہی ہے….
تمہیں گماں کہ رستہ کٹ رہا ہے
مجھے یقیں کہ منزل کھو رہے ہو
اور خیالوں، خوابوں، سرابوں سے باہر نکل کر حقائق کا سامنا کیجئے اور کشمیر کو بچانے کا خیالی پلاؤ مت پکایئے۔ اپنے ہاتھوں لٹنے کے بعد کس کو دوشی ٹھہراؤ گے۔