وزیراعظم عمران خان تو یقیناً پوری نیک نیتی کے تحت آگے بڑھنے کا عزم باندھ رہے جس کیلئے وہ کشتیاں جلا چکے ہیں تاکہ پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے مگر یہ کون عناصر ہیں جو ’’وَٹے‘‘ ڈال کر ان کا بیڑہ ڈبونے پر تلے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کے آگے بڑھنے کے عزم کو روندنے کی اس سے بڑی حرکت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کا آگے بڑھنے اور عوام کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل حل کرنے کے وعدے ایفا ہونے کا وقت آنے کا عندیہ جیسے ہی عوام تک پہنچا، نیپرا کی جانب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر نومبر 2019ء سے مارچ 2020ء تک کا فی یونٹ 98 پیسے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرکے عوام پر مہنگائی کا مزید ہتھوڑا چلا دیا گیا۔ بجلی کے بلوں میں اس عرصہ کا مجموعی اضافہ سوا 2روپے فی یونٹ بنتا ہے۔ اس طرح عوام کی جیبوں پر بیک جنبش 20، ارب روپے سے زائد کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور ایسی دیدہ دلیری پہلی بار تو سامنے نہیں آئی۔ وزیراعظم جب بھی عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری سے نجات دلانے کا کوئی اقدام اٹھاتے ہیں یا اعلان کرتے ہیں، اسکی سیاہی خشک ہونے کی بھی نوبت نہیں آنے دی جاتی اور مہنگائی، بے روزگاری کے نئے جھکڑ چلا دیئے جاتے ہیں چنانچہ اب یار لوگوں کو یہ پھبتی کسنے کا نادر موقع مل گیا ہے کہ وزیراعظم جس چیز کا بھی نوٹس لیتے ہیں وہ یا تو ناپید ہو جاتی ہے یا اسکے نرخ آسمانوں تک جا پہنچتے ہیں اس لئے وزیراعظم براہ کرم نوٹس لینا بند کردیں۔ نیپرا نے بھی گزشتہ روز بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرکے وزیراعظم کو انکے کشتیاں جلا کر آگے بڑھنے کے اعلان پر پریشان کرنے کی ہی کوشش کی ہے اس لئے وزیراعظم کو اس معاملہ کا تو بہرصورت نوٹس لینا اور اپنی ٹائیگر فورس کے ذریعے کھوج لگوانا چاہیے کہ عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے انکے مشن کے پیچھے کون لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔
مجھے تو وزیراعظم کے اس مشن کے اخلاص پر کوئی شک نہیں ہے اور اس معاملہ میں وزیراعظم کی فکرمندی کی ایک جھلک میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر محمود قریشی نے جو ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے میڈیا ایڈوائزر کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں‘ یہ واقعہ میرے ساتھ شیئر کرکے دکھائی کہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کے مدارالمہام ریڈیو پاکستان کے سینکڑوں کنٹریکٹ اور ایڈہاک ملازمین کی ایک فہرست مرتب کرکے وزیراعظم عمران خان کے پاس لے گئے اور انہیں ملازمت سے فارغ کرنے کی سفارش کی تاکہ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے خطیر اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔ ڈاکٹر محمود قریشی کے بقول وزیراعظم نے مذکورہ شخصیت کو ڈانٹ پلاتے ہوئے باور کرایا کہ انکی حکومت بے روزگاری پھیلنے پر پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے اور آپ بے روزگاری مزید پھیلانے کا فارمولہ لے کر آگئے ہیں۔ آپ لوگوں کی ملازمتوں کے پیچھے نہ پڑیں اور ریونیو بڑھانے کے دوسرے ذرائع اختیار کریں۔
بے شک اس سے بے روزگاری پھیلنے پر وزیراعظم کی فکرمندی عیاں ہے مگر ان سرکشوں کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کا راستہ ہموار بھی تو کیا جانا چاہیے جو عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے اور ان کا اقتصادی بوجھ بانٹنے میں معاون بننے کے بجائے ان کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنے کے حیلے بہانے ڈھونڈتے اور ایسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں جس سے حکومت مخالف طبقات و عناصر کو حکومتی گورننس پر سوال اٹھانے کا موقع مل سکتا ہو۔ یہ لوگ حکومتی گورننس کے ہی نہیں، انصاف کی عملداری کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کے غریب‘ پسماندہ اور بے روزگار طبقات کو عدالتوں سے ملنے والے ریلیف سے بھی مستفید نہ ہونے دیا جائے اور انہیں خجل خوار کرکے اتنا مایوس کردیا جائے کہ وہ دادرسی کیلئے مجاز فورم سے رجوع کرنے کا سوچنا ہی ترک کردیں۔
