آج دنیا میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ دس ہزار تک جا پہنچی ہے اور کرونا کے مریض بھی بڑھتے بڑھتے 30 لاکھ سے تجاوزکر چکے ہیں اور ہمارے ملک پاکستان میں بھی کرونا مریضوں اور اس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے تو کرونا وائرس سے بچائو کے احتیاطی اقدامات تو ہمیں بہر صورت مزید سخت کرنا ہوں گے۔ اگر انسانی ، سماجی فاصلے بڑھانا ہی اب تک اس موذی وائرس کا علاج دریافت ہوا ہے تو پورے ملک میں اور ہر شعبۂ زندگی پر اس کا یکساں اطلاق کر کے بھی دیکھ لیا جائے۔ معاملہ صرف اس وقت شکوک کے قالب میں ڈھلتا ہے جب انسانی فاصلے کے حوالے سے ایک دوسرے سے متضاد شعبہ جاتی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور بطور خاص مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانے پر رکھا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ان دنوںاس ’’فلسفے‘‘ کا بہت زیادہ پرچار کیا جا رہا ہے کہ جان بچانا فرض ہے۔ پہلے جان بچائو ، پھر باقی کے معاملات دیکھو۔ یقیناً زندگی اور موت دستِ قدرت میں ہے اور بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے اور فرمان خدا وندی بھی یہی ہے کہ ’’وہی ہے جو مرض بھی دیتا ہے اور شفا بھی‘‘ مگر کرونا وائرس سے مرنے والے کی نعش کی جس طرح بے توقیری ہو رہی ہے اور کرونا کے مریضوں کو جس ذہنی پستی کی انتہاء میں عملاً اچھوت کا درجہ دے دیا گیا ہے اس کے باعث کرونا کی زد میں آنا اور اس جہان فانی سے کوچ کرنا خوف کی علامت بن چکا ہے اس لئے ہمیں ایسے مرض اور اس کے باعث ہونے والی بے بسی کی موت سے خود کو بچانے کا بہرصورت جتن کرنا ہے۔ اس کے لئے آپ مکمل لاک ڈائون کا تجربہ کر کے دیکھ لیں اور اس پر کوئی سیاست نہ کریں۔ لوگ بھوک برداشت کر لیں گے مگر کسی قسم کا امتیازی سلوک بہرصورت برداشت نہیںکریں گے۔ صرف مساجد اور مسلمانوں کی دوسری عبادت گاہوں کو ہدف نہ بنائیں۔ آپ اس کیلئے سعودی حکمرانوں کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہیں تو پھر ان اقدامات کی پیروی کرتے ہوئے کسی بھی فرد کو گھر سے نہ نکلنے دیں اور کسی بھی کاروبار و اجتماع کی اجازت نہ دیں پھر کسی کو ایسے اقدامات پر کوئی اعتراض نہیں رہے گا ورنہ بطور خاص مساجد کو ویران کرنا الحادی قوتوں کی اس مہم کا ہی حصہ سمجھا جائے گا جو انہوں نے کرونا وائرس کی آڑ میںمسلمانوں کی اجتماعی قوت توڑنے اور انہیں انتہائی کمتر درجے کا انسان قرار دلانے کے لئے شروع کر رکھی ہے۔
اس معاملہ میں سب سے زیادہ زور بھارت کی مودی سرکار اور اس کی پروردہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں لگا رہی ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلائو کا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کی گھنائونی بھارتی سازش تو اب پوری دنیا میں بے نقاب ہو چکی ہے۔ پھر بھی مودی سرکار پوری ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور پورے بھارت میں مسلمانوں کا حشر نشر کر رہی ہے اور اب وہاں مساجد میںاذان دینا بھی تعزیری جرم بنا دیا گیا ہے۔
