اسے بہت جلدی تھی۔ شائد اسے زندگی کی بے ثباتی کا کچھ زیادہ ہی احساس تھا اس لئے ہر کام نمٹانے کی جلدی میں تھا۔ فصیح الرحمان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ بچپن سے جوانی تک کا عرصہ اس نے والدین کے ساتھ دبئی میں گزارا۔ وہیں پر تعلیم حاصل کی اور پھر اس کے والد ملک محمد ارشد ملک واپس آ گئے تو فصیح الرحمان بھی اپنے مستقبل کے سہانے سپنے لئے والد صاحب کے ہمراہ لاہور آ گیا۔ سبزہ زار ڈی بلاک لاہور ان کا نیا مسکن بنا۔ میں بھی ان دنوں سبزہ زار ڈی بلاک میں گھر بنا کر اس میں منتقل ہو چکا تھا۔ بس اکا دکا گھر تھے اور مسائل بے پناہ۔ سلاٹر ہائوس کا تعفن اور پھر ہفتہ وار منڈی مویشیاں ہمارے گھروں کے سامنے خالی پلاٹوں پر ہی لگا کرتی۔ زندگی عاجز آ گئی۔ ماحولیاتی آلودگی اور گندگی کے ڈھیروں نے کھلی فضا میں سانس لینا مشکل بنا دیا۔ میں نے ملک ارشد ، لطیف بٹ، افضل خاں صاحب اور ڈی بلاک کے دیگر معدودے چند مکینوں سے مشاورت کی اور آلودگی کے گڑھ سلاٹر ہائوس اور منڈی مویشیاں کو لاہور سے باہر منتقل کرانے کے لئے کمر باندھ لی۔ ملک ارشد اس حوالے سے بہت جذباتی تھے اور علاقے کے مکینوں سے بھی اُلجھ پڑا کرتے تھے۔ ہم نے سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی تشکیل دی، اسے رجسٹرڈ کرایا اور پھر اس کے پلیٹ فارم پر احتجاجی مظاہروں، جلسوں ، جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مدمقابل ایک بہت بڑا مافیا تھا ، بہت رکاوٹیں بھی پیدا ہوئیں۔ زندگی کو خطرات بھی لاحق ہوئے مگر اپنے عزم میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ میں نے داد رسی کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کر لیا۔ تاریخوں پر تاریخیں مگر اس وقت کی بیوروکریسی ، سیاستدانوں اور سلاٹر ہائوس سے وابستہ مافیا نے عدالتوں کو بھی چکرائے رکھا۔ اس جدوجہد میں ہم بہت کٹھن مراحل سے گزرے مگر علاقے کو صاف کرنے کا بے لوث جذبہ ہم سب کی ہمت بندھاتا رہا۔ ہم نے دس سال تک لاہور ہائیکورٹ میں عدالتی جنگ لڑی، مافیا کی آئے روز کی دھمکیاں برداشت کرتے رہے اور پھر اس جدوجہد میں لاہور بچائو تحریک کی عمرانہ ٹوانہ اور انسانی حقوق کی بعض دیگر تنظیموں کی بھی ہمیں معاونت حاصل ہو گئی اور بالآخر عدالتی جنگ میں مافیا کو مات کھانا پڑی اور عدالتِ عالیہ کے حکم پر 2006ء میں سلاٹر ہائوس اور کیٹل مارکیٹ کی سبزہ زار ڈی بلاک کوٹ کمبوہ سے شاہ پور کانجراں منتقلی ہو گئی۔ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد کا بلاشبہ ایک طویل سفر تھا جس میں سبزہ زار سکیم کے مکینوں نے اپنا جذبہ کبھی کم نہ ہونے دیا اور اس طرح ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی اخوت و اپنائیت کے بندھنوں میں بندھ گئے۔ یہ علاقہ ہمارے لئے ایک خاندان بن گیا جس میں دکھ سکھ کی سانجھ بھی پختہ ہوتی رہی۔
ان دنوں ملک ارشد اکثر اوقات میرے ساتھ فصیح الرحمان کے مستقبل کے حوالے سے بات کیا کرتے تھے۔ اس پر نوعمری میں ہی سنجیدہ پن طاری تھا۔ اس دور میں ہمایوں اختر خاں نے تجارتی سرگرمیوں کی کوریج کے لئے ایک انگلش ہفتہ وار رسالہ نکالا تھا۔ سابق وفاقی وزیر اقبال احمد خاں اور اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کے صوبائی کنوینئر میجر اعجاز احمد خاں فصیح الرحمان کا ننھیال تھے۔ اقبال احمد خاں نے فصیح کو ہمایوں اختر خاں کے پرچے کے ساتھ منسلک کرا دیا مگر فصیح مطمئن نہیں تھا۔ وہ اپنے ابو پر زور دیتا رہا کہ انکل آسی سے کہہ کر مجھے کسی انگریزی اخبار میں رکھوا دیں۔ ملک ارشد صاحب نے اس بارے میں مجھ سے بات کی اور میں نے اپنے ادارے کے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ میں بطور ٹرینی رپورٹر اس کے لئے گنجائش نکلوا دی چنانچہ فصیح نے 1997ء میں ’’نیشن‘‘ کے پلیٹ فارم پر باقاعدہ طور پر پیشۂ صحافت اختیار کر لیا۔ ملک ارشد صاحب بھی اس کے مستقبل سے مطمئن ہو گئے۔ فصیح بلاشبہ بہت باصلاحیت تھا۔ اس نے جلد ہی اس پیشے میں اپنی پہچان اور اپنا مقام بنا لیا وہ یقینا ترقی کی منازل کو جلدی جلدی طے کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اسے ایک دوسرے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ میں جانے کا موقع ملا تو اس نے فیصلہ کرنے میں ہرگز دیر نہ لگائی۔ بس میرے پاس آیا‘ آفر کا بتایا اور پھر میری آشیرباد لیکر دوسرے پلیٹ فارم پر چلا گیا۔ اس کے دی نیوز جوائن کرنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ٹی وی چینلز کا دور شروع ہو گیا اور فصیح الرحمن ’’جیو‘‘ کی پہلی ٹیم کا حصہ بن گیا جس کیلئے بہرصورت اسے لاہور کو خیرباد کہنا پڑا۔ چنانچہ اس نے اگلا پڑائو اسلام آباد میں ڈال لیا۔ اس کی اضطراری طبیعت کو قرار نہیںتھا۔ وہ اپنے مستقبل کے اچھے سے اچھے مواقع کی تلاش میں رہا اور اس طرح وہ ٹی وی چینلز کی بہار میں جیو سے دنیا اور پھر ایکسپریس کا ہو گیا۔ اسلام آباد میں کرائے کا گھر لیا اور والدین کو بھی لاہور چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارے بھائی ملک ارشد اور بہن شمیم کو مجبوراً اپنے اکلوتے بیٹے کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑا اور سبزہ زار ڈی بلاک کا مکان فروخت کرکے وہ بھی فصیح کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہو گئے۔
فصیح نے آگے بڑھنے کی لگن میں کئی بار بیروزگاری بھی بھگتی مگر اپنے پائوں کبھی ڈگمگانے نہ دیئے البتہ ہمارے باہمی رابطے ضرور ٹوٹ گئے۔ بس کبھی ہمارا اسلام آباد جانا ہوتا یا ان کا لاہور آنا ہوتا تو میل ملاقات کی چند ساعتیں نکل آتیں۔
کچھ عرصہ قبل فصیح الرحمن نے ’’دی نیشن اسلام آباد‘‘ کو بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر جوائن کیا تو پھر دفتری حوالوں سے بھی ہمارے رابطے قائم ہو گئے مگر یہ روابط بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکے اور فصیح کو ’’نیشن‘‘ سے سبکدوش ہونے کے بعد کچھ عرصہ بیروزگاری کا گزارنا پڑا مگر اس نے اپنی متحرک زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں شریک ہوکر اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی اس نے ڈیلی ٹائم کو جوائن کیا تھا اور اس عرصے میں وہ یکے بعد دیگرے اپنے والد اور والدہ کے انتقال کا صدمہ برداشت کر چکا تھا جن کی میتیں اٹھا کر وہ لاہور لایا اور آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا۔ دو سال قبل اس کی بڑی بہن انیقہ بھی ہمیشہ کیلئے داغ مفارقت دے گئی، اس کی تدفین کی رسومات کے موقع پر فصیح سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت لاغر دکھائی دیا۔ دیابیطس کے مرض نے اسے نچوڑ دیا تھا مگر وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے اچھے مستقبل کیلئے کام پر جُتا رہا۔ اس دوران ہماری میڈیا انڈسٹری شدید اقتصادی بحران نے دوچار ہوئی تو فصیح کیلئے کار زار حیات اور بھی مشکل ہوگئی۔ آج یہی چیلنج میڈیا سے وابستہ افراد کیلئے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے جس نے میرے بیٹوں جیسے دوست فصیح الرحمن کو بھی گزشتہ روز نگل لیا ہے۔ بدھ کی صبح اسے گھر میں ہی اچانک دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچنے تک اس کی زندگی نے اس کے جسدخاکی کے ساتھ اپنا بندھن توڑ دیا اور آج وہ لاہور میں اپنے والدین کے پہلو میں آسودہ خاک ہوچکا ہے۔ بس یہی زندگی کی ساری حقیقت ہے، ہم لہوولعب میں ڈوبے آسودہ زندگی کے بڑے بڑے منصوبے بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ دنیاداری کے بکھیڑوں میں خود کو الجھائے رکھتے ہیں مگر سانس نکلتے ہی سب کچھ مٹی کا ڈھیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے دوست ملک ارشد کے خاندان میں آج صرف ان کی ایک بیٹی زندہ ہے۔ خدا اس کی عمر دراز کرے مگر والدین‘ بہن اور بھائی کی وفات کے صدمات اسے زندگی کی آسودگیوں سے بھلاکہاں ہمکنار ہونے دیں گے۔ میری اور میری اہلیہ ثمینہ سعید کی تمام تر دعائیں ملک ارشد مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی فریحہ کی زندگی کی خوشیوں کی متمنی ہیں۔ خدا ہمیں دنیاوی لوبھ سے ہٹا کر مٹی کی محبت کے ساتھ وابستہ کر دے۔ اناللہ و انا اللہ راجعون۔ الوداع فصیح، الوداع۔…؎
چوکٹھے قبر کے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
٭…٭…٭