ابھی ہم دو دن پہلے ہی 43 سال پہلے کے پانچ جولائی کی یادوں سے گزرے ہیں مگر اس دن سے جن لوگوں نے سبق حاصل کرنا ہے‘ وہ آج بھی ایسا ہی ’’سعد‘‘ دن طلوع کرنے کی تگ ودو میں نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ذاتی مفادات اتنے گہرے ہوگئے ہیں کہ انکی خاطر دوسروں کے ساتھ ساتھ ملک کے نقصان کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چنانچہ جس پانچ جوائی سے آئندہ کیلئے بچنے کا تردد اور قومی سیاست میں یکسوئی ہونی چاہیے تھی اس پانچ جولائی کو آج بھی اپنے اپنے فائدے اور اپنے اپنے نقصان کے تناظر میں جانچا جارہا ہے۔ ہمارے بھائی اعجازالحق (فرزندِ ضیاء الحق) خود ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اپنے والد کے انتقال کے بعد سے اب تک قومی سیاست میں اپنا کردار سنبھالے ہوئے ہیں مگر اپنے والد مرحوم کے پانچ جولائی 1977ء کے ’’اپریشن فیئر پلے‘‘ کے جواز میں انہیں قومی سیاست اور سیاست دانوں کو رگیدنے اور جمہوریت کا لفظ بطور گالی استعمال کرنے کی ہر کسی کی ’’ادا‘‘ بھلی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ ایسی ہی قبیل ہمارے آج کے اہل قلم میں بھی موجود ہے جنہیں میاں نوازشریف کیخلاف 12؍ اکتوبر 1999ء کا ماورائے آئین اقدام تو زہر لگتا ہے اور وہ نوازشریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے بیانیہ کو بھی نقارۂ حق گردانتے ہیں مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کیخلاف جنرل ضیاء الحق کے پانچ جولائی 1977ء والے ماورائے آئین اقدام کیلئے وہ رطب اللسان نظر آتے ہیں اور اسے ’’یوم نجات‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ ودود قریشی صاحب نے اپنے گزشتہ روز کے مضمون میں پانچ جولائی 1977ء کے ماورائے آئین اقدام کے ترانے گائے ہیں اس لئے جب تک ہم اپنے ذاتی اور قومی مفادات میں امتیاز نہیں کر پائیں گے تب تک ہماری ذات اور قومی سیاست و ترجیحات میں دوعملی ہمارا خاصہ بنی رہے گی۔
آج ’’مائنس ون‘‘ کی شوراشوری میں اس بیانیے والے بھی قومی سیاست کو دھکیل کر43 سال قبل والے 5جولائی کے حالات کی طرف لے جانے کی کوششوں میں ہیں اور ’’مائنس ون‘‘ کو اپنے لئے گالی سمجھنے والے تو اب ہاتھوں میں گلدستے لئے اور ’’جی آیاں نُوں‘‘ کا ورد کرتے ہوئے5 جولائی جیسے ماورائے آئین اقدام کے استقبال کی تیاریاں کرتے نظر آتے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اسی تناظر میں وزیرمملکت علی محمد خان کا نام لئے بغیر انکے ان الفاظ پر فکرمندی کا اظہار کیا تھا کہ اگر عمران خان مائنس ہوئے تو پھر جمہوریت بھی مائنس ہو جائیگی۔ آج اسی کابینہ کے ایک معتبر رکن غلام سرور خان (وزیر ہوا بازی) کے بیان نے مجھے عملاً لڑکھڑا دیا ہے کیونکہ وزیر موصوف نے جمہوریت کو وہی گالی دی ہے جو پانچ جولائی 1977ء کے اقدام کا دفاع کرنیوالے ہمارے معتبرین و معززین اس اقدام کے جواز میں جمہوریت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ موصوف نے کراچی ایئرکریش کی انکوائری رپورٹ میں ’’گل افشانیاں‘‘ کرکے بیرونی دنیا کیلئے پی آئی اے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو بھی نامعتبر بنایا اور اب وہ مزید گل افشانی یہ کررہے ہیں کہ پی آئی اے اور سٹیل مل 2008ء تک تو منافع میں چل رہی تھیں, ان دونوں کو جمہوریت نے تباہ کیا۔ یعنی مشرف کے ماورائے آئین دور اقتدار تک ان دونوں قومی اداروں میں بھی اور اسی سوچ کے تحت دیگر تمام ملکی اور قومی معاملات میں سب اچھا تھا‘ بیڑہ غرق تو اسکے بعد آنیوالی جمہوریتوں نے کیا ہے۔ حضوروالا! اسی بیڑہ غرق کرنیوالی جمہوریت کا آپ پھل کھا رہے ہیں۔ آپ جس درخت کی گھنی چھائوں میں بیٹھے ہیں اسی کو آرے چلا کر کاٹنے کے درپے ہیں تو ایسا یقیناً ماورائے آئین اقتدار سے بھی شیرینی حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے کہا جارہا ہے۔ اگر آج اہل اقتدار کی صفوں میں سے جمہوریت کا پھلکا اڑانے والی سوچ کی بہار لگی ہوئی ہے تو ’’مائنس ون‘‘ کے بیانیے کے ذریعے کہیں پر ڈوریاں ہلانے کا اہتمام تو نہیں ہورہا ہے۔
