ان کے غلام ِمحمد عربی ﷺ اور خدا کی برگزیدہ ہستی ہونے کی اس سے بڑی گواہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں اپنی فانی زندگی کے ختم ہونے کے معینہ وقت تک کا علم تھا اس لئے انہوں نے اپنے آسودہ خاک ہونے کی تیاری بھی پہلے سے کررکھی تھی۔ ایک سال پہلے انہوں نے خیابان چورہ شریف ہنجروال میں اپنے گھر سے ملحقہ مسجد اور مدرسے کے صحن میں اپنی قبر بھی کھدوا دی۔ اس قبر کا کتبہ بھی خود ہی تیار کرایا اور اپنے جسد خاکی کے لحد میں اتارے جانے کے انتظامات بھی اپنی زندگی میںکردیئے۔ ان کی زندگی کی جو بھی مصروفیات ہوتیں اور انہیں جہاں بھی جانا ہوتا ، ہمہ وقت ورد الٰہی میں مصروف رہنا انہوں نے معمولات زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ ان کے حلقۂ ارادت منداں میں بھی ذکر الٰہی اور وردِ درود شریف معمولات زندگی کا حصہ بنا ہوا تھا۔ باریش نورانی چہرے، کشادہ پیشانی اورروشن آنکھوں والے پیر طریقت سید کبیر علی شاہ آف چورہ شریف اپنے قدوقامت کے حساب سے بھی مسحورکن شخصیت تھے اور جب وہ مسند پر بیٹھے خطاب کررہے ہوتے تو الفاظ تعظیماً ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے۔ اتنی شستگی ، روانی اور ترتیب و سلیقے سے بولتے کہ غالب کے اس شعر کی تصویر بن جاتے؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
جمعرات 11 جون کی رات تک وہ بشاش بشاش تھے۔ اپنے گھر اہل خانہ کے ساتھ بیٹھے ذکر الٰہی میں مصروف تھے اور درود شریف کا ورد جاری رکھے ہوئے تھے کہ اچانک ساڑھے گیارہ بجے کے قریب انہوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹوں سے استفسار کیا کہ بارہ بجنے میں کتنا وقت باقی ہے۔ پھر وہ خود ہی مخاطب ہوئے کہ خداوند کریم نے انہیں زندگی کی جتنی مہلت دی تھی وہ اب پوری ہورہی ہے اس لئے میں آپ کو سپرد خدا کررہا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے درود شریف کا ورد بھی جاری رکھا، ان کے چہرے پر کسی تکلیف، نقاہت، خوف یا رنج و الم کے کوئی آثار نہیں تھے۔ جب جمعرات کی گھڑی مکمل ہوئی اور رات بارہ بجے جمعۃ المبارک کا آغاز ہوا تو انہوں نے درود شریف کے ساتھ ساتھ بلند آواز میں کلمہ طیبہ کا ورد بھی شروع کردیا اور اسی دوران ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور وہ اطمینان کے ساتھ ابدی نیند سو گئے۔ ایسی ہشاش بشاش آسودہ زندگی اور اتنی آسان موت ان کے خدا کی عزیز ہستی ہونے کی ہی علامت ہے۔ ان کی رحلت کی خبر صرف سوشل میڈیا پر موجود تھی، ان کے صاحبزادگان پیر سبطین گیلانی اور مصطفین مجددی نے ان کی نمازجنازہ کیلئے صبح گیارہ بجے کا وقت متعین کردیا تھا، ان کے بڑے صاحبزادے سید ثقلین حیدر چوراہی امریکہ میں مقیم ہیں جہاں سے ان کا فوری طور پر ملک واپس آنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنے والد محترم کی نماز جنازہ اور تدفین کے حوالے سے وہیں سے ضروری ہدایات جاری کیں اور ہفت آسمان نے دیکھا کہ کرونا وباء کے خوف کے اس عالم میں بھی پیر سید کبیر شاہ کے مریدین اور عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں نم آنکھوں کے ساتھ درود شریف کا ورد کرتے ہوئے ان کے جنازے میں شریک ہوگئے۔ ان کے ساتھ ایسی ہی عقیدت و محبت کے نظارے اتوار 14 جون کو ان کی رسم قل کے موقع پر نظر آئے۔ آج جبکہ کرونا کے خوف نے کسی کی میت لحد میں اتارنا بھی ان کے عزیزوں، پیاروں تک کیلئے مشکل بنا دیا ہے۔ پیرکبیر علی شاہ کے جنازے ، ان کی تدفین کی رسومات اور پھر رسم قل میں ہزاروں لوگوں کا شریک ہونا ان کے اللہ کے خاص بندے اور حضور پاک ﷺ کے خاص امتی ہونے کی ہی گواہی ہے۔
