بنی اسرائیل ۔ مشیت ایزدی اور ہماری آزمائش
Aug 18, 2020

اگر بنی اسرائیل کے حوالے سے خالقِ کائنات ربِ کریم کی منشاء اور کتابِ ہدایت قرآن مجید میں جابجا موجود احکام و ارشادات خداوندی پر بات کی جائے تو اسے ایک کالم کے حجم میں ہرگز نہیں سمویا جا سکتا اس لئے میں صیہونیوں اور اسرائیل کے پس منظر کا مختصر تذکرہ کرکے اصل موضوع کی طرف آئوں گا۔ آپ قرآن مجید کی سورۂ انحل، سورۂ انعام، سورۂ آل عمران، آیات 181, 72, 38 کا مطالعہ فرمائیں۔ آپ کو بنی اسرائیل (اسرائیل کی اولاد) کیلئے ذاتِ باری تعالیٰ کی ناراضگی اور پھٹکار کے مظاہر نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ یہ وہ واحد قوم ہے جسے ربِ کائنات نے سب سے زیادہ ملعون ٹھہرایا ہے۔ اگر ایک وقت میں یہ انسانی مخلوق خالقِ کائنات کی اتنی محبوب مخلوق تھی کہ اس کیلئے آسمانوں سے من و سلویٰ اتارا گیا تو ذرا سوچیئے حضور کہ اپنے کن ’’کرموں‘‘ کے باعث یہ خدا کے عتاب کی زد میں آئی اور اسے فلسطین کی سرزمین سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ بنی اسرائیل وہ قوم ہے جو تمام انبیاء کرام کی گستاخ اور انکے قتل تک کی نوبت لانے میں کوئی حجاب و ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی تھی جس نے دوبار زمین پر فساد عظیم برپا کیا۔ حضرت نبی ٔ آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدترین مخالف اور جانی دشمن تھی اس لئے ربِ کائنات کی جانب سے راندۂ درگاہ ٹھہری۔ اگر اس کرۂ ارض پر فتنہ و فساد، شیطنت، شرارت، شرانگیزی کا جائزہ لیا جائے تو یہ سارے عناصر صیہونیوں (بنی اسرائیل) کے ساتھ منسوب نظر آئیں گے۔ فلسطین کی سرزمین جو درحقیقت انبیاء کی سرزمین ہے اس قوم کے وجود کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی تھی اس لئے ربِ کائنات نے بنی اسرائیل کو فلسطین سے نکل جانے کا حکم صادر فرمایا اور پھر یہ دنیا کے مختلف خطوں میں جائے پناہ ڈھونڈتے رہے۔ 18ویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کی سازش اور شرارت کے تحت فلسطین میں صیہونی بستی بنانے کی منصوبہ بندی ہوئی جس کیلئے چار مراحل طے کئے گئے۔ ایک مرحلہ فلسطینیوں سے زمین خریدنے کا تھا جسے فلسطینیوں نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔ اسکے باوجود 1880ء میں ایک فرضی دستاویز تیار کرکے اسکے ذریعے فلسطینیوں سے اراضی خریدنے کا دعویٰ کردیا گیا۔ اگر یہ دستاویز اصل بھی تسلیم کرلی جائے تو بھی مبینہ طور پر خریدی گئی اراضی فلسطین کا پانچ فیصد بھی نہیں بنتی مگر صیہونی پورے فلسطین پر قابض ہوگئے اور پھر 1948ء میں اقوام متحدہ نے اسرائیل کو باقاعدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا جس کے بعد امریکی سرپرستی میں فلسطین کو اسکے اصل مکینوں (فلسطینیوں) سے جبراً خالی کرانے کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے اور اب تک لاکھوں فلسطینی عوام اپنی سرزمین کی اسرائیلی اور امریکی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانیں نچھاور کرچکے ہیں۔ گزشتہ سال اسرائیلی پارلیمنٹ نے جو 102 قوانین منظور کئے وہ تذلیل و تحقیر انسانیت کا شاہکار ہیں۔ ان میں سے ایک قانون کے مطابق ہر فلسطینی بچے کے ہاتھ چیک کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی بچے کا ہاتھ گدلا نظر آئے تو اس سے خود ہی یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ یہ بچہ کسی اسرائیلی فوجی کیمپ پر پتھراؤ کرکے آیا ہے چنانچہ اسے جیل میں ڈالنے یا گولی مارنے کا اقدام جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک قانون کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو ہر اس فلسطینی کو گولی مارنے کا اختیار دیا گیا ہے جس کے بارے میں یہ شک ہو کہ وہ اس پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔  

