اگر پوری دنیا اس امر کی قائل ہوگئی ہے کہ لاعلاج کرونا وائرس سے خود کو بچانے اور اس کا پھیلائو روکنے کیلئے مکمل لاک ڈائون کے سوا فی الوقت کوئی چارہ نہیں تو ہمارے وزیراعظم اس وقتی چارہ گری سے کیوں گریز کر رہے ہیں ،اس کیلئے ان کے پاس محض 2دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ کرفیو جیسے لاک ڈائون سے اشیائے خوردونوش، ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کی ترسیل رک جائے گی جس سے ہمیں کرونا سے بھی بڑی قلت اور قحط کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے، جس کا وہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے میڈیا پرسنز سے گفتگو کے دوران اور سپیکر قومی اسمبلی کی بلائی گئی پارلیمانی ویڈیو کانفرنس کے دوران بار بار اعادہ کرچکے ہیں کہ مکمل لاک ڈائون سے ملک میں بیروزگاری بڑھ جائے گی اور دیہاڑی دار مزدور طبقہ فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گا۔ معاف کیجئے گا اگر محض اس استدلال کی بنیاد پر لوگوں کا باہمی میل جول برقرار رکھ کر کرونا وائرس کے پھیلائو کا راستہ کھولا جائے گا تو پھر اس جان لیوا وائرس کا درپیش چیلنج قبول کرنے اور اس سے عہدہ برآء ہونے کی ساری فکرمندی اکارت جائے گی۔ ابھی تو کرونا کے بعد چین ہی سے ایک اور موذی وائرس ’’ہانٹا‘‘ کے پھیلنے کی اطلاعات بھی زیرگردش ہیں جس سے چین کے صوبہ نہان میں 10کے قریب اموات بھی ہوچکی ہیں تو پھر سنجیدگی سے جائزہ لے لیجئے کہ موجودہ حکمت عملی کے تحت ہم اس نئے وائرس کی بھی اپنے ملک میں آمد بھلا کیسے روک پائیں گے۔ آج اگر چین کے بعد امریکہ، برطانیہ، اٹلی، روس، جرمنی اور فرانس جیسے طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک ،بھارت، انڈونیشیا، نیوزی لینڈ، قبرص اور جنوبی افریقہ حتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسے ہم سے بہتر معیشت والے نیم ترقی یافتہ ممالک اور شعائر اسلامی کے پاسدار عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے مکمل لاک ڈائون کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہیں آیا اور انہوں نے کرفیو کو ناگزیر گردانا ہے۔ حتیٰ کہ جامعہ الازہر مصر نے ہمارے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی تجویز پر مساجد میں نماز جمعہ سمیت کوئی بھی نماز باجماعت ادا نہ کرنے اور گھروں میں ہی بیٹھ کر نمازیں ادا کرنے کا قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ جاری کر دیا ہے تو ہماری جانب سے مکمل لاک ڈائون نہ کرنا کسی اَنا کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔
اگر سندھ حکومت نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپ کر سب سے پہلے مکمل لاک ڈائون کا اقدام اٹھایا ہے اور کرونا وائرس کے سدباب کیلئے کورکمانڈرز کانفرنس میں طے کئے گئے اقدامات کی روشنی میں پنجاب کو بھی جزوی لاک ڈائون کی جانب آنا پڑا ہے تو وفاقی سطح پر بھی بہترین حکمت عملی مکمل لاک ڈائون والی ہی ہونی چاہئے پھر ذرا یہ بھی تو جائزہ لے لیجئے کہ جن خدشات و امکانات کی بنیاد پر کرفیو جیسے لاک ڈائون سے گریز کیا جا رہا ہے، وہ خدشات کیا کرونا وائرس سے پہلے بھی سر اٹھاتے اور عملی قالب میں نہیں ڈھلتے رہے۔ ذخیرہ اندوز مافیا نے اس مجبوروبے بس قوم کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ کرونا وائرس کی آمد سے بھی پہلے کیا چینی، آٹا، گندم، ادویات اور سبزیات کی خوفناک قلت اور اس کے نتیجے میں جان لیوا مہنگائی پیدا نہیں ہوتی رہی۔ جان بچانے والی ادویات کی تو آج بھی سخت قلت ہے اور امراض قلب، ہیپاٹائٹس، ذیابیطس اور دوسرے مہلک امراض کے مریض ہسپتالوںمیں اور گھروں پر ادویات کے بغیر پڑے تڑپ رہے ہیں۔ ذرا اس بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کریں کہ یہ گل کون کھلا رہا ہے اور وزیراعظم کے بار بار اور سخت نوٹس لینے کے باوجود ذخیرہ اندوز اور گرانفروش مافیا کی اکڑی گردنیں شکنجے میں کیوں نہیں آ رہیں۔ اصل ضرورت تو ان مکروہ عناصر کے خلاف قومی ایکشن پلان ترتیب دینے کی ہے تاکہ مکمل لاک ڈائون کے دوران انہیںاشیائے ضرورت کی قِلت کے مصنوعی بحران پیدا کرنے اور سخت آزمائش کے اس مرحلے میں بھی ناجائز منافع کمانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ مکمل لاک ڈائون کی صورت میں وزیراعظم عمران خاں کا دوسرا خدشہ بیروزگاری بڑھنے کا ہے تو خدا لگتی کہیے جناب کہ حکومتی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں کیا ملک میںپہلے ہی بیروزگاری کا سیلاب نہیں آ چکا۔ ان حکومتی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ نیب اور ایف بی آر کے ڈنڈے نے صنعتکاروں اورتاجروں کے حوصلے پہلے ہی اتنے پست کر دئیے ہیں کہ وہ اپنی صنعتیں اور کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جبکہ نئی سرمایہ کاری کے راستے بھی مسدود ہو چکے ہیں، نتیجتاً صنعتوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں چھوٹے موٹے روزگار سے وابستہ افراد بیروزگاری کے جھکڑ کی زد میں آ کر پہلے ہی فکر معاش میںغلطاں اور اپنے خاندانوں کا اقتصادی بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بھاہوے ہو چکے ہیں۔ دیہاڑی داروں کا ہوائی روزگار تو موجودہ جزوی لاک ڈائون میںبھی مارکیٹیں، شاپنگ مالز، سیرگاہوں، تعلیمی اداروں اور تفریحی مقامات کے بند ہونے سے ختم ہو چکا ہے اور وہ مایوسیوں کی چادر لپیٹے چوکوں، چوراہوں میںکھڑے اور پڑے نظر آتے ہیں اگر مکمل لاک ڈائون ہو گیا تو اس سے زیادہ اورکیا ہو گا۔ بقول احسان دانش ؎
تکمیل ضروری ہے، اِدھر ہو کہ اُدھر ہو
ناکردہ گنا ہی بھی گناہوں میں چلی آئے
آپ ان حالات کے تناظر میں ملک اور عوام کے اقتصادی مسائل مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے ضرور اقدامات اٹھائیے مگر فی الوقت کرونا وائرس سے عوام الناس کی زندگیاں بچانے کا ہرممکن جتن کیجئے۔ یہ محض اَنا کی تسکین نہیں ، قومی صحت کا سوال ہے۔
٭…٭…٭