نریندر مودی کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام سے شہرت پانے والی بھارتی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد میں مودی سرکار کی جانب سے ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کا اہتمام کرنا کوئی معمول کا اور امریکی صدر ٹرمپ کی محض پذیرائی کا اہتمام کرنے کا معاملہ نہیں تھا۔ مودی اس ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ رہے اور مسلمانوں کے خلاف اپنے تعصب کی انتہا کر دی۔ انتہاپسند ہندو تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) اور شیوسینا کے غنڈوں نے مودی کی سرپرستی میں ہی گجرات میں مسلم کش فسادات کا آغاز کیا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کو اس ریاست میں گاجر مولی کی طرح کاٹنا ریاستی مودی راج کیلئے فخر کی علامت بن گیا۔ امریکہ نے محض انسانی حقوق کے حوالے سے ان مسلم کش فسادات کا نوٹس لیا اور مودی کے امریکہ میں داخل ہونے پر باضابطہ پابندی لگا دی۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کی اسی بھارتی ریاست میں پذیرائی کرا کے درحقیقت دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمارا تو مسلم دشمنی کا ایجنڈا ہی مشترکہ ہے۔ یقینا اس پیغام کو ہی مؤثر اور ٹھوس بنانے کیلئے ٹرمپ نے احمد آباد کی جلسہ گاہ میں تقریر کرتے ہوئے بطور خاص ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جو انہی کی ایجاد کردہ ہے اور امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں مسلم دنیا پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالتے ہوئے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح ہی استعمال کی تھی اور اس کے تدارک کیلئے مسلم ممالک پر چڑھائی تک کرنے کا بھی عندیہ دے دیا تھا۔ وہ اپنے اس ایجنڈے پر اپنی صدر کی موجودہ ٹرم ختم ہونے تک کاربند ہیں اور امریکی صدر کا اگلا انتخاب بھی اسی ایجنڈے کے تحت لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ چنانچہ احمد آباد کی جلسہ گاہ کو بھی انہوں نے اپنے مسلم کش ایجنڈے کو پھیلانے کیلئے بطور پلیٹ فارم استعمال کیا اور مبینہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو امریکہ اور بھارت کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیکر اسکے تدارک کیلئے اپنی اور مودی کی سوچ اور منصوبہ بندی پر ہم آہنگی کا بھی کھلم کھلا اعلان کر دیا۔
اسی کے تسلسل میں ٹرمپ نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے سدباب کیلئے طے کی گئی اپنی حکمت عملی پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کی بھی تعریف کی اور اپنی آنکھیں نچاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم مودی اور جلسہ گاہ میں موجود ہندو کمیونٹی کو باور کرایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے سدباب کیلئے بہت کچھ کیا ہے اور اس بنیاد پر ہماری پاکستان کے ساتھ آئندہ کیلئے بھی بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ اسی حوالے سے پاکستان کے ساتھ ہماری دوستی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ ٹرمپ کے ان الفاظ پر ہمارے بعض حلقوں کی جانب سے خوشی سے جھوم اُٹھنے کا اہتمام کیا گیا اور مودی سرکار پر اس حوالے سے پوائنٹ سکورنگ کی گئی کہ ٹرمپ نے مودی کی موجودگی میں پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کی تعریف کی جو ہماری بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے جبکہ ٹرمپ کے ان الفاظ پر مودی اور پنڈال میں موجود پاکستان مخالف ہندوئوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