گزشتہ ہفتے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس گلزار احمد نے پشاور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے تین سو کنٹریکٹ ملازمین کی بحالی کیخلاف یونیورسٹی کی اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے یقیناً اسی تناظر میں ریمارکس دیئے کہ جو کنٹریکٹ ملازمین سالہا سال کام کرتے رہے ہیں اور انکی ملازمت کی میعاد میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔ اب وہ ایک دم کیسے نااہل ہو گئے کہ آپ انہیں نکال کر انکی جگہ نئے لوگ بھرتی کررہے ہیں۔ یہ نااہل تھے تو انکی مدتِ ملازمت میں باربار توسیع کیوں کی جاتی رہی۔ عدالت کسی کو بے روزگار نہیں کرنا چاہتی اس لئے جن کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت کا عرصہ تین سال سے زائد ہے، انہیں ہی نئی اسامیوں پر مستقل تعینات کیا جائے۔ فاضل چیف جسٹس کے یہ احکام یقیناً ملک کے ہر محکمے اور ادارے کے ان ملازمین پر لاگو ہوتے ہیں جنہیں سالہا سال کنٹریکٹ پر رکھ کر بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کردیا گیا اور اس طرح ملک میں بے روزگاری پھیلانے کے راستے نکالے گئے تاکہ متاثرہ خاندان حکومت کا سیاپا کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس حوالے سے میں پنجاب یونیورسٹی کے معاملات کا تو خاصہ مشاہدہ بھی کرچکا ہوں جس کی انتظامیہ نے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کیخلاف اقرباء پروری اور ناجائز تقرریوں کا مجہول پراپیگنڈا کرکے پنجاب یونیورسٹی کے تمام کنٹریکٹ ملازمین کو بیٹھے بٹھائے فارغ کر دیا جبکہ یہ ملازمین اپنے اپنے شعبوں میں سالہا سال سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان ملازمین نے اپنے وکلاء کیلئے لاکھوں کی فیسوں کا بندوبست کرکے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور عدالت عالیہ نے تقریباً ایک سال تک ان مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے میرٹ پر مقدمات منظور کرتے ہوئے درخواست دہندگان کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا جس میں پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کا حوالہ دیکر قرار دیا گیا کہ تین سال سے زائد سروس والے کنٹریکٹ کو مستقل کرنا ان کا استحقاق ہے کیونکہ یہ ملازمین زائدالعمر ہو کر سرکاری ملازمت کے نئے مواقع سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر تو یونیورسٹی انتظامیہ کو ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ اسکی روح کے مطابق قبول کرلینا چاہیے تھا مگر یونیورسٹی کے فنڈز پر پلنے والے یونیورسٹی کے قانونی مشیروں نے یونیورسٹی سے مزید لاکھوں کی فیسیں وصول کرنے کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ کو اپیل کیلئے سپریم کورٹ کا راستہ دکھا دیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو تو سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے مزید لاکھوں کی فیس دیتے ہوئے یقیناً کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ یہ رقم کون سی انکی جیبوں سے جانی تھی مگر پہلے ہی بے روزگاری کے شکنجے میں آئے ملازمین کیلئے تو لاکھوں کی مزید فیسوں کا اضافی بوجھ ناقابل برداشت تھا۔ متاثرہ خاندانوں کے اس کرب کی داستانیں سنتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ تو اپنے سینے میں پتھر کا دل رکھتی ہے اس لئے مشکلات کے دور میں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے جذبے سے یکسر محروم ہے۔ انکی اس بے حسی کا اندازہ اس امر سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے متذکرہ کنٹریکٹ ملازمین کا کیس قواعد و ضوابط کے مطابق نمٹانے کیلئے پنجاب یونیورسٹی کو واپس ریمانڈ کیا مگر یونیورسٹی کی متعلقہ انتظامیہ اس پر ایک سال سے سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے اور اب تک سائلان کو جواب دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اس طرز عمل کا یہی مفہوم نکلتا ہے کہ عدالتیں اور حکومتیں عوام کو انکے مسائل میں ریلیف دینے کیلئے جو مرضی اقدامات اٹھاتی اور جو مرضی فیصلے کرتی رہیں، ہم نے انہیں کسی ریلیف کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا۔ گویا سائلین اب مزید لاکھوں کی فیسیں بھر کر دادرسی کیلئے پھر عدلیہ میں انصاف کی گھنٹی بجائیں تاکہ انسانی جذبات سے عاری ان ’’بااختیار‘‘ طبقات کو مجبور انسانوں کی بے بسی کا مذاق اڑانے کا مزید موقع ملتا رہے۔ انہیں حضرت علی ؓ کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ ’’کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔‘‘ خدا کی رسی دراز ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کی پکڑ ہی نہ ہو۔ مظلوموں کی آہیں تو ہفت آسمانوں کے کنگرے ہلا دیتی ہیں۔ آپ عارضی انسانی اختیارات کی کس نخوت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کا عزم اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس آخر کسی نتیجے سے تو ہمکنار ہونگے۔