پاکستان کا سیاسی نقشہ اور ریڈکلف ایوارڈ
Aug 07, 2020

ہماری سرحدوں کا جھگڑا تو نہرو، ماؤنٹ بیٹن گٹھ جوڑ کے باعث تقسیم ہند کے وقت ہی شروع ہو گیا تھا۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3؍ جون 1947ء کو تقسیم ہند کاپلان دیا جس کے تحت 15 اگست 1947ء کو ہندوستان کو تقسیم ہو کر دو نئی ریاستوں پاکستان اور بھارت کے وجود میں سمٹ جانا تھا۔ اس پلان کے مطابق دونوں مجوزہ نئی ریاستوں کی حد بندی کیلئے ماؤنٹ بیٹن نے ریڈکلف کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جس میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی نمائندگی کیلئے چار جج صاحبان کو بطور رکن نامزد کیا گیا۔ ان میں جسٹس دین محمد اور جسٹس منیر مجوزہ پاکستان اور جسٹس مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ مجوزہ ریاست بھارت کی نمائندگی کررہے تھے۔ یہ بلاشبہ قائداعظم محمدعلی جناح کی انتھک جدوجہد،فہم و بصیرت اور قائداعظم کی آواز پر لبیک کہنے والے برصغیر کے مسلمانوں کے جوش و ولولہ کا ہی ثمر تھا کہ برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کی کوکھ میں سے ایک نئی ریاست پاکستان کے نام سے تشکیل دینے پر آمادہ ہو گئے تھے جو فی الواقع مہابھارت کے ایجنڈے پر ضربِ کاری تھی۔ ہندو بنیاء نے طوعاً وکرہاً تقسیم ہند کا پلان قبول تو کرلیا مگر اسکے سازشی ذہن نے پاکستان کی تشکیل دل سے قبول نہ کی کیونکہ اس سے ہندو بنیاء کے اکھنڈ بھارت کے خواب چکناچور ہو رہے تھے۔ چنانچہ نہرو نے پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرنے کیلئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا۔ ریڈکلف نے تو اپنا فریضہ نبھایا اور کمیشن کے ارکان کی معاونت سے دیانتداری کے ساتھ سرحدوں کا تعین کیا اور فیروزپور، گورداسپور اور انکے نواحی علاقے پاکستان میں شامل کرنے کا واضح عندیہ دے دیا مگر ہندو بنیاء کا سازشی ذہن اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھا کیونکہ نہرو نے تو پہلے ہی پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے فیروزپور ہیڈورکس پر اپنا تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی تاکہ وہاں سے پاکستان کیلئے پانی کو روک کر اسے بھوک پیاس سے تڑپایا جاسکے۔ سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار، سابق وفاقی وزیر قانون اور سابق جج وفاقی شرعی عدالت سیدافضل حیدر جو ریڈکلف باؤنڈری کمیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کے وکیل ظفراللہ خان کی معاونت کرنیوالے نامور قانون دان سید محمد شاہ کے صاحبزادے ہیں اور اپنے والد مرحوم کی جمع شدہ دستاویزات کی بنیاد پر ریڈکلف ایوارڈ کی لمحہ لمحہ کی داستان پر مبنی کتاب مرتب کررہے ہیں،پاکستان اور بھارت کی حد بندی کے معاملہ میں معلومات و حقائق کا خزانہ رکھتے ہیں۔ انکے بقول (اور حقائق بھی یہی ہیں کہ) لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 17؍ اگست 1947ء کو ریڈکلف ایوارڈ جاری کیا تو اس میں انہوں نے خود ردوبدل کرکے فیروزپور اور گورداسپور کو بھارت میں شامل کردیا تھا۔

یہی ڈنڈی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے معاملہ میں ماری اور اس پر تقسیم ہند کا فارمولہ لاگو ہی نہ ہونے دیا جس کے تحت خودمختار ریاستوں کی اکثریتی آبادی کو پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا تھا۔ مسلمانوں پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر کی اکثریتی آبادی چونکہ قیام پاکستان سے بھی پہلے اسکے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر چکی تھی اس لئے اسکے پاکستان کا حصہ بننے کے بارے میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی تھی اور قائداعظم نے بھی اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا مگر سازشی ہندو بنیاء تو کٹا پھٹا اور کمزور پاکستان قائداعظم کے حوالے کرانا چاہتا تھا اس لئے نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے کشمیر کا پاکستان سے الحاق مؤخر کرادیا اور پھر اپنی سازشی منصوبہ بندی کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے والی مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ چند ’’ٹکوں‘‘ کا معاہدہ کرکے ان سے کشمیر خریدنے کا اعلان کر دیا اور پھر اسی معاہدے کی آڑ میں 27؍ اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں بھارتی افواج داخل کر دیں۔ کشمیر پر ہندو بنیاء کا یہ تسلط آج کے دن تک قائم ہے اور پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی بھارت نے اسکی شہ رگ کشمیر کو گزشتہ 72 سال سے دبوچ رکھا ہے۔ 

