میں ڈاکٹر مبشر حسن کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناگہانی وفات تو ہرگز نہیں کہوں گا، ماشاء اللہ 98برس تک بھرپور زندگی جئے اور اپنے ڈھب کی زندگی جئے۔ 2سال اور جی لیتے تو زندگی کی سنچری مکمل کرلیتے مگر موت کا جو وقت متعین ہے اور دست قدرت میں ہے، اسے کوئی لمحہ بھر کیلئے بھی نہیں ٹال سکتا۔ آج کرونا وائرس کی شوراشوری میں زندگیاں بچانے کے جتن ہو رہے ہیں اور پوری دنیا پر ہو کا عالم طاری ہے۔ کاروبار حیات اور کارزار حیات سب کچھ ٹھپ ہے، لوگوں نے اپنے آپ کو خود ہی ایک دوسرے کیلئے شودر بنا لیا ہے۔ ایک درسرے کے سائے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ بس ایک ہی فکر میں غلطاں ہیں کہ کہیں کرونا وائرس کے چپکنے سے وہ مر نہ جائیں مگر قدرت نے جتنی زندگی کسی کی متعین کر رکھی ہے، وہ کرونا وائرس سے یا کسی اور بہانے سے مر ہی رہے ہیں۔ بس یہی زندگی کی تلخ حقیقت ہے کہ اسے ہر صورت ختم ہونا ہے۔
زندگی تیرے تعاقب میں لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
کوئی یادگار زندگی گزارتے ہیں اور اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی بلاشبہ یادگار زندگی گزاری اور صاحب اختیار و استطاعت ہونے کے باوجود اپنے اصولوں پر جئے۔ انجینئرنگ کی خشک تعلیم نے انہیں سماجی مساوات کا راستہ دکھایا اور وہ پروفیسری سے وزارت و سیاست تک اسی راستے پر گامزن رہے جس کے دوران انہوں نے شاہراہ انقلاب کشیدکی۔ شاید ذوالفقار علی بھٹو انہیں سماجی مساوات کا استعارہ نظر آئے تھے، اس لئے ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا۔ ان کے نئے سیاسی سفر کیلئے دامے درمے سخنے ان کے ساتھ چل دیئے اور اپنے گھر گلبرگ لاہور میں بھٹو صاحب اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو مدعو کرکے 30اکتوبر 1967ء کو نظریاتی فیتہ لگا کر اور سماجی مساوات کا اینٹ گارا جوڑ کر پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ اپنے لئے لاہور کی سیکرٹری جنرل شپ قبول کی اور بھٹو صاحب کے سر پر چیئرمین شپ کا تاج رکھ دیا۔ جے اے رحیم اس پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ ان سے بھٹو صاحب کے اختلافات ہوئے تو سیکرٹری جنرل کا منصب ڈاکٹر مبشر حسن کے پاس آگیا۔ انہوں نے اپنی زندگی بھی سماجی مساوات کے تصور کے مطابق بسر کی اور پارٹی کو بھی سماجی مساوات کے اصولوں پر چلایا۔ 1970ء کے انتخابات پر وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لاہور کے مزدوروں والے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات کی بنیاد پر پیپلزپارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی تو ڈاکٹر مبشر حسن وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر پیپلزپارٹی کی حکومتی ٹیم میں شامل ہوئے مگر بھٹو صاحب کو سماجی مساوات کے راستے سے ڈگمگاتا دیکھا تو 1974ء میں حکومت کے عین عروج میں وزارت چھوڑ کر گھر واپس آگئے اور پھر سیکرٹری جنرل کی حیثیت پر پارٹی کے تنظیمی معاملات کی درستی پر جت گئے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو صاحب کی حکومت ٹوپل ہوئی تو ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی طویل قید و بند کاٹنا پڑی۔
