آج پوری دُنیا میں اگر کوئی چیز موضوع بحث ہے اور انسانی ذہن پر حاوی ہو چکی ہے تو وہ کرونا وائرس ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی افتاد نے انسانی معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کئی انسانی قدریں تبدیل کر دی ہیں یا صفحۂ ہستی سے مٹا دی ہیں اور چاردانگ عالم میں بے بسی کی تصویر بنا کروفر والا انسان ’’کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ کے جسم پر طاری کپکپی کے ساتھ نعرے لگاتا ہوا عملاً کسی نہ کسی محفوظ ٹھکانے میں دبکا پڑا ہے۔
یہ وائرس کہاں سے آیا، کیسے نمودار ہوا، کس کے نامۂ اعمال سے پھسل کر پوری دنیا میں پھیل گیا اور انسانی ہلاکتوں کے انبار لگاتا گیا۔ اس کے بارے میں کئی سازشی تھیوریاں سوشل میڈیا پر مٹرگشت کر رہی ہیں اور چین اور امریکہ تو اس وائرس کی ’’ایجاد‘‘ کے حوالے سے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ روس، ایران اور ترکی بھی کرونا وائرس کی مبینہ امریکی سازش کو طشت ازبام کرنے والے چین کے موقف کا دم بھر رہے ہیں۔ یہ بحثیں تو جیسے جیسے کرونا وائرس سے انسانی تباہ کاریاں پھیلتی جائیں گی ، اس کے ساتھ ہی گرما گرمی کا ماحول طاری کئے رکھیں گی مگر بھلے لوگو۔ اس کرونا وائرس نے لہو و لعب میں لتھڑے انسانی معاشرے میں کچھ اچھائیاں بھی تو پیدا کی ہیں تو کیوں نہ آج ان اچھائیوں کا تذکرہ کر کے انسانوں پر ٹوٹنے والی اس افتاد کے مثبت پہلو اجاگر کئے جائیں۔
تو جناب اس جان لیوا وائرس سے انسانی معاشرے کو جو پندرہ 20 فوائد و ثمرات حاصل ہوئے ہیں ان کے تذکرے کو آپ مذاق ہرگز نہ سمجھیں بلکہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور غور و فکر کریں کہ قدرت نے اس آفت کو سرکش انسانی معاشرے کے سدھار کے لئے کیسے نعمتِ غیر مترقبہ بنایا ہے۔ انسانی معاشرے کے سدھار کا یہ مجرب نسخہ کرونا وائرس کے ثمرات کی صورت میں مجھے ایک دیرینہ عزیز دوست اور نوائے وقت میں میرے ایک سابقہ رفیق کار نے بھجوایا ہے جو کرونا وائرس سے بے بس و لاچار ہوئے بیٹھے انسانوں کی تسلی اور تشفی کے لئے من و عن پیش خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
’’کرونا وائرس نے سنیما گھر، نائٹ کلب ، رقص گاہیں ، شراب خانے ، جواء خانے بند کرا دئیے ، جنسی بے راہروی کے مراکز بند کرا دئیے ، سود کی شرح بھی کم کرا دی ، خاندانوں کو ایک طویل جدائی کے بعد ان کے گھروں میں دوبارہ اکٹھا کیا ، غیر مرد اور غیر عورت کو ایک دوسرے کو بوسہ دینے سے روکا، عالمی ادارۂ صحت کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ شراب پینا تباہی ہے لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح کرونا وائرس نے صحت کے تمام اداروں کو یہ کہنے پر مجبورکیا کہ درندے ، شکاری پرندے ، خون ، مردار اور مریض جانور انسانی صحت کے لئے تباہ کن ہیں۔ پھر کرونا وائرس نے انسان کو چھینک مارنے کا اصل طریقہ سکھایا اور یہ بھی یادکرایا کہ صفائی کس طرح کی جاتی ہے جسے حضرت نبیٔ آخر الزمان ، محسن انسانیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف ایمان قرار دیا ہوا ہے۔