مجھے یہ ساری تمہید پانچ اگست کو حکومت پاکستان کے جاری کردہ پاکستان کے سیاسی نقشے پر سوشل میڈیا پر ہونیوالی ’’الم غلم‘‘ تنقید کی ہڑبونگ کے حوالے سے باندھنا پڑی ہے۔ جی حضور! یہی نقشہ اصل پاکستان کا نقشہ ہے جس کے خدوخال ریڈکلف کمیشن نے پاکستان اور بھارت کی حد بندی کرتے وقت نمایاں اور اجاگر کئے تھے۔ اس حد بندی کی داستان مجھے اپنے والد مرحوم میاں محمد اکرم (گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریک پاکستان) کی زبانی بھی سننے کا موقع ملتا رہا ہے جو اراضی کے ریکارڈ کے ساتھ حد بندی کے کیس میں سید محمد شاہ ایڈووکیٹ کی معاونت کیا کرتے تھے اس لئے میں اپنی جذباتی وابستگی کے ناطے سے بھی پاکستان کے جاری کردہ نئے سیاسی نقشے کو پاکستان کا اصل اور مستند نقشہ سمجھتا ہوں جس سے پوری وادی کشمیر ہی نہیں، ریڈکلف کی جانب سے پاکستان کا حصہ بنائے گئے بھارتی علاقوں پر بھی ہمارا کیس مضبوط ہوا ہے اور ہم ریاست جوناگڑھ پر بھی اپنا کلیم تسلیم کرانے کی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ آج سلامتی کونسل میں کشمیر کا معاملہ مصلحتوں کا شکار ہو کر اٹکا اور لٹکا ہوا ہے کہ اسکی ٹھوس قراردادوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا رکھنے والے کشمیری عوام کو گزشتہ 72 سال سے استصواب کا حق نہیں مل سکا۔ اس طرح انکے ساتھ ایک ڈنڈی تو لارڈ مائونٹ بیٹن نے ریڈکلف ایوارڈ جاری کرتے وقت ماری کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کیا گیا اور دوسری ڈنڈی انکے ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل نہ لا کر ماری جارہی ہے۔ پاکستان کے مفادات اور کشمیریوں کے جذبات کے ہم آہنگ پاکستان کا سیاسی نقشہ بھی دنیا کو یہی باور کرارہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔ اس حوالے سے ڈوگرہ مہاراجہ کے ساتھ کئے گئے نہرو کے معاہدے کی پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں کہ کسی ریاست کو اسکے عوام سمیت چند ٹکوں کے عوض خرید لینا ناممکنات میں شامل ہے۔ اگر کشمیری ہندو بنیاء کے زرخرید غلام ہوتے تو 72 سال سے بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد کیوں جاری رکھتے اور اس عظیم جدوجہد میں اپنے لاکھوں پیاروں کی قربانیاں کیوں دیتے۔ قربانیوں سے معمور انکی جدوجہد کا یہ سفر تو آج بھی جاری ہے۔ جنونی ہندو مودی سرکار نے پاکستان کے حقیقی نقشے کو جھٹلانے کیلئے ہی گزشتہ سال 5 اگست کو مقبوضہ وادی پر آئینی شب خون مارا تھا اور اسی کی آڑ میں جنونی ہندو بنیاء پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت للچائی نظریں گاڑے بیٹھا ہے جبکہ تلخ حقائق سے نابلد ہمارے ’’لبرلز‘‘ نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے سیاسی نقشے کو الم غلم تنقید کے ہدف پر رکھا ہوا ہے جس سے ہماری شہ رگ پر انگوٹھا رکھنے والے ہمارے دشمن بھارت کو حظ اٹھانے اور ہمارا مضحکہ اڑانے کا خوب موقع مل رہا ہے۔ اگر ہم نے اس معاملہ میں بھی آئین کی دفعہ 19 کی پاسداری نہیں کرنی اور ہمارے ذمہ دار اداروں نے سوشل میڈیا پر غل غپاڑہ کرنیوالوں کیخلاف یہ آئینی دفعہ بروئے کارنہیں لانی تو پھر حضور!…؎
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com