ارے بھلے لوگو! آپ کو اس ساری ساختہ کہانی پر ٹرمپ، مودی گٹھ جوڑ کی جھلک کیوں نظر نہیں آئی۔ آپ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک کے امریکہ پاکستان تعلقات کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیں۔ اسی ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغانستان میں شروع کی گئی اپنے مفادات کی جنگ میں ’’خلوص دل‘‘ کے ساتھ امریکی اتحادی کا کردار ادا نہ کرنے پر مطعون کیا اور خبردار کرتے ہوئے اس نے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کیا پھر اسی ٹرمپ نے آئو دیکھا نہ تائو، پاکستان کی سول اور فوجی گرانٹ روک لی اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرانے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ چنانچہ اس وقت کی حکومت پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے پر ’’نومور‘‘ کا جواب دینے پر مجبور ہوئی اور چین کے ساتھ دفاعی بندھنوں میں بندھنے کا بھی عندیہ دے دیا۔ ٹرمپ نے اس کے جواب الجواب میں بھارت کو تھپکی دے کر اسے علاقے کا تھانیدار بنانے کا گرین سگنل دے دیا۔ ہمارے مہربانوں کو یقینا یاد ہوگا کہ بھارت نے اس دور میں پہلی بار پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کی بڑ ماری اور پھر جاسوسی کیلئے اپنا ڈرون بھی ہماری فضائی حدود میں داخل کر دیا جسے پاک فضائیہ نے مار گرایا۔
پھر جناب! پاکستان امریکہ تعلقات میں آنے والی سردمہری میں برف کیسے پگھلی۔ یہ معاملہ یقینا عمران خان کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ جب طالبان کے زیرحراست ایک امریکی خاتون اور اس کے اطالوی شوہر کو بچوں سمیت بازیاب کرا کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ یہ برف پگھلتے پگھلتے امریکہ کی جانب سے ہمارے لئے ریشہ خطمی تک آگئی کیونکہ ہم طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے ذریعے امریکہ کو افغان جنگ سے خلاصی دلانے کیلئے یکایک کارآمد ہوگئے۔ اسی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان کو خصوصی پروٹوکول کے ساتھ وائٹ ہائوس مدعو کیا گیا اور ٹرمپ کی ’’ٹرمپی چال‘‘ ان کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ دوستی کے ڈنکے بجانے لگی۔
اب ذرا اس سارے پس منظر کو پیش نظر رکھ کر احمد آباد کے جلسہ میں ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کیلئے ادا کئے گئے تعریفی توصیفی کلمات کا جائزہ لیں اور اس پر خوشی سے جھومنے والے ہمارے حلقوں سے پوچھیں کہ ٹرمپ نے یہ تعریف کس تناظر میں کی ہے۔
حضور والا! انہوں نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘کے تدارک کیلئے اپنی اور مودی کی ہم آہنگی کا حوالہ دے کر پاکستان کی تعریف کی کہ اس معاملے میں وہ ہمارے ساتھ پہلے ہی بہت تعاون کر رہا ہے۔ سو یہ تعریف تو مبینہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف ٹرمپ، مودی گٹھ جوڑ کے مطابق دہشت گردی کے سدباب کیلئے پاکستان کی جانب سے بہترین کردار ادا کرنے پر کی گئی ہے۔ اس پر بھلا مودی کو اور پاکستان و مسلم دشمن ہندوئوں کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ انہوں نے تو ٹرمپ کے ان الفاظ کو اپنے لئے ’’آشیرباد‘‘ گردانا اور ان کی تقریر ختم ہوتے ہی دہلی اور دوسرے بھارتی شہروں میں مسلمانوں پر عذاب توڑنے کیلئے کمر کس لی۔
تو بھائی صاحب! دہلی اور دوسرے بھارتی شہروں میں گزشتہ چار روز سے جاری مسلم کش فسادات ٹرمپ کی اس تقریرہی کا شاخسانہ ہے جس پر اب تک تین درجن کے قریب بھارتی مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے جاچکے ہیں اور موٹر وہیکلز سمیت ان کی قیمتی جائیدادیں نذرآتش اور تباہ کی جاچکی ہیں ۔حتیٰ کہ مساجد پر چڑھائی بھی اس ہندو جنونیت کیلئے فخر کی علامت بنا دیا گیا ہے اور ہم ہیں کہ بھارتی مسلمانوں پر عذاب مسلط کرنے کا راستہ صاف کرنے والی ٹرمپ کی اس تقریر پر خوشی سے جھومے جا رہے ہیں۔ مودی کو توٹرمپ کی اس تقریر سے دہرا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ وہ بھارتی ہندوئوں ہی نہیں امریکیوں کے بھی ہیرو بن گئے ہیں کہ اسلامی دہشت گردی کے تدارک کے ایجنڈا میں ٹرمپ نے مودی کو بھی امریکہ کا حصہ دار بنا دیا ہے۔ پھر ذرا سوچئے‘ ٹرمپ کی تقریر پر خوشی سے جھومنے والے ہمارے حلقے بھی کیا ٹرمپ کے اس ایجنڈے کے ساتھ ہی کھڑے ہیں؟ مجھے اس معاملے میں اور کوئی سوال نہیں اُٹھانا۔ ہم ٹرمپ کی تقریر پر اپنی سرخوشی پر اپنے دل کو ہی مطمئن کرلیں تو میرے سارے استفسارات کا جواب مل جائے گا۔ ارے صاحب! مودی کی ہندوگردی پرتو خود بھارتی لیڈروں اور عوام کو قائداعظم کا بیان کردہ دوقومی نظریہ پھر سے اُجاگر ہوتا نظر آرہا ہے مگر ہمیں ٹرمپ، مودی گٹھ جوڑ سے اپنے لئے خوشیوں کا اہتمام کرنے کی سوجھ رہی ہے۔ کیوںحضور والا کیوں؟