ہم آج یقینا ایک نئی اور کڑی آزمائش کے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں ۔ چین نے لداخ میں بھارتی فوجوں کی ٹھکائی کر کے انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے اور بھارتی میڈیا کی اپنی رپورٹس کے مطابق اس وقت لداخ پر چین کا قبضہ ہو چکا ہے تو ہمیں چین کے ہاتھوں کم از کم بھارتی ٹھکائی پر تو ضرور خوش اور مطمئن ہونا چاہئے۔ مگر لداخ کشمیر کا حصہ ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں نے رائے شماری کے ذریعے کرنا ہے۔ یہی ہمارا بھی دیرینہ اور اصولی موقف ہے کہ کشمیر کا مستقبل کشمیریوں کے استصواب کے حق کے ساتھ منسلک ہے چنانچہ اس اصولی موقف کی پاسداری کرتے ہوئے ہم نے آزاد کشمیر کو کبھی پاکستان کی ریاست کا درجہ نہیں دیا۔ بے شک کشمیری عوام نے قیام پاکستان سے بھی پہلے اپنے لیڈر چودھری غلام عباس کی زیر قیادت کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا اور کشمیریوں کو رائے دہی کا حق ملتا ہے تو وہ ہمارے یقین کے مطابق رائے شماری میں بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ہی ووٹ دیں گے چنانچہ انہیں رائے شماری کا حق دئیے بغیر کسی کو ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ 72 سال سے بھارت کے ساتھ ہمارا یہی تنازعہ ہے کہ اس نے تقسیم ہند کے فارمولہ کی نفی کرتے ہوئے خودمختار ریاست کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور پھر اس میں اپنی افواج داخل کر کے اس کے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا جو جموں ، سری نگر اور لداخ پر مشتمل ہے۔
یہ تسلط جمانے کی بھارتی نیت دو طرفہ تھی ، ایک تو وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا اپنا شروع دن کا منصوبہ کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روک کر پایۂ تکمیل کو پہنچانا چاہتا تھا جس پر وہ آج کے دن تک کاربند ہے اور پاکستان پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ دوسری بدنیتی اس کی چین کے خلاف جارحیت کا راستہ نکالنے کی تھی کیونکہ چین کے ساتھ اس کا اروناچل پردیش پر تنازعہ چل رہا تھا جو چین کا مقبوضہ علاقہ ہے اور بھارت کی بدنیتی اسی طرح اروناچل پردیش پر بزور اپنا تسلط جمانے کی تھی جیسے اس نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے اس پر اپنا تسلط جمایا۔ اس کے لئے اسے اروناچل پردیش سے منسلک کشمیر کے علاقے لداخ کی ضرورت تھی تاکہ وہاں سے اسے چین میں مداخلت کی آسانی ہو سکے۔ کشمیر پر تسلط جمانے کے بعد بھارت نے اسی بدنیتی کے تحت 1962ء میں لداخ کے راستے سے اروناچل پردیش میں اپنی افواج داخل کیں مگر وہاں انہیں چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے نبردآزما ہونا پڑا جس نے بھارتی فوجوں کی اتنی ٹھکائی کی کہ انہیں دم دبا کر وہاں سے الٹے پائوں واپس بھاگنا پڑا۔ اسکے بعد بھارت کو دوبارہ چین کے ساتھ سرحدی چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہیں ہوئی ، بے شک بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ جو بعدازاں بھارتی کابینہ کا بھی حصہ بنے۔ پاکستان کے ساتھ چین کو بھی چیلنج کرتے رہے کہ بھارتی فوج بیک وقت اسلام آباد اور بیجنگ کو 80 ، 90 گھنٹے میں ٹوپل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر عملاً بھارتی فوج کو نہ پاکستان اور نہ ہی چین میںبراہ راست مداخلت کی جرأت ہوئی۔
مودی سرکار نے گزشتہ سال -5 اگست کو برتری کے زعم والے اپنے ذہنی خلجان کے باعث ہی بھارتی پارلیمنٹ سے آئین کی دفعات 370 اور -35 اے حذف کرائیں جن میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تسلیم شدہ تھی جبکہ اس عمل میں بھی بیک وقت چین اور پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بدنیتی کار فرما تھی۔ اس بدنیتی کے تحت مودی سرکار نے لداخ کو ریاست کشمیر سے الگ کر کے بھارتی سٹیٹ آف یونین کا حصہ بنا دیا جس کا بنیادی مقصد چین میں مداخلت کا آسان راستہ نکالنا ہی تھا ، چنانچہ اس بھارتی بدنیتی کو بھانپ کراس کے -5 اگست 2019ء کے ٹوکہ اقدام کے خلاف عالمی سطح پر سب سے زیادہ زور دار اور موثر احتجاج چین نے ہی کیا اور اسی کی ریکوزیشن پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ پاکستان کے ساتھ چین کی ہم آہنگی بھی اسی تناظر میں پیدا ہوئی کہ کشمیر پر بھارتی تسلط پاکستان اور چین دونوں کو قبول نہیں چنانچہ پاکستان کی طرح چین نے بھی ہمیشہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ ہی قرار دیا اور کشمیریوں کو چینی ویزے کے بندھن کے ساتھ کبھی نہیں باندھا۔ وہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر بھی تنازعۂ کشمیر کے یو این قراردادوں کے مطابق حل کیلئے پاکستان اور کشمیری عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستان اور چین نے بھارتی بدنیتی اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے توڑ کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی حصار مضبوط بنایا ہے۔ چنانچہ بھارت اپنی بدنیتی کے تحت چین یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی کسی قسم کی براہ راست جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو چین اور پاکستان دونوں مل کر مشترکہ طور پر اس کی ٹھکائی کریں گے۔ مودی سرکار شاید اپنی جنونیت میں یہ نوبت لانے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ اس طرح اس کے ہاتھوں تیسری عالمی جنگ کا اہتمام ہو جائے گا جس کے اب آثار بہت نمایاں ہونے لگے ہیں کیونکہ مودی سرکار نے لداخ کو بھارتی سٹیٹ آف یونین کا حصہ بنانے کے بعد چین کے خلاف اپنی شرارتی سوچ کو پروان چڑھانا شروع کر دیا تھا اورلداخ میں چین کی سرحد کے پاس بھارتی فوج کی نقل و حمل تیز کردی تھی۔ چین نے اس بھارتی بدنیتی کو بھانپ کر ہی اس کا ’’مکوٹھپنے‘‘ کیلئے لداخ میں اپنی افواج داخل کرکے بھارتی سورمائوں کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا ہے جبکہ بھارت چین سے ہونے والی اپنی اس ٹھکائی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ اس کشیدگی کا بھیانک انجام تیسری عالمی جنگ کی صورت میں پوری دنیا کی تباہی کی نوبت لائے گا کیونکہ یہ جنگ بہرصورت ایٹمی جنگ ہوگی، جس سے اس کرۂ ارض پر کسی کا کچھ نہیں بچے گا۔
میں نے ان سطور کے آغاز میں پاکستان کیلئے جس نازک صورتحال کا حوالہ دیا تھا، وہ لداخ پر چین کے قبضہ کے حوالے سے ہے کیونکہ لداخ بہرصورت کشمیر کا حصہ ہونے کے ناطے ایک مسلمہ متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں نے خود کرنا ہے۔ اگر یہ علاقہ اب بزور چین کا حصہ بن جاتا ہے تو خدا نہ کرے اس کی بنیاد پر کہیں پاکستان اور چین میں اختلافات کا راستہ نہ نکل آئے۔ صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے تو اپنے طور پر چین کی جانب سے یہ صفائی پیش کر دی ہے کہ اس نے بھارتی عزائم دیکھ کر صف بندی کی ہے تاہم مقبوضہ کشمیر کے عوام جو پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا میں بھارتی فوجوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے اب تک اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں،اب خود کو چین کا حصہ بنانے پر آمادہ ہوں گے؟ یہ یقینا ہمارے لئے بہت نازک اور کٹھن مرحلہ ہے۔ چین اگر اپنے مؤقف کے مطابق کشمیری علاقہ ہونے کے ناطے لداخ کی بھی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرکے اس تنازعہ کا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق خود حل نکال لیتا ہے جو اب اس کے اختیار میںبھی ہے تو اس سے بلاشبہ خطے میں مثالی امن و آشتی کی فضا ہموار ہو جائے گی اور چین کا دنیا کی سپرپاور ہونے کا امکان بھی روشن ہو جائے گا۔ مگر لداخ کیلئے صورتحال ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ والی بن گئی تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے اور ہمارے اصولی مؤقف کاکیا بنے گا۔ اس معمے کے ’’سمجھنے کے نہ سمجھانے کے‘‘ والی نوبت بہرصورت نہیں آنی چاہئے کیونکہ چین ہمارا یار ہی نہیں‘ یارِغار بھی ہے۔