فاضل عدلیہ کا گھر کا معاملہ
Jun 23, 2020

ہماری محترم عدلیہ میں جسٹس اقبال حمید الرحمان مجھے آج بھی آئیڈیل جج نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے منصب سے استعفیٰ دیا اور خاموشی کے ساتھ گھر روانہ ہوگئے۔ ان پر محض یہ الزام تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اپنے انتظامی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں قواعد و ضوابط کے برعکس تقرریاں کیں۔ اگر وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں خود پر عائد ہونیوالے الزامات کا دفاع کرتے تو میں یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس میں سرخرو ہوتے کیونکہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی تشکیل کے بعد اسکے پہلے چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے اور انہوں نے ضرورت کے مطابق عدالت عالیہ کے انتظامی عہدوں پر تقرریاں کی تھیں‘ اسکے باوجود انہوں نے اپنے دامن پر کوئی ہلکا سا بھی چھینٹا نہ پڑنے دینے کی خاطر اپنے منصب سے سبکدوش ہونا ہی مناسب سمجھا۔


سپریم جوڈیشل کونسل بھی درحقیقت عدلیہ ہی کا حصہ ہے جس کی تشکیل بطور خاص ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کے احتساب اور مواخذہ کیلئے آئین کی دفعہ 209 کے تحت عمل میں لائی گئی ہے اور اسکی شق سات کے تحت واضح کردیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سوا فارغ کرنے کی کوئی دوسری مجاز اتھارٹی نہیں۔ آئین کی دفعہ 209 کی شق آٹھ کے تحت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کیلئے کوڈ آف کنڈکٹ بھی سپریم جوڈیشل کونسل ہی جاری کرتی ہے۔ فاضل ججوں کے احتساب کا یہ ادارہ اس لئے بھی معتبر ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے سٹنگ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین فاضل ججوں اور ہائیکورٹوں کے دو سینئر ترین چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے برادر ججوں کو اپنے احتساب کے اس ادارے پر تو بہرصورت اعتماد ہونا چاہیے جبکہ آئین کی دفعہ 211 کے تحت یہ امر بھی واضح طور پر متعین کیا جا چکا ہے کہ کسی جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی‘ اسکی رپورٹ اور اس رپورٹ کی بنیاد پر صدر مملکت کی متعلقہ جج کو برطرف یا سرخرو کرنے کی کارروائی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ عدلیہ کے احتساب کے اس ادارے کو مزید مؤثر اور معتبر بنانے کیلئے کچھ اضافی قواعد و ضوابط بھی مرتب کرا دیئے تھے جن کے تحت کسی عام شہری کے بھی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا راستہ نکالا گیا۔ آئین کی دفعہ 210 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو دفعہ 204 والی توہین عدالت کی کارروائی سمیت سپریم کورٹ کے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی جج کو برطرف کرنے کا اختیار صرف دو وجوہ پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ متعلقہ فاضل جج ذہنی یا جسمانی طور پر معذور ہو جائے اور عدالتی فرائض سرانجام دینے کے اہل نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ متعلقہ فاضل جج کیخلاف ’’مس کنڈکٹ‘‘ کا الزام ثابت ہو جائے۔ یہ الزام ریفرنس کے ذریعے صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج پر عائد کرسکتی ہے۔ میری ناقص رائے میں اعلیٰ عدلیہ کے کسی فاضل جج پر ’’مس کنڈکٹ‘‘ کا الزام سپریم جوڈیشل کونسل کے وضع کردہ کوڈ آف کنڈکیٹ کی خلاف ورزی سے متعلق ہوتا ہے چنانچہ اس کا فیصلہ کرنے کی سپریم جوڈیشل کونسل ہی مجاز اتھارٹی ہے۔


بدقسمتی سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بائی پاس کرنے کی روایت بھی انہی جسٹس افتحار محمد چودھری نے ڈالی جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے کٹہرے میں لانے کا عام شہری کو بھی اختیار دے دیا تھا۔ جب اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے استعفیٰ لینے میں ناکامی کے بعد ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوایا تو وہ کوئی عذر تلاش کرنے کے بجائے اپنے دفاع کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوگئے تھے مگر انکے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے انہیں اس خدشے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا راستہ دکھایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بعض ارکان نے ان کیخلاف فیصلہ دینے کا پہلے ہی ذہن بنا رکھا ہے جو بقول انکے‘ انکے دلائل کے نوٹس تک نہیں لے رہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا یقیناً ماورائے آئین اقدام تھا مگر اس وقت وکلاء کی عدلیہ بحالی تحریک زوروں پر تھی جس کے سرخیل خود چودھری اعتزاز احسن تھے اس لئے سپریم جوڈیشل کونسل کیخلاف جسٹس افتخار محمد چودھری کی درخواست پر جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ بھی تشکیل دے دی گئی جس نے نہ صرف تکنیکی بنیادوں پر جسٹس افتخار چودھری کیخلاف دائر ریفرنس خارج کر دیا بلکہ عدلیہ کو زیربار رکھنے والا نظریہ ضرورت بھی سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ عدلیہ میں ایک طرح کا انقلاب تھا جس کی رو میں آئین کی پاسداری کو بھی بہا دیا گیا۔


اب آئین کی دفعہ 211 تو اپنی جگہ موجود ہے جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکتی مگر اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ کا 2007ء والا فیصلہ حاوی ہوگیا ہے اور اسی کا سہارا لے کر اب سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے اپنے برادر جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس اور اس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیا گیا اظہار وجوہ کا نوٹس کالعدم قرار دیا ہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ: WHO WILL JUDGE THE JUDGES ۔ تو جناب اب اس عدالتی انقلاب کے آگے بھلا کون پر مار سکتا ہے۔ آئین کی تشریح کی مجاز اتھارٹی بھی سپریم کورٹ ہی ہے۔ ہم ایسوں ویسوں کو اسکی تشریح سے اختلاف یا انکار کی مجال کہاں۔ ہماری اس ’’مجال‘‘ کی سٹی تو جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں انکی اور وکلاء تنظیموں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی دائر کردہ درخواستوں پر عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بنچ کے متفقہ فیصلہ اور اسی بنچ کے سات فاضل ارکان کے اکثریت رائے والے فیصلہ کے مبہم ہونے کا سوال اٹھاتے ہوئے ہی گم ہو جاتی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ اور انکے اہل خانہ کو عدالت عظمیٰ کے اس متفقہ اور اکثریت رائے والے فیصلہ کی بنیاد پر سودوزیاں کے کن مراحل سے گزرنا پڑیگا‘ یہ فاضل عدلیہ کا اپنا گھر کا معاملہ ہے۔ ہم اس میں دخل درمعقولات یا نامعقولات کرنیوالے بھلا کون ہوتے ہیں۔ بس اپنی ناقص رائے کا اتنا سا اظہار ضرور کروں گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگر اپنے خلاف ریفرنس کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ہی دفاع کرتے تو انکے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔ شاید وہ آج مکمل سرخرو ہو کر اپنے لئے 2023ء کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا منصب محفوظ بھی کر چکے ہوتے۔ اب تو انہیں پنجابی زبان کے اس محاورے کے مثل حالات کا سامنا اور مقابلہ کرنا پڑیگا کہ:


’’بھجدیاں نُوں ہلوان اِکّو جیہا‘‘

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com