یہ اندھی طاقت کی نہیں، جذبے کی فتح ہے
Mar 03, 2020

امریکہ اور طالبان کے مابین قطر میں طے پانے والے دو روز قبل کے معاہدۂ امن پر ہمارے بعض نام نہاد دانشوروں کا یہ سیاپا جاری ہے کہ یہ معاہدہ طالبان کی فتح کیسے ہو گیا ، ان دانشوروں کو طالبان کی فتح کی نفی کے لئے اور تو کچھ نہیں سوجھی ، یہ ضرور یاد آ گیا کہ نیٹو فورسز نے تو افغان جنگ میں پوری افغان دھرتی کو تورا بورا بنا کر افغانیوں (طالبان) کا حشر نشر کر دیا تھا اس لئے یہ امن معاہدہ طالبان کی فتح کیسے ہو گئی۔ اسی طرح اس معاہدہ کے لئے طالبان قیادت کو امریکہ سے مذاکرات کے لئے قائل اور مائل کرنے کے حوالے سے پاکستان کے موثر کردار کی کامیابی بھی ان ’’پھوکے‘‘ دانشوروں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور پاکستان کی اس فتح پر اپنے تئیں سیاہی ملنے کے لئے یہ دانشور فلسفہ بگھار رہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکاروں اور قیمتی سیاستدانوں سمیت اپنے 80 ہزار شہریوں کو مروانے اور اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کرانے کے بعد امریکہ طالبان معاہدے کی بنیاد پر پاکستان کی فتح کے دعوے چہ معنی دارد؟


بھارت کے حق میں جگالی کرنے والے ان نام نہاد دانشوروں کو اس جذبے کا بھلا کیا ادراک ہو سکتا ہے جو اپنی دھرتی پر آج تک کسی بھی غیر ملکی جارح کے قدم ٹکنے نہ دینے والے غیور افغانیوں کے دلوں میں اپنی دھرتی کی حفاظت کیلئے موجزن ہے۔ شاعرمشرق علامہ اقبال نے بھی غیور افغانیوں کے اسی جذبے کی وکالت کرتے ہوئے اپنی نظم ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ میں ان اشعار کے ساتھ اس جذبے کی ستائش کی تھی کہ؎

نادر نے لوٹی دلی کی دولت
اک ضربِ شمشیر! افسانۂ کوتاہ

افغان باقی ،کہسار باقی
الحکم اللہ، الملک اللہ


اور افغان دھرتی پر امریکی نائین الیون کے بعد 48 ملکی نیٹو فورسز کی جانب سے شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں غیور افغانیوں کے اسی جذبے کو اجاگر کرنے کے لئے مجاہد و امام صحافت مجید نظامی نے اس جنگ کے آغاز ہی میں نوائے وقت کا ایک صفحہ مختص کر دیا اور علامہ اقبال کی اس نظم کے شعر ’’افغان باقی ، کہسار باقی ، الحکم اللہ ، الملک اللہ ‘‘ کا لوگو ڈیزائن کرا کے اس صفحہ کی زینت بنا دیا جو 2001ء سے آج مارچ 2020ء تک تواتر کے ساتھ روزانہ شائع ہو رہا ہے۔ اسے ہٹوانے کیلئے جرنیلی آمر مشرف نے‘ جو افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائین اتحادی کا کردار قبول کر چکے تھے۔ مجید نظامی پر اشتہارات کی بندش کی دھمکی سمیت ہر طرح سے دبائو ڈالوایا مگر نظامی مرحوم غیور افغانیوں کے اس جذبے کی وکالت کیلئے ڈٹے رہے، کسی کاز کی خاطر ذاتی نقصان اٹھانے کا سودا آج کے مجہول دانشوروں جیسے ریاکار دنیاداروں کے دلوں میں نہیں سما سکتا۔ مرحوم مجید نظامی کے اس وطن و قوم پرستی کے جذبے نے تو انہیں پاکستان کے ایٹمی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان کے معاملہ میں بھی جرنیلی آمر مشرف کے آگے ڈٹ جانے کی بے پایاں ہمت دیدی تھی چنانچہ وہ ڈاکٹر قدیر خان کو ان کی ملکی و ملی خدمات کی تذلیل کرتے ہوئے انکے گھر میں نظر بند کرنے کے مشرف آمریت کے فیصلہ کو روزانہ کی بنیاد پر ان کی رہائی کا اشتہار دیکر چیلنج کرنے لگے۔ اس پاداش میں مشرف آمریت نے دو سال تک نوائے وقت کے اشتہار بند رکھے مگر وہ نظامی مرحوم کے جذبے میں کوئی ہلکا سا بھی جھول پیدا نہ کر سکے۔


