راہِ ہدائت کا متقاضی کرونا کا خوف
Mar 06, 2020

کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ چین کے ایک دور افتادہ شہر ووہان میں اڑھائی ماہ قبل جنوری میں کرونا کے نام سے جنم لینے والا وائرس پھیلتا پھیلتا پوری دنیا کو جکڑ لے گا اور کروفر والا انسان عملاً بے بس ہو کر رہ جائے گا ، تو بھائی صاحب! یہی مظاہر قدرت ہیں۔ خدائے لم یزل کے وحدۂ لا شریک ہونے کی اٹل گواہی اور ہفت آسمانوں سے زمین تک اس کائنات پر جن و انس، چرند پرند اور حشرات الارض تک ہرچیز رب کائنات کے دستِ قدرت میں ہے۔ یہ ساری حقیقتیں رب کائنات نے صحیفۂ آسمانی قرآن مجید میں کھول کھول کر بیان فرما دی ہوئی ہیں مگر ہم لہو و لعب میں ڈوبے متکبر انسانوں کو سارے مظاہر قدرت دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی اور سرکشی ایسی ہے کہ راہِ ہدائت و نجات کی جانب مائل ہی نہیں ہونے دیتی اور تفکر و سوچ کا در واہی نہیں ہونے دیتی۔ آج بھی بھٹکے ہوئے روشن خیال ایسی باتوں کو فرسودہ ، ناکارہ ، غبی ذہن کی پیداوار اور بنیاد پرستوں کی خانہ ساز قرار دے کر اس کا ٹھٹھ مذاق اُڑاتے نظر آتے ہیں۔ وہ زلزلوں ، سیلابوں اور قدرتی آفات کی صورت میں انسانوں پر ٹوٹنے والے عذابوں کو مظاہر قدرت کے طور پر تسلیم کرنے کو آمادہ ہی نہیں اور حقیقت ان کی بس اتنی ہے کہ پل بھر کو آکسیجن بند ہو جائے تو پلک جھپکتے میں ان کا رعونت بھرا سراپا مٹی کا بت بن جائے۔ زلزلوں کو زیر زمین پلیٹوں کے اپنی جگہ سے ہلنے کا باعث تو تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی سائنس کی یہی تحقیق ہے مگر یہ پلیٹیں زیر زمین جوڑنے کا اہتمام کس نے کیا ہے اور انہیں ہلا کر زلزلوں کی نوبت لانے کا اہتمام کون کرتا ہے، نام نہاد روشن خیالوں کو اس میں مظاہر قدرت کی حقانیت کی کوئی جھلک نظر ہی نہیں آتی۔خالقِ کائنات نے کروفر والے انسانوں کی ایسی سرکشی کا اہتمام بھی ان کے بدترین انجام کی صورت میں انہیں نشانِ عبرت بنانے کے لئے کیا ہوتا ہے۔ بے شک خدا کی رسی بہت دراز ہے اور انسانوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ کسی بہکاوے میں نہ آئیں۔ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔


آج بے شک پوری دنیا میں سراسمیگی کا باعث بننے والا کرونا وائرس بھی خالقِ کائنات کے آگے اس کی مخلوق بشمول فرعون ذہن انسانوں کی بے بسی کا زندہ ثبوت ہے۔ ہم نے اپنی دھرتی پر دس سال قبل ڈینگی کی شکل میں قدرت کی طرف سے آنے والی ایسی ہی آزمائش کو بھگتا ہوا ہے۔ یہ وائرس مچھر کی شکل میں یورپ سے ایشیاء میں داخل ہوا اور 2005ء میں اس نے ہماری دھرتی کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا اور 2011ء میں اس کی زہر ناکی کے اصل مضمرات سامنے آئے جب اس کے وار سے ہر انسان بے بس نظر آنے لگا۔ پنجاب میں ہزاروں انسانوں کی زندگیاں اس وائرس کی بھینٹ چڑھ گئیں اور اس کے موثر علاج کی فوری طور پر کوئی تدبیر نہ ہو سکی، میں نے خود بھی اس وائرس کی زہر ناکی کو بھگتا ہوا ہے اس لئے اس مرض سے لاحق ہونے والی پژمردگی ، قنوطیت اور بے چارگی کی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہوں۔


بے شک تنومند انسانوں کو انواع و اقسام کے مرض لگانا اور پھر انہیں شفا یاب کرنا رب کائنات ہی کے دست قدرت میں ہے۔ اس کی مخلوق بس اسکے احکام کے تابع رہے اور سرکشی اختیار نہ کرے۔ آپ ڈینگی ، کرونا اور اس جیسے دوسرے امراض اور وبائوں کے اسباب کے حوالے سے اپنے تئیں قیافے لگاتے رہیں مگر اصل سبب مظاہر قدرت سے انسانی سرکشی ہی ہوتا ہے جس پر اسے جھنجوڑنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کرونا کے اسباب میں چینی باشندوں کی خوراک میں شامل ایسے جانور اور چرند پرند بتائے جا رہے ہیں جنہیں کھانے کی رب کائنات نے ممانعت فرمائی ہوئی ہے۔ اگر انسانی تحقیق سے کرونا وائرس کا یہی سبب برآمد ہوا ہے تو یہ مظاہر قدرت سے انسانی سرکشی کا ہی ثبوت ہے۔ یقیناً چینی باشندوں نے اس کا ادراک کیا اور دین اسلام کے متشددانہ مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کی حقانیت تسلیم کرنے اور راہ ہدائت کے لئے ربِ کائنات کی جانب رجوع کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والی بے شمار ویڈیوز میں آپ چینی صدر کو ایک مسجد میں جا کر نمازیوں سے چینی قوم کے لئے رحم کی اپیل کرتے ، بے شمار چینی باشندوں کو مساجد میں سجدہ ریز ہوتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ تلاوت کلام پاک سنتے دیکھ چکے ہوں گے۔ یہ بدلی ہوئی وہ چینی سوچ ہے جس نے اپنی دھرتی پر مسلمانوں کا ناطقہ تنگ کیا ہوا تھا۔ کرونا کے جھٹکے نے انہیں مظاہر قوت کی حقانیت سے آشنا کر دیا جن کی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس قدرت کی جانب سے ممنوع اور حرام قرار دی گئی اشیاء کے کھانے سے پیدا ہوا ہے تو پوری دنیا پر پھیلنے والے اس وائرس کے بھی بلاشبہ یہی اسباب ہوں گے جس کی اقتصادیات و معیشت آج تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی نظر آ رہی ہے۔


