اسی دوران 1987ء میں برنا گروپ اور رشید صدیقی گروپ کے باہمی اختلافات سے عاجز آئے ارکان نے پروفیشنل ٹریڈ یونین کوسرگرم کرنے کیلئے پی ایف یو جے (دستور گروپ) تشکیل دے دیا ، جس میں میں بھی شامل ہو گیا۔ رئوف طاہر اور طارق اسماعیل بھی اسی گروپ کا حصہ بن گئے، چنانچہ رشید صدیقی گروپ عملاً منظر سے غائب ہو گیا جو پہلے ہی اس کے لئے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ 1989ء میں سول کورٹ سے حکم امتناعی خارج ہوا تو ہم نے اسی مشترکہ ووٹرز لسٹ پر دوبارہ انتخابی شیڈول جاری کر دیا۔ اس وقت دستور گروپ تشکیل پانے کے باعث پریس کلب کے انتخابات کی فضا کچھ اور ہی رنگ اختیار کر چکی تھی اور دونوں گروپوں میں محاذ آرائی عروج پر تھی۔ ہم نے دستور گروپ کے پلیٹ فارم سے ہی پریس کلب کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور پروفیشنل گروپ تشکیل دے کر اپنے پینل کا اعلان کر دیا جس میں رئوف طاہر صدر اور میں سیکرٹری کا امیدوار تھا جبکہ جلیل الرحمان ، حامد ریاض ڈوگر اور رائے حسنین طاہر گورننگ باڈی کیلئے ہمارے پینل کا حصہ بنے اور انتخابی مہم میں جان ڈال دی۔ کلب کی سیاست میں میری سابقہ کامیابیوںکے باعث برنا گروپ کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں دستور گروپ کے ہاتھوں ناکامی اس کے کھاتے میں نہ آ جائے، چنانچہ اس میں شامل میرے دوستوں نے میرے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب ، الطاف ملک اور بعض دوسرے دوست میرے پاس یہ پیشکش لے کر آئے کہ ہم پہلی مشترکہ باڈی کیلئے عہدیدار بلامقابلہ منتخب کر لیتے ہیں، اس کیلئے انہوں نے چودھری خادم حسین کو صدر اور مجھے بلامقابلہ سیکرٹری منتخب کرانے کی تجویز پیش کی، جس پر میں نے اس لئے معذرت کر لی کہ اول تو میں بلامقابلہ انتخابات کے حق میںہی نہیں تھا اور دوسرا دستور گروپ کیلئے بھی انتخابی میدان میںیہ پہلا چیلنج تھا۔ چنانچہ میں دستور گروپ کے پینل کے ساتھ ہی انتخابی میدان میںاترا، جس کے بعد برنا گروپ نے اپنا پینل تشکیل دیا اور ناصر نقوی کو صدر اور فیاض چودھری کو سیکرٹری کا امیدوار بنایا۔ کلب کی سیاست میں یہ پہلا موقع تھا کہ دوطرفہ انتخابی مہم پورے زوروشور سے چلی اور صحافیوں کے تقریباً تمام گروپ اَنا کا مسئلہ بنا کر دستور گروپ کو مات دینے کیلئے میدان میں آگئے۔ چنانچہ اس انتخاب میں غیریقینی طورپر ہمارے پورے پینل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ رائے حسنین طاہر کے تجزیے کے مطابق اس میں ’’جھرلو‘‘ کا بھی خاصا عمل دخل تھا۔ وہ بعض ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بیلٹ بکس اٹھا لے جانے کا سوچ رہے تھے مگر ہم نے انہیں انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے سے روک دیا۔ اس انتخاب میں ایک اہم واقعہ یہ بھی ہوا کہ سید محمود جعفری نے یقینا رشید صدیقی کی شہ پر عین پولنگ والے دن دیال سنگھ مینشن والے پریس کلب کو تالہ لگا دیا جہاں پولنگ کا انعقاد ہونا تھا۔ اس مشکل صورتحال میں لیبر لیڈر اور صحافی احسان اللہ خان ہمارے کام آئے جن کا دیال سنگھ مینشن ہی میں اپنا فلیٹ تھا۔ چنانچہ الیکشن کمیٹی کو وہاں بٹھا کر پولنگ کو ممکن بنایا گیا۔ اس طرح ہماری مرتب کردہ ووٹرز لسٹ کی بنیاد پر مشترکہ پریس کلب کا پہلا انتخاب ممکن ہو پایا۔ اگرچہ ہمارا پینل اس انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکا مگر اس سے مشترکہ پریس کلب کی بنیاد ضرور پڑ گئی اورپھر دیال سنگھ مینشن والے پریس کلب کے دروازے بھی اس کیلئے کھل گئے۔