ڈاکٹر صاحب سے میری یاداللہ ضیاء آمریت کے دوران تشکیل پانے والے اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کی بطور بیٹ رپورٹر کوریج کرتے ہوئے شروع ہوئی اور پھر ان کے ساتھ انسانیت کا سلسلہ جڑ گیا۔ ان کا اصول تھا کہ وہ پریس کانفرنس کیلئے صحافیوں کو مدعو کرتے تو چائے اور بسکٹوں کی دو پلیٹیں پہلے ہی رکھوا دیتے اور عین مقررہ وقت پر پریس کانفرنس کا آغاز کر دیتے، چنانچہ بعد میں آنے والے صحافی چائے اور بسکٹ سے بھی محروم رہ جاتے اور یہی ان کیلئے ڈاکٹر صاحب کی جانب سے وقت کی پابندی کا سبق ہوتا۔ مجھے آج تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آسکی کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ اتنی طویل نظریاتی وابستگی اور اس پارٹی کا بنیادی رکن ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے نئے سیاسی سفر کیلئے غنویٰ بھٹو کے ہاتھ پر کیوں بیعت کرلی اور میر مرتضیٰ بھٹو کے ستمبر 1996ء میں قتل کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی کے اندر سے غنویٰ بھٹو کے ہاتھوں کیوں پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ (پیپلزپارٹی ایس یی) کا ڈھانچہ کھڑا کر ایا۔ اس راز درون خانہ کا یقینا ان کے نظریاتی ساتھی فرخ سہیل گوئندی کو علم ہوگا۔ وہ پیپلزپارٹی (ایس بی) کے بھی سیکرٹری جنرل بنے اور پھر انہوں نے راستہ نہیں بدلا۔ سیاست میں غیرفعال ضرور ہوئے مگر وابستہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ ہی رہے۔
آج ان کی یادیں ذہن کے پردے پرامڈ آئی ہیں تو مجھے میر مرتضیٰ بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر صحافتی لیجنڈ عباس اطہر مرحوم کے ساتھ پڑا گھمسان کا قلمی رن بھی یاد آگیا ہے۔ برسی کی اس تقریب میںلاہور سے صحافی برادری کی شرکت اور نوڈیرو لے جانے کیلئے ڈاکٹر مبشر حسن اور فرخ سہیل گوئندی نے میرے اور حامد میر کے نام قرعہ فال نکالا۔ چنانچہ ہم 4افراد ڈاکٹر مبشر حسن ، فرخ سہیل گوئندی، حامد میر اور میں نے رخت سفر باندھا۔ لاہور سے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے سکھر پہنچے اور وہاں سے ایک عام مسافر ویگن کے ذریعے لاڑکانہ آئے جہاں ایک عام سے ہوٹل میں ہم 4افراد کیلئے 2کمرے بک تھے۔ ایک کمرے میں میں اور حامد میر اور دوسرے میں ڈاکٹر مبشر حسن اور فرخ سہیل گوئندی ٹھہرے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی برسی کا اہتمام نوڈیرو میں بھٹو مرحوم کی قبر سے ملحقہ ان کی قبر پر وسیع انتظامات کے ساتھ کیا گیا تھا۔ برسی کے اس اجتماع میں جوش و خروش کے ساتھ 15سے 20ہزار افراد شریک ہوئے تھے جن میں پیپلزپارٹی (ایس بی) کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکن بھی شامل تھے۔ مجھے اس تقریب کے جوش و ولولہ سے پیپلزپارٹی (ایس بی) کی بنیاد مضبوط ہوتی نظر آئی جس کے حوالے سے میں نے ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی خاصا پرجوش پایا۔ اگلے روز ہمیں غنویٰ بھٹو المرتضیٰ لاڑکانہ میں لے آئیں جو اب انہی کی تحویل میں تھا۔ غنویٰ بھٹو کی ہونہار بیٹی فاطمہ بھٹو سے بھی ہماری وہیں پر ملاقات ہوئی۔ غنویٰ بھٹو نے ہمیں ایک ایک کونے اور ایک ایک کمرے میں لے جا کر ان کی تفصیلات بتائیں جن میں بھٹو مرحوم اور ان کے بیٹوں، بیٹیوں بینظیر بھٹو، صنم بھٹو، مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کیلئے مخصوص بیڈ روم بھی شامل تھے۔ یہی پر ہمیں فاطمہ بھٹو کی انگریزی شاعری سننے کا بھی موقع ملا اور میں نے فی البدیہہ تبصرہ کیا کہ یہ سیاست میں متحرک ہوں تو اپنی پھوپھو بینظیر بھٹو کے پائے کی سیاستدان بن سکتی ہیں۔ لاہور واپس آکر مرتضیٰ بھٹو کی پہلی برسی کی تقریب اور غنویٰ و فاطمہ کی اپنے ساتھ ہونے والی بات چیت پر اپنے تاثرات پر مبنی کالم لکھ کر مجید نظامی صاحب کو بھجوا دیا۔ عباس اطہر صاحب اس وقت نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر (نیوز) تھے۔ جب کالم نظامی صاحب سے اپروو ہو کر عباس اطہر صاحب کے پاس آیا تو انہوں پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنے ’’رومانٹسزم‘‘ کی بنیاد پر اس کالم کے ذریعے پیپلزپارٹی کی صفوں میں نقب لگتی ہوئی محسوس کی، چنانچہ انہوں نے یہ کالم روک لیا اور مجید نظامی صاحب سے بات کرکے اس کالم کے مندرجات کو ایک خبر کی صورت میں میری کریڈٹ لائن کے ساتھ شائع کر دیا اور پھر اس خبر کی بنیاد پر اگلے روز میرے خلاف کالم لکھ مارا جس میں انہوں نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی حامد میر کی خبر کو فوکس کرکے مجھ پر پھبتی کسی کہ پیپلزپارٹی (ایس بی) کے لاڑکانہ نوڈیرو والے جلسے میں جو جوش و خروش سعید آسی کو نظر آیا ہے وہ حامد میر کو کیوں نظر نہیں آیا۔ عباس اطہر صاحب کے اس کالم کا لب لباب مجھے پیپلزپارٹی کا نظریاتی دشمن ظاہر کرنا تھا۔ ظاہر ہے کالم اور خبر میں نمایاں فرق ہوتا ہے کیونکہ خبر میں واقعات کی من و عن عکاسی کی جاتی اور کالم میں لکھنے والے کی کسی واقعہ پر اپنی سوچ بھی شامل ہوتی ہے۔ عباس اطہر صاحب نے صحافتی اصولوں اور اخلاقیات کے تقاضوں کے منافی ایک تو میرے کالم کو خبر کی صورت میں شائع کیا اور پھر اس خبر کی بنیاد پر اپنے کالم میں مجھ پر پیپلزپارٹی کا مخالف ہونے کا لیبل لگا دیا جبکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کا ’’رومانٹسزم‘‘ کی جھلک میں 1977ء میں تحریک استقلال کی جانب سے نکالے گئے ان کی ادارت میں روزنامہ آزاد میں دیکھ چکا تھا جس میں بھٹو کیس کی کوریج کے دوران وہ کارٹونسٹ خالد سعید بٹ سے بھٹو مرحوم کی بگاڑی ہوئی شکل کے کیری کیچر بنواتے اور بھٹو کیس میں فائل ہونے والی میری خبروں کے ساتھ لگوانے کا بطور خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عباس اطہر صاحب کے کالم کے جواب میں میں نے بھی کالم لکھ دیا جو مجید نظامی صاحب کی منظوری کے ساتھ شائع ہوگیا۔ اس پر صحافتی حلقوں میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہوگئی اور دوسرے اخبارات میں بھی اس جواب الجواب پرحاشیہ آرائی ہونے لگی۔ عباس اطہر صاحب نے میرے کالم کے جواب میں پھر کالم لکھ دیا جس میں وہ ذاتیات کی حد کو پہنچتے نظر آئے، چنانچہ مجھے ان کے اس کالم پر بھی بادل نخواستہ جوابی کالم لکھنا پڑا۔ اس پر عباس اطہر صاحب پیچ و تاب کھاتے اگلا جوابی کالم لکھنے کی تیاری کر رہے تھے کہ مجید نظامی صاحب نے چٹ بھجوا کر ہم دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف مزید کالم لکھنے سے روک دیا اور عباس اطہر صاحب نے میرے خلاف مزید کلام نہ لکھ پانے کی حسرت اپنے دل میں بٹھائے رکھی۔ ان کا بے شک میرے استاد کا مقام تھا اور میں ادب آداب کا ہمیشہ قائل رہا ہوں مگر
چپ رہیں گے حیا سے وہ کب تک
غصہ الزام سے تو آئے گا
کے مصداق عباس اطہر صاحب نے مجھے زچ کیا تو مجبوراً مجھے بھی جواب دینا پڑا جس پر ڈاکٹر مبشر حسن بھی جواب الجواب کے پس منظر کی بنیاد پر خاصے محظوظ ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن سے وابستہ یادوں کے حوالے سے یہ بھی محض ایک یاد تھی جس کا تذکرہ ہوگیا ہے ورنہ عباس اطہر صاحب ہمیشہ میرے محترم رہے ہیں اور ان کی پیشہ صحافت میں کارکن نوازی کا بھی میں ہمیشہ قائل رہا ہوں جس طرح میں ڈاکٹر مبشر حسن کی انسانیت دوستی کا قائل ہوں۔ ان کے حوالے سے امڈی ہوئی یادیں تو بے شمار ہیں مگر سب کا ایک کالم میں احاطہ ممکن نہیں۔ فی الوقت اس شعر پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
٭…٭…٭