خدا کی رسّی
Apr 24, 2020

کرونا وائرس نے اقوام عالم کو کس حد تک اور کس انداز میں متاثر کیا ہے اور اس آفت کے ٹلنے کے بعد کی دنیا کیسی ہو گی۔ اس بارے میں تو آنے والے وقتوں میں بھی بحث جاری رہے گی۔ میری تشویش اس وقت کرونا وائرس کی وجہ سے دینِ اسلام۔ اس کی عبادات، عبادت گاہوں اور اس کی تکریم انسانیت والی خاصیت کے اپنے بیگانوں کے نشانے پر آنے کے حوالے سے ہے۔ اگر آج ہم پر ایسی افتاد آن ٹوٹی ہے کہ کرونا وائرس کا شکار ہونے والے اپنے کسی پیارے کی نعش کو اسلامی تعلیمات اور شرف انسانیت کے تقاضوں کے تحت غسل بھی نہیں دے سکتے۔ اس کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ میت کا منہ نہیں دیکھ سکتے اور اسے صائب طریقے سے دفنا بھی نہیں سکتے اور اسی طرح آج فرضی عبادات کے لئے بھی ہم پر عملاً خانہ کعبہ، مسجد نبویؐ اور مساجد و امام بارگاہوں کے دروازے بند ہو چکے ہیں تو اس سے بحیثیت قوم ہمارے ساتھ جہاں خدا کی ناراضگی عیاں ہوتی ہے وہیں یہ صورتِ حال ہمارے لئے لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ ہمیں کرونا کے خوف کی لپیٹ میں آنے کے باوجود ربِّ کعبہ سے اپنی سرکشیوں کی سزا کا آج بھی کوئی خوف نہیں۔ ہم آج بھی اسیطرح لہو و لعب میں ڈوبے اپنے متکبرانہ رویوں اور لہجوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ آج بھی دوسروں کا حق چھین کر کھانے، اپنے سے کمتر انسانوں کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے، سارے وسائل اپنی ہی دسترس میں کئے رکھنے اور پہلے ہی کی طرح مجبور و بے بس لوگوں کا استحصال جاری رکھنے کی ڈگر پر ہی چل رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ کرونا وائرس نے نخوت و تکبر میں ڈوبے مادیت پرستوں کی دنیا کیسے تبدیل کی۔ اٹلی اور سپین میں دھن دولت والوں نے کرونا وائرس سے اپنے لوگوں کی لاشوں کے ڈھیر لگتے دیکھ کر اور اپنے پیاروں کی جانیں بچانے کے لئے اپنا دھن دولت کسی کام نہ آنے پر یہ دولت اپنی تجوریوں سے نکال نکال کر گلیوں، بازاروں اور سڑکوں میں بکھیر دی۔ کئی متمول لوگوں نے اسی بے بسی میں اپنی بلند و بالا بلڈنگوں سے کود کر خودکشی کر لی اور خدا کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے مادیت پرست معاشرے کے ان ملحدوں نے عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور سر جھکا دیا۔ ان ملحدوں کے دینِ اسلام کی پناہ میں آنے کے کئی سحر انگیز مناظر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہم سرکشوں کے مشاہدے میں آچکے ہیںمگر مجال ہے ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں، جعلسازی کے ساتھ گھٹیا مال نکالنے اور اس کے زیادہ دام وصول کرنے والوں نے اپنی روش تبدیل کی ہو۔ مجال ہے لوٹ مار سے حاصل کی گئی دھن دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے اشرافیائوں، ساہوکاروں نے مجبور و بے بس انسانوں کی دیکھ بھال کا کوئی ہلکا سا بھی جذبہ اپنے دلوںمیں پیدا ہونے دیا ہو اور اپنی دولت کو ہوا لگائی ہو۔

ماہ رمضان المقدس کا کل -25 اپریل سے آغاز ہو رہا ہے مگر اس مقدس مہینے کی آمد سے پہلے ہی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ناجائز منافع کمانے والوں نے اپنی لوٹ مار کا پورا اہتمام کر لیا ہے۔ اپنا گھٹیا مال مہنگے داموں فروخت کرنے کا یہی موقع انہیں غنیمت نظر آتا ہے اور روزے رکھ کر جھوٹ بولنے ، غیبت کرنے، مغلظات بکنے اور کسی کا حق مارنے سے انہیں ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ پھر ہم ایسے ریاکاروں پر خدا کا عذاب کیوں نازل نہیں ہو گا۔ ہمارے لئے تو کرونا وائرس سے مرنے والے اپنے پیاروں کی نعشوں کی بے توقیری ہی مقام عبرت ہونا چاہئے اور اپنے ہی ایسے انجام کا خوف رجوع الی اللہ کے لئے کافی ہونا چاہئے مگر ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیے۔ کیا ہمیں اپنی عاقبت بچانے اور سنوارنے کے لئے شعائر اسلامی پر کاربند ہونے کی کوئی فکر لاحق ہوئی ہے۔ کیا ہم نے شرفِ انسانیت سے توڑا ہوا اپنا ناطہ جوڑ لیا ہے اور روزِ حساب کی جوابدہی کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے؟ ہمارا وہی چلن برقرار و قائم ہے اور احکام خداوندی سے سرکشیوں میں ہی ہماری تسکین ہوتی ہے تو بے شک ہم قہرِ خداوندی کو ہی دعوت دے رہے ہیں۔

ہمارے لئے اس سے بڑاالمیہ اور عبرت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم رحمت و برکت اور معافی والے مقدس مہینے رمضان المبارک میں بھی اپنی مقدس مذہبی عبادت گاہوں میں خدا کے حضور سر جھکانے سے محروم کر دئیے گئے ہیں اور دنیاداری میں لپٹے ہمارے جید علماء کرام بھی اس کے جواز میں دلیلیں اور تاویلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں۔ اسلام دشمن قوتوں کے لئے تو یہ موقع غنیمت ہے چنانچہ وہ ہمارے مذہبی اجتماعات اور عبادت گاہوں کو ہی نشانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ کروناوائرس سے بچنے کے لئے سماجی فاصلہ قائم کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو باقی سارے مقامات کو چھوڑ کر تان مساجد پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے اور اپنی دنیاداری کے باعث ہم خود بھی اس پراپیگنڈہ کے اسیر ہو رہے ہیں جو درحقیقت امتِ محمدیؐ کی اجتماعی قوت کو توڑنے کی گھنائونی سازش ہے۔ ملحدوں پر دین اسلام کی دھاک ہماری اجتماعی قوت سے ہی بیٹھتی ہے۔ اس لئے انہوں نے کرونا کی آڑ میں اپنا پہلا ہدف مسلمانوں کی اجتماعی قوت توڑنے کا ہی رکھا ہے اگر ہم خود ہی ملحدوں کو ان کے اس ہدف کی تکمیل کا موقع فراہم کر رہے ہیںتو سمجھ لیجئے کہ خدا ہم سے روٹھ چکا ہے اور ہم اس کی بارگاہ سے ٹھکرائے جا چکے ہیں۔ خود کو سنبھالنے کا چارہ کیجئے اور خشوع خضوع کے ساتھ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو جائیے۔ رمضان کے ماہ مقدس کو خدا سے معافی مانگنے کا نادر موقع سمجھئے کیونکہ خدا کی رسی ہمیشہ کے لئے دراز نہیں رہے گی۔ اس کے کھینچے جانے سے پہلے ہی راہ راست پر آجایئے ورنہ آپ کو پچھاوے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com