اس موذی وائرس کی دیگر خوبیوںکا تذکرہ بھی ضروری ہے جو یہ ہے کہ اس نے فوجی بجٹ کا ایک تہائی حصہ صحت کی طرف منتقل کرایا۔ دونوں جنسوں کے ناجائز اختلاط کو مذموم قرار دیا ، دنیا کے بڑے ممالک کے حکمرانوں کو باور کرا دیا کہ لوگوں کو گھروںمیں پابند کرنے ، جبری بٹھانے اور ان کی آزادی چھین لینے کے انسانی معاشرے اور حکومتی گورننس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر حضور والا! کرونا وائرس نے انسانی مخلوق کو اپنے خالق ربِ کائنات سے گڑ گڑا کر دعا مانگنے ، گریہ زاری اور استغفار کرنے پر مجبور اور منکرات و گناہ سے کنارہ کشی پر آمادہ کیا ہے۔ اس نے متکبرین کے کروفر کا سر پھوڑ دیا اور انہیں عام انسانوں والا لباس پہنا دیا۔ اس نے دنیا کے کارخانوں کی زہریلی گیس اور دیگر آلودگیوں کو کم کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ اس نے ٹیکنالوجی کو ربّ ماننے والوں کو دوبارہ حقیقی ربّ کی طرف رجوع کرنے پر مجبورکیا۔ حکمرانوں کو جیلوں اور قیدیوں کی حالت ٹھیک کرنے پر آمادہ کیا اور اس جرثومے نما وائرس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اللہ کی وحدانیت کو انسانوں سے تسلیم کرایا۔ شرک اور غیر اللہ سے مدد مانگنے سے روکا۔ انسان کو دوبارہ انسانیت ، اس کے خالق اور اس کے اخلاق کی طرف متوجہ کیا۔
توجناب! آج عملی طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ بظاہر ایک وائرس مگر فی الحقیقت اللہ جل شان ہُو کے ایک ادنیٰ سپاہی نے انسانیت کے لئے شر کی جگہ خیر کو مقدم ٹھہرا دیا ہے تو پھر تم خدا کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘۔ پس اے لوگو! کرونا وائرس پر لعنت مت بھیجو۔ یہ تمہارے بھلے کے لئے ہے اور اب بلاشبہ انسانیت اس طرح نہ ہو گی جیسے پہلے ننگِ انسانیت کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ پس توبہ کرو اور اس سے توشۂ آخرت کا اہتمام کرو۔ وما علینا الا لبلاغ۔ چلتے چلتے ان اسباق کا بھی تذکرہ ہو جائے جو کرونا وائرس نے ہمیں سکھائے ہیں گویا…؎
یہ کتابوں میں درج تھا ہی نہیں
جو سکھایا سبق ’’کرونا‘‘ نے
اور ہمیں سبق یہ ملا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقتورملک ہرگز نہیں۔ چین نے تیسری عالمی جنگ جیت لی ہے بنا کوئی میزائل یا گولی چلائے۔ اگلا سبق یہ ہے کہ یورپئین اتنے مہذب اور تعلیم یافتہ نہیں جتنے وہ نظر آتے ہیں۔ غریب آدمی امیر آدمی سے زیادہ مضبوط ہے۔ دنیا کے لئے سب سے بڑا وائرس خود حضرتِ انسان ہے۔ کوئی وید ، پجاری ، پادری خدا کی رضا کے بغیر انسان کو شفا نہیں دے سکتا۔ پھر کرونا وائرس کے اس سبق کو پلے باندھ لیجئے کہ گھروں میں رہ کر بھی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ ہم فاسٹ فوڈ اور غیر ضروری سرگرمیوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں اب بھی اچھے لوگ موجودہیں۔ اگر ہم زیادہ سکول بنائیں گے تو ہمیں زیادہ ہسپتال بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم گاڑیوں کے بغیر بھی چل سکتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت بہت ہے اگر ہم اس کی قدر کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں۔ ضرورت سے زیادہ پیسہ کسی کام کا نہیں اور آخری سبق یہ کہ دنیا جتنی بھی ترقی کر لے ، وہ قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
توجناب! دیکھا آپ نے۔ کرونا نے کیسے انسانی قدریں تبدیل کی ہیں۔ کرونا تیرا شکریہ