لاشوں پر حکومت
Jul 24, 2020

خیال تو یہی تھا کہ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی شتربے مہار آزادی پر سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے ریمارکس پر اپنی ناقص عقل کے مطابق خامہ فرسائی کی جائے اور آزادی ٔ اظہار رائے کے ڈھنڈورے پیٹنے والوں کو آئین پاکستان کی دفعہ 19 کا آئینہ دکھایا جائے مگر گزشتہ دنوں شائع ہونیوالی دو خبریں میرے ذہن میں کُھبی ہوئی ہیں چنانچہ ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے‘‘ کے مصداق ان خبروں میں موجود زندگی کے تلخ حقائق سے صرفِ نظر میرے لئے ممکن نہیں رہا۔ ان میں سے ایک خبر نوائے وقت میں شائع ہوئی جس میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ایک ہی روز ہونیوالی دس خودکشیوں کی تفصیلات موجود تھیں اور اس سے اگلے روز ’’جنگ‘‘ میں ایک ہی روز پانچ خودکشیوں کے حوالے سے خبر شائع ہوئی۔ خودکشی جیسا انتہائی اقدام اٹھانے والے یہ خواتین و حضرات بشمول نوجوان اپنے گھریلو حالات، مالی مجبوریوں اور بے روزگاری سے زچ ہوتے ہوئے مایوسی کی اس انتہاء کو پہنچے جنہوں نے یقیناً یہ سوچ کر موت کو گلے لگایا ہوگا کہ شاید انکے اس اقدام سے ہی دنیاوی تفکرات سے نجات مل جائے۔

خودکشی بلاشبہ حرام موت ہے جس کی ہمارے سلامتی والے دین اسلام میں بھی ممانعت ہے اور تعزیرات پاکستان کے تحت یہ تعزیری جرم بھی ہے۔ مگر جس انسان نے خود کو مار کر اپنے آپ کو خود ہی سزا دے لی ہو تو اسکے اس تعزیری جرم کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ میرا آج کا استفسار یہی ہے کہ خودکشی کے سنگین جرم کا مقدمہ کس کیخلاف درج اور دائر ہونا چاہیے۔ کاش! ہمارا بھی ایسا مثالی معاشرہ اور نظام عدل موجود ہو جس میں مغربی معاشرے کاایک جج ایک سٹور سے ڈبل روٹی چرا کر کھانے کے جرم میں گرفتار بچے کے اس جرم کی سٹور کے مالک، حکومت اور پورے معاشرے بشمول خود کو یہ کہہ کر بھاری جرمانے کی سزا دیتا ہے کہ چوری کرنیوالے بچے کے اس جرم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں کیونکہ ملزم بچے نے یہ جرم بھوک سے عاجز آکر کیا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں ناانصافی نہ ہورہی ہوتی تو اس بچے کو بھوک سے عاجز آکر ڈبل روٹی چوری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی۔

ارے۔ ہمارے معاشرے میں تو مجبور انسانوں کیلئے پل پل ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ وہ جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کیلئے لوٹ مار، چھینا جھپٹی اور قتل و غارت گری شروع کر دیں یا اپنی جان سے ہی گزر جائیں۔ بقول مجید امجد، ہمارے معاشرے میں بے حسی کی فضا ایسی بن گئی ہے کہ…؎

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

تو بھائی صاحب پھر زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا۔ ریاست مدینہ کے تصور والے ہمارے معاشرے میں تو خود ریاست نے اپنے شہریوں کو صحت، تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کی بنیادی آئینی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور خود حکمران طبقات یہ باور کرا رہے ہیں کہ روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر ہمارے آئین کی بنیادی انسانی حقوق کی دفعات بالخصوص دفعہ 26, 25 اور 27 کی یہی تشریح ہے تو پھر اس آئین کو بھی علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق نذر آتش کردینا چاہیے کہ…؎

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اگر آج ریاست کی جانب سے ہی کسی نہ کسی جواز کے تحت اسکے شہریوں کیلئے ملازمتوں کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں اور ملازم پیشہ طبقات کو بھی مختلف پالیسیاں وضع کرکے بے روزگاری کی جانب دھکیلا جارہا ہے اور انکے بچوں کے مستقبل کے ساتھ ساتھ ان کا بڑھاپا بھی خراب کیا جارہا ہے تو حضور ذرا سوچئے۔ پھر ’’کس کے گھر جائیگا سیلاب بلا میرے بعد‘‘۔ سوچ لیجئے کہ ریاست کے ایسے اقدامات اور پالیسیوں کے اس انسانی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور غربت و پسماندگی کی جانب دھکیلے جانے والے انسان کیا چلن اختیار کرینگے۔ جناب ایسا نہیں ہو سکتا کہ…؎

آپ تے پیویں بُکاں شربت
سانوں گھُٹ گھُٹ زہر پلاویں

بزرگ شاعر بابا فرید گنج شکرؒ نے روٹی کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیکر بھوک کے ناطے سے فلسفۂ زندگی کی ساری پرتیں کھول دی ہیں اور ساحر لدھیانوی نے یہ کہہ کر اس فلسفے کو مہمیز لگائی ہے کہ…؎

مفلسی حسّ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک اطوار کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی

آج ہمارے معاشرے میں حسّ لطافت کو مٹانے والی اقدار ہی پروان چڑھائی جارہی ہیں جس کا اہتمام معاشرتی گراوٹ کے سوا بھلا اور کیا نکلے گا۔ اگر آج ہر گھر میں بے روزگاری پھن پھیلا کر ناچ رہی ہے، میرٹ کے قتل عام کے کھلے عام میدان سجائے جارہے ہیں، اقربا پروری کی رونقیں پہلے سے بھی زیادہ جگمگا رہی ہیں، کرپشن کا کاروبار مزید مستحکم ہوگیا ہے اور دادوفریاد سے محروم راندۂ درگاہ طبقات کیلئے ناصر کاظمی کے اس شعر والا ماحول بن گیا ہے کہ…؎

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

تو حضور ذرا خبر لیجئے۔ ایسے حالات شتر بے مہار معاشرے کی راہ نکالیں گے تو کس کے پلّے کیا بچے گا۔ اگر آپ بے روزگاری پھیلا کر خود کمانے اور خود کھانے کی دعوت دے رہے ہیں تو آپ کرپشن فری سوسائٹی نہیں، کرپشن میں بال بال اور ناخن ناخن لتھڑے معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ پھر جس کا جو زور لگے گا اور جس کا جو داؤ چلے گا وہ کرتا پھرے گا۔ آپ لوگوں کے دلوں میں انکی ٹوٹنے والی امیدوں کے قبرستان بنائیں گے تو پھر آپ کو زندہ انسان نہیں، لاشے ہی نظر آئیں گے۔ کیا آپ ان لاشوں پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں؟ حضور اپنی سوچ بدلئے۔ ان لاشوں نے اپنی سوچ بدل لی تو پھر ان پر حکومت کرنا ایک ڈراؤنا خواب بن جائیگا۔

    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com