اگرچہ اس وائرس سے اب تک ہونے والی انسانی اموات چار ہزار کے قریب ہیں مگر اس وائرس نے متاثرہ انسانوں کو عملاً اچھوت بنا دیا ہے جن کا سامنا کرنے سے بھی دوسرے انسان خوف کھاتے ہیں اور احتیاطی تدابیر نے عالمی معیشت کو ادھیڑ اور اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ چین میں اب تک اس کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ گیارہ ہزار ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ آج بیشتر ممالک کی فضائی پروازیں بند ہیں۔ کاروباری اور تجارتی مراکز کے شٹرڈائون ہو چکے ہیں۔ لوگ ہوٹلوں، ریستورانوں اور دوسرے پبلک مقامات پر جانے سے گریز کر رہے ہیں اور کرونا سے متاثرہ ممالک میں کاروبار حیات ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ مصافحہ ، معانقہ تو دور کی بات ، لوگ اتنے خوفزدہ ہیں کہ کرونا وائرس کے مشتبہ افراد کے سائے سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت تباہی کے کس دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے ، اسی طرح آج پہلی بار سعودی عرب کے مقامات مقدسہ میں بھی مکمل سنسانی اور ویرانی نظر آ رہی ہے۔ سعودی حکومت نے مقامی اور غیر ملکی باشندوں کے لئے طواف کعبہ پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، چنانچہ عمرہ زائرین جہازوں سے آف لوڈ کئے گئے اور پھر عمرہ ویزے بند کر دئیے گئے۔ سو جہاں ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی خالقِ کائنات کی عبادت نہیں رکی تھی آج وہاں ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے۔ یہ یقیناً قدرت کی طرف سے ہم سرکش انسانوں کے لئے بہت بڑی آزمائش اور مقام عبرت ہے۔ ذرا اپنے حال احوال ، معاملات و معمولات اوراپنے کردار و اعمال کا جائزہ تو لیجئے۔ ہم احکام خدا وندی پر کس حد تک عمل پیرا ہیں۔ اسکی متعین کردہ ممنوعات و مکروہات کے لئے اپنے دل میں کتنی نفرت اور کتنی رغبت رکھتے ہیں۔


حلال اور حرام میں کتنی تمیز کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں کس حد تک خالقِ کائنات کی بندگی میں گزارتے ہیں۔ اس حوالے سے خالقِ کائنات نے مظاہر قدرت بھی اور قیامت کی نشانیاں بھی کتابِ ہدائت میں کھول کھول کر بیان فرما دی ہیں۔ آپ اس کی روشنی میں اپنے ماحول اور معاملات کا جائزہ لیں اور انسانوں پر افتاد بن کر ٹوٹے ہوئے کرونا وائرس کے اسباب جانیں۔ بے شک یہ سب قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔ اگر چینی باشندوں میں ایک معمولی جھٹکے پر حلال اور حرام کی تمیز پیدا ہو گئی ہے تو ہم مسلمانوں کو سود کے حرام ہونے کے احکام خداوندی کی تعمیل کیلئے اب تک کیوں راہِ ہدائت حاصل نہیں ہو پائی۔ ہماری تو پوری معیشت آئی ایم ایف کے سودی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور بنکاری کا سارا نظام ہی سود کی بنیاد پر کھڑا ہے تو بھائی صاحب! ہمارے لئے تو یہی قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں اور ہم سے عبرت کی متقاضی ہیں۔ اگر ہم عبادت کے لئے آج خدا کے گھر اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جانے سے بھی قاصر ہیں تو یہ ہم سے خدا کے روٹھ جانے کا ہی ثبوت ہے۔ آج خواتین مارچ کے انسانیت سوز نعروں اور ایجنڈے پر بات کی جائے تو نام نہاد روشن خیال ہذیانی کیفیت میں تنقید کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں جبکہ گلیوں بازاروں میں بے حیائی کا فروغ بھی قربِ قیامت ہی کی کھول کھول کر بیان کی گئی نشانیاں ہیں۔ سو اپنے اعمال کو سدھارئیے۔ جاہ و چشم کی سوچ سے باہر نکلئے، کروفر والی زندگی کی حیثیت ایک تنکے سے بھی کم جانئے اور قدرت کی دکھائی گئی راہ ہدائت پر آ جائیے، اسی میں آپ کی نجات ہے۔ باقی سب غبار ہے، مشتِ غبار۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com