وہ امام صحافت مجید نظامی کے خصوصی حلقہ احباب میں شامل تھے اور اس ناطے سے میرا بھی ان کے ساتھ تعلق خاطر استوار ہوا تاہم محترم مجید نظامی کے انتقال کے بعد میرے ساتھ ان کی شفقت و محبت دوچند ہوگئی، کبھی بیرون شہر سے واپس لوٹتے تو موٹر وے سے اترتے ہی اپنی گاڑی کا رخ میرے گھر کی جانب کرلیتے۔ کچھ لمحات میرے ساتھ گزارتے، محترم مجید نظامی کی یادیں تازہ کرتے اور پھر اپنے گھر روانہ ہوتے۔ پھر کبھی ملنے کو بے تاب ہوتے تو گاڑی بھجوا کر مجھے اپنے پاس بلوا لیتے۔ میرے پوتے سانول کے ساتھ ان کی خاص رغبت ہوگئی تھی اور میری اہلیہ ثمینہ کو انہوں نے اپنی بہن کا درجہ دے رکھا تھا۔ کبھی ملاقات میں لمبا وقفہ پڑ جاتا تو میری اہلیہ سے شکوے بھرے لہجے میں مخاطب ہوتے ’’بہن انہیں کہیں کہ میل جول رکھا کریں، مجھے ان میں اپنے دوست مجید نظامی کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایک بار ہماری پوری فیملی پیر صاحب کے گھر مدعو تھی، انہوں نے رخصتی کے وقت اپنی اہلیہ کو پیغام بھیجا کہ میری بہن کیلئے وہ شہد بھجوا دو جو میرے مرید خاص رات کشمیر سے میرے لئے لائے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت شہد کی دوبوتلیں آگئیں ۔ میرے چھوٹے بھائی رفیق زیدی کا پاکپتن میں انتقال ہوا تو انہوں نے میری لاہور واپسی پر خیابان چورہ شریف میں ایک خصوصی دعائیہ نشست کا اہتمام کیا اور پھر اس کے چہلم کی تقریب میں لاہور سے اپنے مریدین کے جلو میں پاکپتن تشریف لائے اور راستے بھر مخصوص انداز میں درود شریف کا ورد جاری رکھا۔ ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ خلوص و اپنائیت کا رشتہ محترم مجید نظامی صاحب کے ساتھ تعلق خاطر کی نسبت اوربھی مضبوط ہوگیا تھا۔ ان کے انتقال سے صرف دو روز قبل میرا ان سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور میں نے اتوار کو ان کے پاس حاضری کا وعدہ کیا۔ یہ حاضری ضرور ہوئی مگر حاضری کی یہ سعادت ان کی رسم قل میں شرکت کی تھی، ان کی دینی اور سماجی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کی چار وانگ عالم میں پھیلی چادر اوڑھ تحریک نے باحجاب معاشرے کی بنیاد مستحکم کی۔ ٹائون شپ لاہور میں انہوں نے بے آسرا خواتین کی کفالت کیلئے ایک ادارہ قائم کررکھا تھا جو ان کے خدمت انسانیت کے جذبے کا پر تو تھا۔ خدا اپنے اس خاص بندے اور سچے عاشق رسولؐ کی لحد کو اپنے نور سے منور رکھے اور ان کی بیوہ اور بیٹوں کو دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے جاری ان کے نیک مشن کو انہی کے جذبے کے ساتھ برقرار رکھنے کی ہمت و توفیق دے؎
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
آج میرے عزیز دوست رحمت علی رازی کو بھی اس جہان فانی سے گزرے ایک سال بیت گیا اور جیسے مجھے ان کی موت کا آج تک یقین نہیں آیا ویسے ہی مجھے آج یہ یقین بھی نہیں آرہا کہ ہمارے اس پیارے دوست کو ہم سے ازلی بچھڑے آج پورا ایک سال بیت گیا ہے۔ ویسے تو موت اٹل ہے ، اس کا ذائقہ ہر ذی روح نے چکھنا ہے اور آج کرونا وائرس کے عہد میں تو زندگی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا اور میرے اس شعر والی کیفیت بنی ہوئی ہے کہ؎
کل نوں خورے کیہہ ہووے گا، ڈر دا رہناں
پل نوں خورے کہہ ہووے گا، ڈردا رہناں
پھر بھی بعض ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کا کردار و عمل زندگی کو معتبر بنا دیتا ہے۔ ہمارے بھائی، دوست اور سجن رحمت علی رازی بھی ایسی ہی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے زندگی کو باوقار بنایا اور نفسانفسی کے دور میں باوقار زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ۔ میری اور رحمت علی رازی کی رفاقت تقریباً 45 سال پر محیط ہے۔ اس دوران ہم نے پیشہ، صحافت میں اکٹھے کئی معرکے مارے اور سو دوزیاں کے کئی مراحل طے کئے۔ وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ایسی ہشاش بشاش مجلسی شخصیت پلک جھپکتے میں ہم سے جدا ہوجائے گی۔ وہ آج بھی میرے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں تو مجھے آن بان اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ اپنے آفس میں بیٹھے اور میرے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے ہی نظر آتے ہیں مگر جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے تو ان کی یاد کچوکے لگاتی بے ثبات زندگی کا انمٹ اور گہرا احساس دلا جاتی ہے۔ خدا اس جنت مکانی کو ابدی آسودگی کے خاص مقام پر سرفراز فرمائے اور حیات بعد از ممات میں بھی ہم ایک دوسرے کے سنگ سنگ ہی رہیں؎
لے او یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے
اوہ دن عید مبارک ہوسی، جس دن فیر ملاں گے
٭…٭…٭