جمہوریت کو گالی دے کر راندۂ درگاہ بنانے والی ’’پوِتر‘‘ سوچ کے پس پردہ محرکات کا اندازہ مجھے اپنے گزشتہ کالم ’’آگے آپ خود سمجھدار ہیں‘‘ پر محمد رضوان نامی کسی شخص کی موصولہ ای میل کے ذریعے بخوبی ہو گیا جس میں میرے الفاظ کے چنائو کی بھی پاسداری نہیں کی گئی اور میری ناکردہ گناہی بھی میرے گناہوں کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ بذریعہ ای میل مجھ سے مخاطب ہونیوالے یہ صاحب پپٹ ہیں یا پپٹ ساز‘ اس کا بھی مجھے کچھ نہ کچھ اندازہ ہورہا ہے مگر ماورائے آئین اقدام کے جواز میں انہوں نے جس لب و لہجے میں جمہوریت اور آئین کی بھد اڑائی ہے‘ اس سے باہم درست و گریباں ہمارے آج کے حکومتی اور اپوزیشن قائدین کو جمہوریت کو مائنس کرنے کیلئے پکائی جانیوالی اس کھچڑی کا ادراک ہونا چاہیے جس کا میں نے کسی کی جبینِ نیاز شکن آلود ہونے کا باعث بننے والے اپنے گزشتہ کالم میں بھی تذکرہ کیا تھا۔ ای میل بھجوانے والے صاحب کی ذرا زبان ملاحظہ فرمائیے:
’’تو بھائی صاحب! آپ یہ بتانا پسند کرینگے کہ بوٹ والوں میں کہاں خرابی ہے۔ اور کیا انسان کے پلید ہاتھوں کا لکھا ناپاک آئین کوئی آسمانی صحیفہ ہے جس کی تکریم تم جیسے لوگ قرآن سے زیادہ کرتے ہو۔ لعنت ایسی جمہوریت اور آئین پر جس سے خلقِ خدا عذاب میں مبتلا ہو۔ جب پولیس عوام کے پیسے پر پل کر عوام کو جوتے مارے اور ’’سیاہ ست دان‘‘ عوام کے پیسے سے تنخواہیں اور مراعات لیں اور عوام کو غلام بنا لیں تو ایسے نظام کو بھی آگ لگا دینی چاہیے۔ قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ حکومت سویلین کا کام ہے اور فوج پر حرام ہے۔ یہ تم جیسے مغرب پرستوں کے فلسفے ہیں جس نے خلق خدا کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
ای میل بھیجنے والے ان صاحب کو میں مشورہ دوں گا کہ میرے جس کالم پر انہوں نے خامہ فرسائی کی ہے, وہ اس کا ایک بار پھر مطالعہ فرمالیں, ارے میں نے تو خود اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ آئین کے ماتحت رائج پارلیمانی جمہوری نظام کوئی حرف آخر نہیں, نہ صحیفۂ آسمانی ہے کہ اس میں زبرزیر کا بھی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ میرا تجسس صرف ماورائے آئین اقدام اور اقتدار کے حوالے سے ہے۔ میں تو خود اس سوچ کا حامی و حامل ہوں کہ اگر جمہوری نظام جمہور تک براہ راست اپنے ثمرات نہیں پہنچا پا رہا تو قاعدے قانون کے تحت ایسا کوئی بھی نظام لے آئیں جس سے ملک اور قوم کیلئے بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہو۔ مگر اس کیلئے ماورائے آئین اقدام کے بجائے آئینی طریق کار اختیار کرلیں۔ ترکی میں کنعان ایورن کے دور میں آئین کے تحت ہی فوج کی شراکت اقتدار کی گنجائش نکالی گئی تھی۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے موجودہ دور میں اس سوچ کا کیا حشر ہوا مگر ہماری دوطرفہ رطب اللسانی کی فضا تو موجودہ اسمبلی کے ذریعے بھی اسی طرح آئین میں شراکت اقتدار کی گنجائش نکلوا سکتی ہے جیسے آرمی چیف کے منصب کی میعاد پر پلک جھپکتے میں مفاہمت کرکے آئینی ترمیم منظور کرا لی گئی تھی۔ اس طرح جو بھی سسٹم لایا جائے, کم از کم قاعدے قانون کے مطابق اور آئین کے ماتحت تو لایا جائے۔ اگر یہ آئین صحیفۂ آسمانی ہوتا تو کیا اسکی کسی شق میں ہلکے سے ردوبدل کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی۔ آپ آئین کے ذریعے شراکت اقتدار یا مکمل اقتدار کی اجازت لے لیں تو کم از کم یہ اقدام قاعدے قانون کے مطابق تو ہوگا جس کے جواز کیلئے آپ کو اپنے کسی رطب اللسان سے جمہوریت اور آئین کی مٹی پلید کرانے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی۔ میرا تو اتنا سا ہی تجسس ہے کہ مروجہ آئین اور قاعدے قانون سے ماورا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