ارے صاحبو! یہ جذبہ ہی درحقیقت اپنے کاز اور حق کی فتح کی علامت ہوتا ہے۔ آپ ذرا تصور تو کیجئے کہ غیور افغانیوں نے اپنی دھرتی پر درآنے والی 48 ممالک کی نیٹو فورسز کو مسلسل 14 سال تک تن تنہا تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور کبھی انکے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ بے شک نیٹو فورسز کارپٹ بمباری کر کے اور زہریلے ہتھیار استعمال کر کے افغان دھرتی کو اجاڑتی اور افغانیوں کے خون سے نہلاتی رہیں ، بے شک انکے بچے انکی آنکھوں کے سامنے جام شہادت نوش کرتے رہے اور انکے سارے کاروبار تباہ ہوتے رہے مگر کیا کبھی انہوں نے ظالم نیٹو فورسز سے رحم کی بھیک مانگی؟ اور پھر حساب کتاب کرنا ہے تو افغان جنگ میں افغانیوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہونیوالے امریکہ اور دوسرے نیٹو ممالک کے فوجیوں کی تعداد بھی گن لیجئے۔ انکے مالی نقصانات کا بھی تخمینہ لگا لیجئے اور اسی طرح اس جنگ میں نیٹو فورسز کے مایوسی کے عالم میں خودکشی کرنے والے اہلکاروں کی تعداد بھی جان لیجئے۔ کیا کسی اور جنگ میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑا جو انہوں نے افغان دھرتی پر غیور افغانیوں کے ہاتھوں اٹھائی ہے۔


آپ ذرا تعصبات کی عینک اتار کر حقائق کا جائزہ لیجئے۔ کیا امریکہ اسی ذلت و رسوائی کے باعث افغان جنگ سے خود کو نکالنے پر مجبور نہیں ہوا جس کیلئے اسے اسی پاکستان کی منت سماجت کرنا پڑی اور بلائیں لینا پڑیں جس پر افغان جنگ میں بداعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس سے ڈومور کے تقاضے کرتے کرتے اس کی سول اور فوجی گرانٹ تک بند کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں لگوانے تک کی دھمکیوں پر اتر آیا تھا۔ اگر امریکہ پاکستان کی معاونت سے غیور افغانیوں (طالبان) سے اپنی فوجوں کی محفوظ واپسی کا راستہ حاصل کرنے کیلئے قطر معاہدے تک پہنچا ہے تو بھائی صاحب! نیٹو اور امریکی فورسز کی مسلسل 19 سال تک مزاحمت کرنیوالے افغانیوں کی یہ شکست ہے یا فتح ہے؟ بے شک اس معاہدے کی بنیاد پر افغانستان میں امن کی بحالی کے ثمرات ہم تک بھی پہنچیں گے اور پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) پرامن فضا میں اپریشنل ہو کر ہمیں اقتصادی استحکام اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کر دیگا۔ تو جناب یہ معاہدہ ہماری شکست ہے یا فتح ؟ آپ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے والی قنوطنیت کے بجائے گلاس آدھا بھرا ہوا دیکھیں۔ آپ کی ساری بے چینیوں کا ازالہ ہو جائیگا۔


آپ افغان صدر اشرف غنی کے رنگ میں کیوں ماہی ٔبے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ بھارتی زبان بولنے والے اشرف غنی کا بھی تو یقیناً یہی دکھ ہے جو اس معاہدے کے بعد امریکی بیساکھیوں کے سہارے کھڑے اپنے اقتدار کا قالین اپنے پائوں کے نیچے سے سرکتا ہوا دیکھ کر اس معاہدے پر واویلا کر رہے ہیں اور بھارتی خوشنودی کی خاطر اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی فکر میں غلطاں ہو گئے ہیں۔ اگر انہیں محض اپنے عیش و عشرت والے اقتدار کی خاطر افغان دھرتی کا پھر سے امن و امان کا گہوارہ بننا قبول نہیں تو انہیں اپنے جہنم کا انتخاب خود ہی کر لینا چاہئے جو ان کی کسی سرکشی پر ان کے لئے امن کی راہ پر آنے والے افغانیوں کے ہاتھوں رونما ہونا اب بعید از قیاس نہیں۔

بے شک یہ معاہدہ امریکی صدر ٹرمپ کی بھی اس ناطے سے کامیابی ہے کہ وہ اس کا کریڈٹ لے کر اگلے امریکی صدارتی انتخاب میں اتریں گے اور امریکی عوام کو اپنے امن کے سفیر ہونے کا مضبوط پیغام دیتے جائینگے۔ شائد اب وہ اسی کریڈٹ کے بل بوتے پر نوبل امن انعام پر بھی اپنا حق گرداننے لگیں مگر اس میں وزیراعظم عمران خاں انکے مدمقابل ہوں گے کیونکہ انکے بنیادی کردار نے ہی امریکہ اور طالبان کے مابین قطر امن معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔ بس ناقدین اور حاسدین ہی اس معاہدے پر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں کہ امن کی بحالی سے پاکستان پر شب خون مارنے کے بھارتی خواب چکنا چور ہوں گے تو مودی سرکار سے لگی ہوئی ان کی دال روٹی بھی چھن جائیگی۔ تو پھر لگے رہو منّا بھائی۔ چاند پر تھوک کراپنے چہرے کو ہی پلید کرو گے۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com