اگر تحریک انصاف کے دو سال قبل کے اپوزیشن والے دورمیں اسد عمر صاحب کے پیش کردہ اعدادوشمار کی بنیادپرپاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے آج کے نرخوں کا تعین کیا جائے تو وہ فی لٹر 20، 25روپے ہی بنیں گے۔ دو سال قبل تک عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 60ڈالر فی بیرل تک تھے اور اسد عمر صاحب نے پٹرولیم پر عائد ٹیکسوں سمیت سارے اعدادوشمار اکٹھے کرکے دعویٰ کیا تھا کہ عالمی مارکیٹ کے نرخوں کی بنیاد پر پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ زیادہ سے زیادہ 40روپے فی لٹر تک ہونے چاہئیں۔ باقی حکومت سارا منافع کما رہی ہے۔ اس وقت پٹرولیم نرخ 80روپے فی لٹر سے زیادہ نہیں تھے، آج عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 36.48ڈالر فی بیرل ہیں جو دو روز قبل 28ڈالر فی بیرل تھے تو اسد عمر صاحب والا دو سال قبل کا حساب کتاب لگا کر ہمیں پٹرول 20روپے فی لٹر ہی دستیاب ہو نا چاہئے۔
اگر ہم اس موازنے میں نہ بھی پڑیں تو پھر بھی غنیمت ہے کہ آج ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوتے ہوتے 75روپے فی لٹر تک آگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول اس خطے میں پٹرولیم مصنوعات کے سب سے کم نرخ اس وقت پاکستان میں ہیں۔ ویسے تو ان کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں۔ اگر کسی کو تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ گوگل پر سرچ کرکے خطے کے دوسرے ممالک کے آج کے نرخ معلوم کرسکتا ہے۔ میںنے بھی عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے آج کے نرخ گوگل پر سرچ کرکے ہی حاصل کئے ہیں۔اب تو سب کچھ ایک ’’کلک‘‘ پر دستیاب ہے، اس لئے کسی کے کسی بھی دعوے کی حقیقت جاننی ہو تو یہ چنداں مشکل نہیں۔ مجھے گوگل سرچ سے ہی معلوم ہوا کہ اوپیک باسکٹ میں کروڈ آئل (خام تیل) کے آج کے نرخ 34.95ڈالر فی بیرل تھے جبکہ عالمی مارکیٹ میں یہ نرخ 36.48ڈالر فی بیرل پائے گئے اور پٹرولیم مصنوعات کے ’’ٹکے ٹوکری‘‘ سے بھی کم نرخ ہونا ابھی کوئی زیادہ دور کی بات نہیں۔ تین چار ماہ قبل ہی کی بات ہے کہ یہ نرخ کم ہوتے ہوئے منفی ایک سے بھی نیچے چلے گئے اور دلچسپ صورتحال یہ بنی کہ عالمی منڈی میں مفت تیل لینے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں تھا۔ اب یہ نرخ 36ڈالر فی بیرل تک پہنچے ہیں جبکہ اس سال پٹرولیم نرخوںمیں دلچسپ اتار چڑھائو جاری رہے گا چنانچہ یہ نرخ پھر سے گر کر دس ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ وضاحت کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ایک دم انحطاط پذیر کیوں ہوئے ہیں کیونکہ عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ کرونا وائرس نے متاثرہ ممالک کی معیشتوں کابھٹہ بٹھایا ہے اور صنعت و کاروبار کا پہیہ جام کیا ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی مانگ بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی چنانچہ اس کے نرخوںکا غوطے لگا کر نیچے جانا فطری امر تھا۔
