’’بھول کس سے ہوئی ہے‘‘
Jun 30, 2020

عوام پر گرایا جانیوالا پٹرول بم اتنا ناروا ہے کہ خود حکومتی ذمہ داران کیلئے اس فیصلے کا دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو پٹرول کے نرخوں میں 25 روپے فی لٹر اضافہ کا مشورہ دینے اور انہیں اس پر قائل کرنیوالے مالیاتی ایڈوائزر ندیم بابر بھی اب یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں کہ میرا کام تو حکومت کو محض مشورہ دینا ہے‘ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اس مشورے پر عمل کرے یا نہ کرے۔ جب وہ یہ بات وفاقی وزیر عمرایوب کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس میں کررہے تھے تو مجھے وزیراعظم کے حسن انتخاب پر افسوس ہورہا تھا کیونکہ ندیم بابر تو اپنے پائوں پر کھڑے نظر ہی نہیں آرہے تھے حالانکہ ’’اندر‘‘ کی کہانیوں کے مطابق ان صاحب نے یہ کہہ کر وزیراعظم کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں فوری طور پر 25 روپے تک فی لٹر اضافہ کرنے پر قائل کیا تھا کہ اگر قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ یکم جولائی کو کیا گیا تو پھر یہ نرخ 32 روپے فی لٹر تک بڑھانا پڑینگے۔ وزیراعظم کی ٹیم اسی بنیاد پر پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ کا جیسے تیسے دفاع کرتی رہی مگر جب اس اضافہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا مرحلہ آیا تو وزیراعظم کے مالیاتی ایڈوائزر اپنی بچھائی گئی بساط سے خود ہی دبے پائوں باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتے نظر آئے۔ ایسے میں اپوزیشن کی تنقید پر اسے وفاقی وزیر فواد چودھری کا یہی جواب دینا بنتا تھا کہ ہم سے تو 25 روپے اضافہ کا دفاع نہیں ہو رہا‘ آپ اپنے قائدین کی اربوں کی کرپشن کا نہ جانے کیسے دفاع کرلیتے ہیں۔

آج حکومتی ٹیم کو مافیاز کو سہولت اور ایک چٹکی میں اربوں کا فائدہ پہنچانے کا باعث بننے والے حکومتی فیصلوں کے دفاع کیلئے اپنے ضمیر کو تھپکی دیکر سلانے اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے اس عمل میں مکمل مشاق ہونے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں حکومتی اتحادیوں کا بدکنا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر حکومتی صفوں کے اندر بھی خاصی کھلبلی پیدا ہوئی نظر آتی ہے۔ چنانچہ قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کی سرخروئی حاصل کرنے کیلئے حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو خاصی مشقت کرنا پڑی ہے مگر اعدادوشمار کا حساب کتاب رکھنے والے خواتین و حضرات کی باچھیں کِھلی نظر آرہی ہیں تو بھائی صاحب! معاملات سودوزیاں میں کچھ تو گڑبڑ چل رہی ہے۔ ایسی قیاس کی فضا میں بھی اگر پیپلزپارٹی کے سابق جیالے اور حکمران پی ٹی آئی کے حالیہ ترجمان شوکت بسرا پورے اعتماد کے ساتھ پائوں باندھ کر پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ کا دفاع کررہے ہیں تو کم از کم انکی اس ادائے بے نیازی پر تو انہیں داد دینا بنتی ہے۔ وہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں حکومت کے دفاع کا حق ادا کررہے تھے تو مجھے اس شعر کی عملی تصویر بنے نظر آرہے تھے کہ…؎