1990ء کے انتخاب کے نتیجہ میں غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے جن کے صحافی برادری کے ساتھ اپنائیت والے مراسم تھے، چنانچہ صحافی برادری کی جانب سے ان سے پہلا مطالبہ لاہور پریس کلب کیلئے جگہ کے حصول کا ہی آیا۔ اس حوالے سے میں بطورخاص سید انور قدوائی‘ افتخار (فتنہ) احمد اور لیاقت قریشی مرحوم کا ذکر کروں گا جو غلام حیدر وائیں سے پریس کلب کی جگہ کا وعدہ لئے بغیر ان کی پریس کانفرنس یا پریس ٹاک آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ وائیں مرحوم نے متعلقہ محکموں سے مشاورت کرکے لاہور پریس کلب کیلئے باغ جناح میں موجود لیڈز کلب کا انتخاب کر لیا جو اس وقت عملاً ویران پڑا ہوا تھا، جب ان کی جانب سے اس کا اعلان ہوا اور سروے بھی ہو گیا تو خواتین تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ چنانچہ وائیں مرحوم کو اپنے فیصلہ سے رجوع کرنا پڑا اور پھر ان کی نظر انتخاب شملہ پہاڑی پر موجود واسا کے دفتر پر پڑی۔ یہ جگہ انہوں نے نہ صرف لاہور پریس کلب کیلئے مختص کی بلکہ اس پر کروڑوں روپے کی لاگت سے عمارت بھی تعمیر کرادی۔ ان کے اس فیصلہ پر واسا لیبر یونین نے بھی خاصا احتجاج کیا تھا جس پر پریس کلب کے سامنے پہلے سے موجود واسا کے دفتر کو اس کیلئے ہی مختص رہنے دیا گیا۔ بعدازاں یہ دفتر شملہ پہاڑی پریس کلب کے پچھواڑے منتقل ہوا اور اب پوری شملہ پہاڑی پر پریس کلب ہی کا حصہ بن چکی ہے۔ آ ج جس پریس کلب اور اس کے ماتحت جرنلسٹس ہائوسنگ فائونڈیشن پر بھی کلب کے ہرانتخاب کے موقع پر سیاست کا بازار گرم ہوتا ہے اور کروڑوں روپے کا کھیل کھیلا جاتا ہے، ان دونوں کی بنیادیں رکھنے میں میری کاوشوں کا ہی عمل دخل ہے مگر پریس کلب کے عہدیداروں کی آویزاں تختی پر 1984ء سے 1986ء تک کے پریس کلب کے عہدیداروںکے نام یہ جواز بنا کر نہیں لکھوائے گئے کہ وہ مشترکہ پریس کلب کے زمرے میں نہیں آتے۔ اگر یہ جواز تسلیم کر لیا جائے تو پھر 1990ء والا پریس کلب بھی متفقہ پریس کلب نہیں تھا کیونکہ رشید صدیقی گروپ کا ڈمی پریس کلب اس وقت بھی موجود تھا، اس لئے کلب کے عہدیداروں کی تختی پر ہمارے نام لکھوانا کسی کی محض اَنا کی تسکین ہی ہو سکتا ہے۔ اس اَنا کی تسکین کا ہر اس موقع پر اہتمام کیا جاتا تھا جب پی ایف یو جے (دستور) اپنا پینل بنا کر انتخابی میدان میں اترتی تھی۔ اس ناطے سے کلب کا ایک انتخاب تو دستور گروپ کے ساتھ نفرت کی انتہا تک پہنچا۔ اس انتخاب میں ہمارے پینل سے خالد کاشمیری صدر اور میں سیکرٹری کا امیدوار تھا اور ہماری کامیابی کی فضا اس طرح ہموار ہو چکی تھی کہ کلب کے سالانہ چندے کی مقررہ وقت تک عدم ادائیگی کے باعث روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ انتخابی فہرست سے مکمل آئوٹ ہو گیا تھا۔ 60 کے قریب یہ سارے ووٹ برنا گروپ کے تھے، چنانچہ ایک سازش تیار کی گئی اور پولنگ والے دن کلب کا منیجر سرمد گل ووٹرز لسٹ لیکر غائب ہو گیا۔ چنانچہ یہ افسوسناک واقعہ بھی کلب کی تاریخ کے المناک ابواب میں شامل ہوا کہ پولنگ والے دن کلب کے انتخابات ہی منعقد نہ ہو پائے اور پھر اگلے دن ووٹرز لسٹ میں ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے ارکان کے نام شامل کرکے انتخاب کرایا گیا۔ پھر بھی مجھے صرف 29 ووٹوں سے شکست ہوئی جو عملاً شکست فاتحانہ تھی۔