ایسے ننگ انسانیت قوانین و جرائم کا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کے وضع کردہ قوانین و اقدامات کے ساتھ موازنہ کرنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ دنیا کے 30 ممالک نے آج تک اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ان میں کیوبا اور شمالی کوریا سمیت متعدد غیرمسلم ممالک بھی شامل ہیں جبکہ 52 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے باوجود سرزمین فلسطین پر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کی راہ ہموار کرنے والی اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسرائیل کو ہمیشہ غاصب ٹھہرایا۔ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری اس انتہاء کی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اقوام متحدہ کے روبرو عالمی قیادتوں کے سامنے کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایسے کسی عالمی قانون کو نہیں مانتے جو انکے راستے اور توسیع پسندانہ عزائم میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہو۔ امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم اور وہاں امریکی سفارتخانہ قائم کرکے اس بدمست ہاتھی کو طاقت کا نشہ اور بھی چڑھا دیا ہے۔ یہی کچھ بھارت کی مودی سرکار کا کشمیریوں اور بھارت کی مسلمان اقلیتوں کے ساتھ طرز عمل ہے جس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پرکاہ کی بھی اہمیت نہیں دی۔

اب آتے ہیں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسکے ساتھ تعاون کا معاہدہ کرنے کی جانب۔ اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ معاہدہ سراسر امریکی ایماء پر اور اسی کی سرپرستی میں ہوا ہے جس پر امریکی صدر ٹرمپ اور سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو کا اظہار اطمینان امریکی سرپرستی کا ہی واضح عندیہ ہے۔ اب تو باضابطہ طور پر یہ امریکی دعویٰ بھی سامنے آچکا ہے کہ اسرائیل اور یواے ای کے مابین معاہدہ سعودی عرب کی رضامندی حاصل کرکے کرایا گیا ہے۔ اس کیلئے ’’قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند‘‘ کی مثال ہی صادق آتی ہے۔ 

اب ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پڑنے والا اندرونی اور بیرونی دبائو قبول کرنا ہے یا نہیں اور اس حوالے سے ہمارے پائوں زمین پر ٹکے ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔ ہمارے ’’لبرلز‘‘ اس وقت خودرو پودوں کی طرح سر نکال کر سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالے بیٹھے ہیں اور پراپیگنڈہ کئے جارہے ہیں کہ ہم بدلتی دنیا کے تقاضوں سے خود کو الگ تھلگ کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ایک پراپیگنڈہ یہ بھی چل رہا ہے کہ ہم اسرائیل کے ایجاد کردہ موبائل سیل فون سے تو خود کو ایک لمحہ بھی الگ نہیں کر سکتے مگر اسرائیل کو تسلیم کرنا ہمیں قبول نہیں۔ اس نوعیت کے پراپیگنڈے لوگوں کو جذباتی طور پر موٹیویٹ کرکے اپنے مقاصد کیلئے قائل کرنے کی خاطر کئے جاتے ہیں چنانچہ مجھے اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار کو جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر یہ پراپیگنڈہ کرتے ہوئے دیکھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ ہمیں یواے ای اور اسرائیل کے معاہدے کو بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کے تناظر میں دیکھنا اور اس حوالے سے قومی سیاسی قیادتوں کی مشاورت کے ساتھ قومی پالیسی وضع کرنا ہو گی۔ گویا جیسے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے بچنے کیلئے یکایک ’’قومی مشاورت‘‘ کرکے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں متفقہ ترامیم کرائی گئیں، ویسے ہی اب بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ رہنے کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تقاضا بھی نبھالیا جائے۔ 

ارے بھلے لوگو! یو اے ای اسرائیل معاہدے کے بعد یواے ای کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب اسرائیل مزید فلسطینی علاقوں پر قابض نہیں ہوگا‘ یعنی مسلمانوں کے قبلۂ اول مقبوضہ بیت المقدس سمیت اسرائیل اب تک جتنے فلسطینی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے، وہ سب جائز ہے۔ اسرائیل کو تو یواے سی کا یہ دعویٰ بھی گوارا نہیں ہوا اور اسکی جانب سے جھٹ سے یہ وضاحت جاری کردی گئی کہ ہم فلسطینی اراضی پر اپنے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے۔ اس پر بھی ’’قومے فروختند چہ ارزاں فروختند‘‘ والی بات ہی صادق آتی ہے۔ کیا ایسے ہی عزائم مقبوضہ و آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارت سرکار کے بھی نہیں ہیں۔ یواے ای اسرائیل معاہدے سے یقیناً پورے کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے بھارت کے حوصلے بھی مزید بلند ہوئے ہونگے اور اگر ہم خدانخواستہ خود بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو پھر ہم آزاد و مقبوضہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر ہی بھارت کے حوالے کرینگے۔ اس سب سے بڑھ کر میرا تجسس یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے معاملہ میں ہم نے احکامِ خداوندی کی تعمیل و پاسداری کرنی ہے یا بدلتی دنیا کے تقاضوں کا ساتھ دینا ہے؟ بھائی صاحب! ایسا ہو گیا تو ہماری مسلمانی چہ معنی دارد اور ہم اپنی شہ رگ کے محافظ کیونکر…؎

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com