جھوٹ کو کیوں جھوٹ جانیں‘ سچ سمجھ کر بولئے
جھوٹ سے گر کام چلتا ہو تو اکثر بولئے

انہوں نے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یہ ’’دلیل‘‘ دیکر پروگرام کے اینکر اور انکے مہمان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثارچیمہ کو بھی حیران و پریشان کردیا کہ ہم نے تو اس ماہ پٹرول کے نرخ صرف 25 روپے فی لٹر بڑھائے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنے گزشتہ دور حکومت میں ایک دن میں پٹرول کی قیمت 33 روپے فی لٹر بڑھا چکی ہے۔ چیمہ صاحب نے ان سے اس ’’خوش قسمت‘‘ دن کی بابت استفسار کیا تو انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود ایک کاغذ لہراتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیاکہ یہ تاریخی دن 31؍ جولائی 2014ء کا تھا جب حکومت نے پٹرول کی قیمت 75 روپے فی لٹر سے بڑھا کر 108 روپے فی لٹر کردی تھی۔ بسرا صاحب نے جس اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا اس پر ٹاک شو کے تمام شرکاء شش و پنج میں پڑ گئے۔ اگرچہ ڈاکٹر نثارچیمہ صاحب نے انہیں چیلنج کیا کہ ان کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے تاہم وہ یہ چیلنج دیتے ہوئے بھی غیریقینی کی کیفیت میں مبتلا نظر آئے۔ ہم تو پٹرولیم نرخوں میں یکدم 25 روپے فی لٹر اضافے کو ہی ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ گردان رہے تھے مگر شوکت بسرا صاحب نے پانسہ ہی پلٹ دیا۔ میں خود انکے اس دعوے پر خاصی دیر تک شش و پنج میں پڑا رہا۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں نہ انٹرنیٹ کے ذریعے اسکی تصدیق کرلی جائے چنانچہ میں نے نوائے وقت کی ویب سائٹ پر 2014ء کے ہر پہلی تاریخ کے اخبار کھنگالنا شروع کردیئے۔ یہ وہ سال ہے جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکومت مخالف دھرنا تحریک عروج پر تھی اور جمہوریت کو ممکنہ ’’شب خونی‘‘ سے بچانے کی خاطر حکومت اور اسکے اتحادیوں نے مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اسے طویل دے رکھا تھا اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی اس وقت کی حکمران مسلم لیگ (ن) کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھیں۔ میری حیرت اس بنیاد پر بھی تھی کہ آیا حکومت نے ایسی کٹھن آزمائش کے مراحل میں بھی پٹرولیم نرخوں میں اتنے زیادہ اضافے والا عوام دشمن فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے نیٹ پر یکم اگست 2014ء کا اخبار دیکھا‘ اس میں پٹرولیم نرخوں میں ردوبدل کے حوالے سے سرے سے کوئی خبر موجود ہی نہیں تھی اور گزشتہ نرخ ہی برقرار رکھے جانے کی چھوٹی سی خبر موجود تھی۔ پھر میں نے یکم جنوری 2014ء سے یکم جنوری 2015ء تک کے نوائے وقت کے تمام شماروں کی نیٹ پر ورق گردانی کی تو مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس پورے سال کے دوران صرف ایک ماہ پٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہوا جو محض چند پیسوں کا اضافہ تھا جبکہ زیادہ تر مہینوں میں پٹرولیم مصنوعات کے سابقہ نرخ ہی برقرار رکھے گئے اور دو مہینوں کے دوران نرخ خاطرخواہ کم کئے گئے۔

شوکت بسرا صاحب نے تو بہرحال ٹاک شو میں حکومت کے نامعقول فیصلے کا بھی دفاع کرنے کا حق ادا کر دیا چاہے بعد میں ان کا دعویٰ جھوٹا ہی کیوں نہ ثابت ہو جائے‘ جبکہ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا ایسا ہی دفاع وفاقی وزیر عمرایوب نے بھی کیا جن کے بقول عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخ 112 فیصد بڑھے ہیں۔ ہم نے تو پھر بھی محض 24 فیصد بڑھائے ہیں۔ انہوں نے بھارت‘ بنگلہ دیش‘ کوریا‘ جاپان کا حوالہ دیتے ہوئے لگے ہاتھوں یہ دعویٰ بھی فرما دیا کہ اس خطے میں آج بھی سب سے کم پٹرولیم نرخ پاکستان میں ہیں۔ تو حضور! اس معاملہ میں بھی ہر دعوے کی انٹرنیٹ پر تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اگر عالمی مارکیٹ میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پٹرولیم نرخ 112 فیصد بڑھے ہیں تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر قوم کو یہ بھی بتا دیجئے کہ عالمی مارکیٹ میں کس کم سطح سے پٹرولیم نرخ اٹھنا شروع ہوئے ہیں۔ نیٹ پر سارا گراف موجود ہے۔ بے شک کرونا بحران کے باعث ہی سہی مگر پٹرولیم نرخ تو گرتے گرتے منفی کی سطح پر چلے گئے تھے اور اب اس سطح سے اٹھ کر عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخ 40 ڈالر فی بیرل تک پہنچے ہیں جو پٹرولیم کے دس سال پرانے نرخ ہیں جبکہ 26 جون کو پٹرولیم نرخوں میں 25 روپے فی لٹر تک اضافے کرتے وقت عالمی مارکیٹ میں صرف چار ڈالر فی بیرل نرخ بڑھے تھے۔ اب میں پٹرولیم نرخوں کے معاملہ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے نرخوں کا حوالہ دوں تو جبیں نیاز کہیں شکن آلودہ نہ ہو جائے۔ حضور! بھارت میں اس وقت 86 روپے فی لٹر اور بنگلہ دیش میں 66 ٹکے فی لٹر پٹرول دستیاب ہے۔ اگر ہم ان نرخوں کا اپنے ملک کی کرنسی کے ساتھ تقابلی جائزہ لینے بیٹھ گئے تو بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی جس میں ڈالر کے مقابلے میں ہمارے ملک کی کرنسی کے ٹکے ٹوکری ہونے کی وجوہات بھی بات سے بتنگڑ بناتی نظر آئیں گی۔ آپ کا تو ماٹو ہی سابقین کی لوٹ مار کے احتساب اور عوام کو انکے پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی‘ روٹی روزگار کے مسائل میں ریلیف دینے کا تھا۔ اگر اس عہد میں بھی غریبوں کی ہی کمائی لٹ رہی ہے تو جناب فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کے معصومانہ استفسار کا تو جواب دے دیجئے کہ…

’’بھول کس سے ہوئی ہے‘‘

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com