میری اور آپ کی دلچسپی آج اس امر میں زیادہ ہے کہ پٹرولیم منصوعات کے نرخوںمیں کمی کا عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچا اور اس کے قومی معیشت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگر عام آدمی اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ غربت و افلاس اور بیروزگاری کے عفریت اسی طرح عام آدمی سے زندہ رہنے کی رمق تک نکال رہے ہیں۔ اور تو اور۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں انتہائی درجہ کی کمی کا براہ راست فائدہ سمیٹنے والے ٹرانسپورٹر حضرات اور محکمہ ریلوے تک نے ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرائے کم کرنے کیلئے کسی حکومتی حکمنامہ کو درخور اعتناء نہیں سمجھا اور عام مارکیٹوںمیں اسی طرح اشیائے خوردونوش کے نرخ آسمان تک پہنچا کر عوام کو عملاً دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات کے نرخ بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکے ہیں تو حضور والا! پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لینا چہ معنی دارد ؟ بھلے یہ نرخ عالمی مارکیٹ کے نرخوں کی بنیاد پر ہی کم ہوئے ہیں۔ آپ اس کا کریڈٹ لے رہے ہیںتو جناب اس کریڈٹ میں عوام کو حصہ دار بنا کر انہیں بھی تو سکھ کاسانس لینے دیں۔ وہ توآج بھی حبیب جالب والا یہی رونا رو رہے ہیں کہ …؎
کہاں بدلے میں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اگرآج فی الواقع مہنگائی کا طوفان بدتمیزی اٹھ رہاہے اور کسی احتساب، قانون کے کسی شکنجے اورحکومت کی کسی اتھارٹی سے بے خوف ہوکر ناجائز منافع خور طبقات نے اپنی مصنوعات کے نرخ شتر بے مہار بڑھانے کی دیدہ دلیری برقرار رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں سبزیوں، دالوں، چکن، گوشت، گھی، چینی، چاول، گندم، آٹا اور مصالحہ جات کی مہنگائی کنٹرول سے باہر ہوئی نظر آتی ہے اور فاقہ کشی بے بس و مجبور عوام کے مقدر میںلکھی جاچکی ہے تو وہ ریاست مدینہ والے جدید اسلامی فلاحی مملکت کے تصور کو اپنی ممکنہ آسودہ زندگی کی خاطر کہاں پر اور کہاں تک ڈھونڈتے پھریں گے۔ کیا وہ وزیراعظم کی جانب سے مہنگائی بڑھنے کا نوٹس لینے اور پٹرولیم نرخوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ پانے پر کابینہ کے اجلاس میں انکے ناراضی کا اظہار کرنے کی بنیاد پر ہی شکم سیر ہونے کا تصور باندھ کر خوش اور مطمئن ہو جائیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی اس وارننگ کو ہی اپنی خوشحالی کی بنیاد تصور کرلیں کہ کسی کو آٹا، چینی، گھی اور پولٹری سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں بڑھانے دینگے۔ اگر اس وارننگ کی موجودگی میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے تو حضور والا! مجبور و غریب عوام کو ذرا بتا دیجئے کہ حکومتی گورننس کہاں پر اور کس بھائو دستیاب ہے۔ محض باتوں، دعوئوں‘ وعدوں سے راندۂ درگاہ عوام کو بھلا کیا سروکار ہوسکتا ہے جبکہ ان کیلئے ظلمت شب طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئے‘‘ والے ماحول کو بھانپ کر ان کے دل مایوسیوں کے دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ حضور! افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر۔ عوام میں مایوسیاں اتنی نہ بڑھائیں کہ وہ زہر کو ہی تریاق سمجھ کر پیناشروع کر دیں۔ سرکشوں اور اتھرے طبقات سے حکومتی رٹ تسلیم کرائیے اور عملیت پسندی کے ساتھ فلاحی ریاست کے خدوخال نمایاں کیجئے ورنہ دعوئوں اور وعدوںکی بیساکھیاں زیادہ دیر تک سہارا نہیں دے پائیں گی کیونکہ…؎
بُھکھے کولوں بُر کی کھوہ کے کہندے او کہ بولے نہ
جس دا جھُگا بھجّے آخر اوہ تے رولا پاوے گا