بات یہ نہیں کہ کسی مہلک بیماری سے بچائو کی سرے سے کوئی تدبیر ہی نہ کی جائے‘ انسان کے بس میں جو ہوتا ہے وہ کسی جان لیوا وائرس سے خود بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جو ایسے کسی وائرس میں مبتلا ہو‘ اسکی کوشش ہوتی ہے کہ یہ وائرس اسکے ذریعے کسی اور کو منتقل نہ ہو۔ اس کیلئے جو بھی مروجہ احتیاطی تدابیر ہیں وہ بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی انسان اتنا لاپروا نہیں ہوتا کہ اسے کسی وائرس کے جان لیوا ہونے کا ادراک ہو اور وہ اس سے بچنے کی کوئی تدبیر اختیار نہ کرے مگر اب کی بار تو…؎
ہوا ہی ایسی چلی ہے کہ جی بحال نہیں
وگرنہ ہم تو بہت کم اداس رہتے ہیں
کرونا وائرس کی ہولناکی کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس سے بچنے کے ایسے ایسے احتیاطی اقدامات تجویزکئے اور جبری مسلط کئے گئے کہ ساری انسانی قدریں اور انسانی رشتے ہی ملیامیٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس وائرس کی زد میں آنیوالا انسان گویا انسان ہی نہیں رہتا‘ نفرت و حقارت کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اسے چھونا تو کجا‘ اس سے تین میٹر کے فاصلے پر پھٹکنا بھی شجر ممنوعہ بنا کر اسے قہر مزلت کی جانب دھکیلتے ہوئے اس اشرف المخلوقات کو کسی پرلے درجے کی حقارت آمیز مخلوق بنا دیا جاتا ہے۔ اس کیلئے ’’ہٹوبچو‘‘ کی آوازیں اسکے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی ہی نگاہوں میں گر کر اپنے انسان ہونے پر شرمندگی و تاسف کا اظہار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہ ایک ایسا خوف ہے جس نے اچھے بھلے صحت مند انسان کو بھی ذہنی مریض بنا دیا ہے اور بالخصوص ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں اور مشتبہ مریضوں کے ساتھ ’’حسن سلوک‘‘ کی جو خبریں پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلی ہیں اسکے باعث معمولی یا تیز بخار اور کھانسی نزلہ کا شکار ہونیوالا کوئی بھی شخص حتی الوسع کوشش کرتا ہے کہ اسے ہسپتال نہ جانا پڑے کیونکہ وہاں جاتے ہی وہ کرونا کا مریض ڈکلیئر ہو جائیگا‘ چاہے وہ اس مرض میں مبتلا ہو یا نہ ہو‘ اور پھر دوسرے انسانوں بشمول مسیحائوں کی جانب سے نفرت و حقارت اس کیلئے کلنک کا ٹیکہ بن جائیگی جو زندہ رہے گا تو بھی اسکے پیاروں عزیزوں سمیت ہر شخص اس سے دور بھاگتا نظر آئیگا اور اسی ذہنی اذیت میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو اسے غسل دینے‘ کفنانے‘ نماز جنازہ پڑھنے اور دفنانے کیلئے بھی کسی کو آگے بڑھنے کی توفیق نہیں ہوگی۔ ایسی انسانی بے قدری پہلے نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ موت برحق ہے‘ اس سے کوئی مبرا ہے نہ کوئی اپنی موت کا متعین وقت ایک پل اور ایک لمحے کیلئے بھی ٹال سکتا ہے۔ اگر کسی کا موت کا بہانہ کرونا وائرس بن رہا ہے تو یہ بھی برحق اور اٹل موت ہے مگر اس موت کا خوف ایسا لاحق ہوگیا ہے کہ موت کا وقت متعین ہونے کا یقین ہونے کے باوجود دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ خدا کرونا والی موت سے محفوظ ہی رکھے۔
پچھلے دنوں پاکستان ریلوے کی ڈائریکٹر جنرل قرۃ العین حیدر موسمی بخار کی زد میں آئیں تو وہ ہسپتال جا کر چیک اپ کرانے کے معاملہ میں محض اس لئے شش و پنج کا شکار رہیں کہ کہیں اسکے مرض کی تشخیص کرونا والی نہ ہو جائے اور اس ناطے سے اسے انسانی نفرت و حقارت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کچھ ایسی ہی دلی کیفیت کا اظہار گزشتہ روز ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے جن کا ایک بھائی کرونا ٹیسٹ پازیٹو آنے پر ہسپتال میں داخل ہے اور بھتیجا گھر کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں خود کو مقید کئے بیٹھا ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے اپنی بھابی کے دکھ کا جس پیرائے میں اظہار کیا وہ انسانی بے بسی اور کسمپرسی کی کربناک منظرکشی تھی کہ ماں اپنے بیٹے میں زندگی کی رمق محسوس کرنے کیلئے اسکے کمرے کے باہر دروازے پر گھنٹوں کھڑی رہتی ہے کہ اسکے بیٹے کی حرکت کرنے کی آواز کسی طریقے سے اسکے کانوں تک پہنچ جائے۔ جس بیٹے کا ماتھا چومنے کو بے تاب ماں کو اسے کھانا دینے کیلئے اسکے کمرے کے اندر جانے کی بھی اجازت نہ ہو۔ اسکے کرب کا اندازہ اسکے سوا بھلا اور کون لگا سکتا ہے۔ اور یہ انسانی کرب آج تقریباً ہر گھر میں موجود ہے جس نے انسانی قدر و قیمت کا شائبہ تک نہیں رہنے دیا۔
یہ سب کچھ اس خوف کا کیا دھرا ہے جو کرونا کے مرض سے کسی انسان کے اچھوت ہونے کا تاثر اجاگر کرکے ہر انسان کے ذہن میں بٹھا دیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی صحت کے جس ادارے نے کرونا وائرس کے پھیلائو کا خوفناک حد تک پراپیگنڈا کرکے اس سے بچائو کے انسانی حقارت کی بنیاد بننے والے احتیاطی اقدامات (ایس او پیز) وضع کرکے پوری دنیا میں پھیلائے‘ اب اسی عالمی ادارے کی جانب سے مستند ڈاکٹروں کی رپورٹ کی بنیاد پر اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ کرونا وائرس سے مرنے والے کسی مریض کی نعش کرونا کے پھیلائو کا ہرگز باعث نہیں بنتی کیونکہ اسکی سانس بند ہوتے ہی اسکے جسم میں موجود کرونا بھی جسم کے اندر ہی ختم ہو جاتا ہے جس کے جسم سے باہر نکلنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ پھر بھی خوف اتنا مؤثر ہو چکا ہے کہ لوگ کرونا کے مریض کی میت کو غسل‘ کفن اور کندھا دینے سے بھی بدستور گریز کر رہے ہیں اور اسے دفنانے کیلئے قبر کے اندر منتقل کرنے کی بھی ابھی تک اسکے عزیز رشتہ دار تک ہمت نہیں کر پاتے۔
اب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے عہدیداروں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کرکے کہ اس وقت صرف لاہور میں کرونا متاثرہ افراد کی تعداد 35 لاکھ اور پنجاب میں دو کروڑ ہے‘ خوف کا ایک نیا جھکڑ چلا دیا ہے۔ وہ مکمل لاک ڈائون ہی کرونا کے پھیلائو کا واحد حل گردانتے ہیں جبکہ مکمل لاک ڈائون سے جس طرح ملک میں بھوک‘ فاقہ کشی‘ غربت اور بے روزگاری ناچتی نظر آئیگی‘ وزیراعظم عمران خان اس کو محسوس کرکے ملک کو مکمل لاک ڈائون کی طرف لے جانے پر سرے سے آمادہ ہی نہیں۔ انکے فلسفے سے بے شک ڈاکٹروں اور باوسیلہ طبقات کو اختلاف ہو مگر مکمل لاک ڈائون سے مراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی ملک کی اکثریتی آبادی کو فاقہ کشی کے عفریت کے حوالے کرکے قبرستان میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ عجیب غیریقینی کی کیفیت ہے کہ کرونا سے بچائو کے تجویز کردہ احتیاطی اقدامات پر عوام شش و پنج میں ہیں اور مکمل لاک ڈائون کرنے کے معاملہ میں حکومت شش و پنج میں مبتلا ہے۔ اگر اس شش و پنج اور خوف میں بے وقعت ہو رہی ہے تو وہ ہے اشرف المخلوقات کی تکریم انسانیت …ع
یہ عجب مزاج کا شہر ہے‘ ذرا فاصلے سے ملا کرو
اگر کسی معاشرے میں انسانیت ہی دم توڑ جائے اور صلہ رحمی والے انسانی جذبے ہی عنقا ہو جائیں تو حضور! اسے زندہ انسانی معاشرے کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے جناب کہ ہم نے کرونا کے پیدا کردہ خوف اور اسکے باعث شعار کئے گئے انسانی رویوں سے زندہ معاشرے کو کہیں قبرستان میں تو تبدیل نہیں کر دیا۔ پھر اس قبرستان کا مجاور کون ٹھہرے گا اور ’’شہر خموشاں‘‘ میں بھلا طوطی کی آواز کون سنے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