اب پنجاب جرنلسٹس ہائوسنگ سوسائٹی کے قیام کا ذکر بھی سن لیجئے۔ 2004ء میں میں پی ایف یو جے (دستور) کا صدر تھا۔ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی سے پی ایف یو جے کے وفد اور لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور ملتان پریس کلب کے صدور کی مشترکہ ملاقات کا اہتمام کیا جس کا بنیادی ایجنڈا ہی پنجاب میں جرنلسٹس کالونیوں کی بنیاد رکھوانا تھا۔ راولپنڈی، اسلام آباد پریس کلب کے صدر حاجی نواز رضا اور ملتان پریس کلب کے صدر رائو شمیم اصغر اس اجلاس میں شریک ہو گئے اور لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری بھی اجلاس میں شرکت کیلئے کلب سے روانہ ہو گئے مگر برنا گروپ کا تعصب آڑے آیا اور اس کی قیادت کے ٹیلی فونک دبائو پر وہ راستے سے ہی واپس لوٹ گئے۔اس اجلاس میں ہی وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے پنجاب جرنلسٹس ہائوسنگ فائونڈیشن کا اعلان کیا، جس کی منیجنگ کمیٹی کے بنیادی ارکان میں بطور صدر پی ایف یو جے میرا اور بطور صدر پی یو جے سید انور قدوائی کا نام بھی شامل تھا، اسی طرح برنا گروپ کو بھی منیجنگ کمیٹی میں نمائندگی دی گئی اور اسی بنیاد پر جرنلسٹس ہائوسنگ فائونڈیشن کے ماتحت لاہور‘ اسلام آباد‘ ملتان اور فیصل آباد میں صحافی کالونیوں کی بنیاد رکھی گئی مگر اللہ کی پناہ۔ تعصب ایسا ہے کہ ہمارا کوئی بھی کریڈٹ کسی کھاتے پر چڑھنے ہی نہیں دیا جاتا اور برنا گروپ کے کئی اچھے دوست بھی اس تعصب کے زیراثر آجاتے ہیں۔
واقعات سمیٹتے سمیٹتے بھی کافی پھیل گئے ہیں۔ زندگی نے وفا کی تو اپنی آپ بیتی میں سارے تذکرے کروں گا۔ ہمارے ساتھ روا رکھے جانے والے تعصب کا صرف ایک نمونہ آپ کو دکھانا چاہوں گا جو پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے 1995ء کے انتخاب کا ہے، اس انتخاب میں صدر کیلئے چودھری خادم حسین نے بالاصرار مجھے آمادہ کیا اور جب پولنگ کا دن آیا تو وہ اپنے ہی انتخاب کی پاسداری کئے بغیر صدر کیلئے میرے مدمقابل آ گئے‘ تاہم اللہ کے فضل اور مخلص دوستوں کے بے لوث تعاون سے اس انتخاب میں بھی خاصے مارجن کے ساتھ مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔ چودھری خادم حسین کا میرے مدمقابل آنا بھی ان پر برنا گروپ کی قیادت کے دبائو کا ہی شاخسانہ تھا۔ اگلے سال برنا گروپ کی جانب سے صدر کیلئے ظہیر شہزاد کو میرے مدمقابل لایا گیا اور اللہ نے پھر میری عزت رکھی۔ اس سے اگلے سال رئوف طاہر دستورگروپ کے امیدوار بنے اور کامیاب ہوئے۔ وہ سعودی عرب جا مقیم ہوئے تو پریس گیلری کمیٹی کے 1999ء کے انتخاب میں بھی مجھے میدان میں آنا پڑا۔ نجم ولی خان صدر کیلئے میرے مدمقابل آئے اور یہ مقابلہ میرے لئے بہت ٹف ثابت ہوا کیونکہ نجم ولی خان ہمارے ہی گروپ کا حصہ تھے اور رئوف طاہر کے ساتھ سیکرٹری منتخب ہو چکے تھے۔ مجھے اس انتخاب میں سخت مقابلے کے ساتھ 2ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی مگر معاف کیجئے، محاذآرائی اور تعصبات کی اس سیاست میں ہماری کمیونٹی کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔ ہم نے پی ایف یو جے کو یکجا کرنے کی بھی سرتوڑ کوششیں کیں۔ برنا گروپ کی جانب سے چودھری خادم حسین‘ اورنگزیب اور عطاء المصور بھی پیش پیش رہے اور پھر پی ایف یو جے (برنا) کے صدر آئی ایچ راشد بھی ان کاوشوں میں شریک ہوئے۔ ایک سٹیج پر پی ایف یو جے کے دونوں گروپوں کی مشترکہ ایف ای سی کرانے پر بھی اتفاق ہو گیا مگر عین موقع پر گرہ توڑ دی گئی۔ چودھری خادم حسین کو پی ایف یو جے برنا گروپ کے اس وقت کے صدر آئی ایچ راشد مرحوم کے یہ الفاظ یقینا یاد ہونگے کہ ہمارے ’’مکے‘‘ نے کام خراب کیا ہے۔ ان کا اشارہ یقینا عبدالحمید چھاپڑہ کی جانب تھا۔ اگر اس وقت صحافی برادری پی ایف یو جے کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جاتی تو آج پی ایف یو جے کے 4، 5گروپوں کی دکانداریوں کی نوبت نہ آتی۔ یہ معاملاتِ سود و زیاں ہیں۔ اگر چودھری خادم حسین صاحب مزید گرہ کھولیں گے تو میری کتاب جلد مرتب ہو جائے گی۔(ختم شد)