آپ اس سے ہی اندازہ لگا لیںکہ الحادی قوتوں کا اصل ایجنڈہ کیا ہے اور کیا ہمیں کرونا وائرس سے بچائو کے احتیاطی اقدامات کی آڑ میں مسلمانوں پر شب خون مارنے کا ہنود و یہود و نصاریٰ کا باطل ایجنڈہ سر جھکا کر قبول کر لینا چاہئے یا اسے دنیا میں بے نقاب کرنے کے لئے مقدور بھر کردار ادا کرنا چاہئے؟
اس معاملہ میں اسلام اور پاکستان دشمن جنونی مودی سرکار اور اس کے چیلے چانٹے کتنے متحرک ہیں اس کی ایک جھلک میں آپ کو بھارت کے ایک ڈھونگی سوامی وشوا آنند کی مسلم مخالف حرکات کی صورت میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ حضرت خودکو ’’مدر آف دی ورلڈ‘‘ قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کو ورغلانے کے لئے پرچار کر رہے ہیں انسانیت کی بقا کے لئے ان کی 56 سالہ خدمات کے پیش نظر انہیں پیارے اللہ تعالیٰ اور ان کے پیغمبر ’’حجور‘‘ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں مدر آف دی ورلڈ مقرر کیا ہے۔ یہ میں کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہا ، نہ میں نے اپنے طور پر کوئی داستان گھڑی ہے بلکہ اس ڈھونگی سوامی نے ماہ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک روز قبل خود مجھے اپنا وٹس ایپ پیغام بھجوایا جو میرے موبائل فون میں محفوظ ہے۔ یہ ڈھونگی سوامی اتفاق سے میرا فیس بک فرینڈ ہے اور انسانیت کی خدمت کی آڑ میں ہندو کے برتر ہونے کی مجہول ذہنیت چھپا نہیں پاتا۔ میری اس کے ساتھ پہلے بھی اسی تناظر میں ایک دو بار تکرار ہو چکی ہے۔ اب تو اس نے اپنے ڈھونگ کی انتہاء کر دی۔ مجھے بھجوائے گئے اپنے وٹس ایپ پیغام میں دعویٰ کیا کہ ’’اللہ اور حجور دونوں مجھ سے روزانہ علی الصبح چار سے پانچ بجے تک مخاطب ہوتے ہیں اور دنیا پر مرتب ہونے والے کرونا وائرس کے اثرات پر مجھ سے رپورٹ حاصل کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے وہ مجھ سے بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان، سری لنکا، ایران ، عراق اور تمام اٹھاون مسلم ممالک کے حالات کے بارے میں بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ اب ماہ رمضان کا آغاز ہو رہا ہے تو اللہ اور حجور نے پورے پاکستان کو کرونا وائرس سے بچانے کیلئے مجھے سپیشل ڈیوٹیاں تفویض کر دی ہیں۔ ان دونوں کی (نعوذباللہ) اس منصوبہ بندی کے تحت مکہ اور تمام ممالک کی مساجد میںماہ رمضان کے دوران مسلمانوں کو اکٹھے نماز نہیں پڑھنے دی جائے گی۔‘‘ اس کے لئے ڈھونگی سوامی نے مجھ سے یہ مدد طلب کی کہ میں وزیر اعظم پاکستان عمران خاں اور پاکستان کے ملٹری لیڈر باجوہ صاحب (یہ اسی ڈھونگی سوامی کے الفاظ ہیں) کو اس بارے میںقائل کروں کہ وہ کسی بھی شخص کو مساجد میں جانے کی اجازت نہ دیں۔ اس کے بقول اللہ اور حضورؐ کے پلان کے تحت اگر دنیا کے تمام مسلمان کرونا وائرس کے دوران مساجد میں نہیں جائیں گے اور صرف اپنے گھروں میں نمازیں ادا کریں گے تو دونوں (خدا اور حضورؐ) نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ ان کی نمازیں قبول ہوں گی۔ چنانچہ انہوں نے مجھے یہی ڈیوٹیاں تفویض کی ہیں کہ میں پاکستان میں مسلمانوںکو مساجد میں جانے سے روکوں۔ ڈھونگی سوامی کے بقول اگر وزیر اعظم پاکستان اور باجوہ صاحب پاکستان کی مساجد میں لوگوںکے اجتماعات روک دیںگے تو اللہ اور حضورؐ ان دونوںکا اقتدار قائم رکھنے میں ان کی مددکریں گے۔ ڈھونگی سوامی کے بقول اس کے 550 ورکرز اس مقصد کے لئے اس کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میںکام کر رہے ہیں۔ اللہ اور حضورؐ کا یہ پیغام ہے کہ پہلے اپنی جانیں بچائیں پھر دنیا خودبخود محفوظ ہو جائے گی۔‘‘
ڈھونگی سوامی وشوا آنندکے اس اسلام مخالف زہریلے پیغام کی تہہ تک پہنچتے ہوئے میں نے اسے جوابی پیغام وٹس ایپ کیا کہ حضرت بنی آخرالزمان محمد مصطفی ؐ نے رب کائنات سے اپنی امت کو بچانے کا پہلے ہی وعدہ لیا ہوا ہے اور ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور پیغمبر نہیں آئے گا اس لئے آپ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیںکہ اللہ اور ’’حجور‘‘ نے آپ کو پیغمبر کی ذمہ داریاں تفویض کی ہیں۔ کرونا وائرس خالقِ کائنات کی طرف سے اس کی مخلوق کے لئے ایک آزمائش ہے۔ وہ جب چاہیں گے اس وائرس کو ختم کر کے اپنی مخلوق کو بچا لیں گے۔ ان کے تو بس ’’کن‘‘ کہنے سے ارض و سما پر سب کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ خالقِ دوجہاں ہیں اس لئے وہ اپنے معاملات میں اپنی مخلوق سے کیونکر مدد مانگیں گے اور وہ بھلا ہمیں کعبہ اور مساجد میں جانے سے کیوں روکیں گے جبکہ یہ مقدس مقامات انسانیت کے لئے امن کا منبع اور دعائوں کی قبولیت کا ذریعہ ہیں۔ آپ کا ایجنڈہ مجھے مسلمانوںکی اجتماعی قوت توڑنے والا نظر آتاہے‘‘
ڈھونگی سوامی نے اس کا جواب دینے کے بجائے مجھے اپنا ایک ویڈیو پیغام وٹس ایپ کر دیا جس میں اس نے متذکرہ بالا اپنے سارے دعوے دہراتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ اللہ نے صرفِ جان بچانا فرض قرار دیا ہے جبکہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ سنت ہے جسے جان بچانے کا فرض ادا کرتے ہوئے مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اس پر ڈھونگی سوامی کو اپنے جوابی پیغام میں باور کرایا کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ دین اسلام کے بنیادی ارکان ہیں جنہیں ذات باری تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض قرار دیاہے جنہیں آپ دین اسلام کے بارے میںاپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت سنت کا درجہ دے رہے ہیں اس لئے آپ اسلامی تعلیمات کے بارے میں اپنی معلومات درست کریں اور لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ اللہ نے پاکستان میں لوگوںکو مندروں ، گرجائوں اور گردواروں میں جانے سے روکنے کی ذمہ داری کس کو سونپی ہے اس پر ڈھونگی سوامی آئیں بائیں شائیں کرتا نظر آیا اور اس نے اپنے جواب میں کہا کہ میں اپنے طور پر کوئی ایجنڈہ نہیں چلا رہا نہ میرا کوئی خفیہ پلان ہے آپ میرے جذبات اور اللہ کے پیغام کو سمجھ نہیں پائے۔
یہی درحقیقت الحادی قوتوں کا وہ ایجنڈہ ہے جو وہ ڈھونگی سوامیوں جیسے اپنے آلۂ کاروں کے ذریعے مسلمانوں کی اجتماع قوت توڑنے کے لئے بروئے کار لا رہی ہیں اور یہ ایجنڈہ اب مکمل بے نقاب ہو چکا ہے۔ ہم نے کرونا وائرس سے بچنے کے احتیاطی اقدامات بہرصورت اٹھانے ہیں مگر ہمیں اسلام دشمنوںکی گھنائونی سازشوں سے بھی خودکو بچانا ہو گا۔ خدا ہمیں اپنے دین کو قائم رکھنے کی ہمت و استقامت دے۔
٭…٭…٭