یہ -26 نومبر 2012ء کا دن تھا جب بھارت کے ایک سابق بیوروکریٹ اروند کجریوال نے اپنے چار ساتھیوں یوگندرا یادیو، پرشانت بھوشن، شازیہ علمی اور آنند کمار کے ہمراہ ایک طویل پریس کانفرنس سے خطاب کر کے بھارت کے اصل مسئلہ کرپشن کو اجاگر کیا‘ اس وقت کی حکمران کانگرس اور کرپشن کی لت میں مبتلا دوسرے حکمران طبقات اور بیوروکریٹس کے لتے لئے اور پھر اس ناسور سے بھارت دیش کو نجات دلانے کے لئے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی تشکیل کا اعلان کیا، ان کی یہ پریس کانفرنس پاکستانی ٹی وی چینلز نے بھی کور کی اور اتفاق سے اس روز کجریوال کی یہ ساری پریس کانفرنس میں نے خود ملاحظہ کی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی شخصیت اور باڈی لینگویج کا بھی مشاہدہ کرتا رہا۔ چونکہ عمران خاں بھی کرپشن فری سوسائٹی کا نعرہ لگا کر پاکستان کے سیاسی میدان کارزار میں داخل ہوئے تھے اور 2012ء میں ان کی سیاست و مقبولیت مقام عروج پر پہنچ چکی تھی اس لئے مجھے کجریوال میں بھی عمران خاں کی جھلک نظر آئی اور یہ احساس بھی شدت سے اجاگر ہوا کہ ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اور بیوروکریٹس نے ایک جیسے ہی انداز حکمرانی کے تحت کرپشن کلچر کو فروغ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنے ریاستی اور ادارہ جاتی اختیارات کو استعمال کیا ہے جنہیں اپنے اپنے عوام کو ہر انتخاب کے موقع پر مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر بس بے وقوف بنانا ہی آتا ہے۔ کجریوال نے اپنی پریس کانفرنس میں جس طرح اپنے ملک کے حکمران طبقات کا کچا چٹھہ کھولا ، مجھے اس وقت یقین ہو گیا کہ بھارتی عوام موروثی سیاست سے چھٹکارا پا نے کے لئے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے -26 نومبر 2012ء کو اپنی پارٹی تشکیل دی اور دسمبر 2013ء کے ریاستی انتخاب میں دہلی کی 70 میں سے 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ یہ ان کے لئے یقیناً خوشبو کی طرح پذیرائی والی بات تھی کہ اپنی پارٹی کے قیام کے ایک سال کے عرصہ میں وہ دہلی میں حکومت سازی کی پوزیشن پر آ گئے، حکومت تشکیل دینے کے لئے انہیں 36 نشستوں کی سادہ اکثریت کی ضرورت تھی جس کے لئے انہیں کانگرس آئی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا اور پھر حکومت تشکیل دیتے ہی وہ کرپشن کے تدارک کے لئے اپنا وضع کیا گیا ’’لوک پال بل‘‘ منظور کرانے کے لئے دہلی اسمبلی میں سرگرم ہو گئے مگر ان کی اتحادی کانگرس آئی ہی اس بل کے آڑے آئی اور کجریوال کو متذکرہ بل کے ذریعے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے -28 دسمبر 2013ء کو دہلی کے وزیر اعلیٰ کا حلف لیا تھا اور بل منظور نہ کرا پانے کے باعث اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے وہ -14 فروری 2014ء کو اپنے اقتدار کے صرف 49 روز بعد وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہو گئے اور اقتدار چھوڑ کر عوام کے پاس واپس آ گئے۔
کجریوال کی دھان پان سی شخصیت کا جائزہ لیں تو وہ چہرے مہرے اور لب و لہجے سے کسی صورت کروفر والے سیاستدان نظر نہیں آتے۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنی رونمائی بھی ایک عام انسان کی طرح کرائی ۔ سادہ لباس، پائوں میں قینچی چپل اور عام فہم زبان کا استعمال ۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران بھی اپنی وضع قطع تبدیل نہیں کی۔ انہیں کبھی کلف لگے کپڑے، اجلے لباس، ڈیزائن دار واسکٹ اور چمکیلے جوتوں کے ساتھ نہیں دیکھا گیا ، بالکل عام طبقات کے انسانوں جیسے انسان ، کسی رکھ رکھائو اور پروٹوکول کی عادت بھی نہیں اپنائی۔ میں نے اپنے تجسّس کی بنیاد پر ان کی شخصیت کو گوگل پر کھنگالا تو اکیاون سالہ کجریوال کی شخصیت کی کھلتی ہوئی پرتوں سے میرے لئے اپنے ملک کے روائتی سیاستدانوں کے ساتھ ان کا موازنہ بھی مشکل ہو گیا۔ انہوں نے انڈین ریونیو سروس میں بھی ایک دیانتدار افسر کی شہرت پائی اور اپنے محکمے میں ہی کرپشن کے تدارک کی مہم کا آغاز کیا چنانچہ ان کے بے لوث کام پر 2006ء میں انہیں کیش ایوارڈ رامون سے نوازا گیا ۔ انہوں نے اپنے ایوارڈ کی ساری رقم کرپشن فری سوسائٹی کے لئے آگاہی کی مہم چلانے والی این جی او پبلک کارنر ریسرچ فائونڈیشن کو عطیہ کر دی اور پھر جوائنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے منصب سے استعفیٰ دے کر اسی این جی او کے ساتھ کرپشن کے تدارک کی مہم کا ایک کارکن کی حیثیت سے باقاعدہ آغاز کر دیا جو بالآخر -26 نومبر 2012 ء کو ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی تشکیل پر منتج ہوئی۔
کجریوال نے آٹھ سال کے مختصر عرصہ میں ریاستی انتخابی سیاست میں جو کامیابیاں سمیٹی ہیں اس کا تقابل بھارتی روائتی سیاستدانوں ہی نہیں، دنیا کے کسی بھی دوسرے سیاستدان کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ کرپشن فری سوسائٹی کے اپنے مشن میں ان کا عزم اتنا راسخ اور عوام پراعتماد اتنا مضبوط ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت میں ’’لوک پال بل‘‘ منظور نہ ہونے پر اقتدار سے باہر آنے میں ایک لمحہ کو بھی توقف نہ کیا اور پھر فروری 2015ء کے ریاستی انتخاب میں تین کروڑ آبادی والے بھارتی وفاقی دارالحکومت دہلی کے عوام نے دہلی اسمبلی کی 70 میں سے 67 نشستوں پر انہیں سرفراز کر دیا چنانچہ -14 فروری 2015ء کو وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے اور انہیں اپنی منشاء کی قانون سازی کے مکمل اختیارات بھی مل گئے۔ یہ اختیارات انہوں نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے ہرگز استعمال نہیں کئے اور صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی ان کا مطمعٔ نظر رہا چنانچہ انہوں نے دہلی کے پسماندہ عوام کو اوپر لانے کے لئے مثالی قوانین لاگو کئے۔
یقیناً یہ فلاحی ریاست کا عملی نمونہ ہے کہ دہلی کی ریاست کے عوام کو ماہانہ دو سو یونٹ بجلی ، 20 ہزار لٹر پانی، خواتین کے لئے میٹرو بس ، سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعلیم اور سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی نہیں، مکمل طور پر علاج معالجہ کی مفت سہولتیں میسر آئیں۔ یقیناً اس ریاست کے عوام بھی ناشکرے نہیں چنانچہ انہوں نے کجریوال کو سرآنکھوں پر ہی بٹھائے رکھا اور -8 فروری 2020ء کے ریاستی انتخاب میں حکمران بی جے پی اور سابق حکمران کانگرس آئی کے مقابل 70 میں سے عام آدمی پارٹی کو پھر 63 نشستوں پر سرفراز کر دیا۔ چنانچہ آج کجریوال دہلی کی وزارت اعلیٰ کا تیسری بار حلف اٹھا چکے ہیں۔ بے شک وہ ایک بھارتی ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ ریاست بھارت کا وفاقی دارالحکومت ہے جہاں انہی کا سکّہ چل رہا ہے تو جناب! یہ ہے فلاحی ریاست تشکیل دینے کا حقیقی جذبہ۔ ہم ان کا کس برتے پر اپنی قیادتوں کے ساتھ موازنہ کریں۔ عمران خاں نے بے شک کرپشن فری سوسائٹی کا نعرہ لگایا اور اس نعرے کی بنیاد پر عوام میں پذیرائی بھی حاصل کر لی۔ انتخابی مہم کے دوران وہ یہ اعلانات بھی کرتے رہے کہ انہیں سہاروں والے اقتدار کی ہرگز ضرورت نہیں۔ انہیں انتخابات میں سنگل میجارٹی حاصل نہ ہوئی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھنا قبول کر لیں گے مگر اقتدار کے لئے کسی کا سہارا نہیں لیں گے مگر انتخابات کے بعد انہوں نے محض اقتدار کی خاطر کتنے سہارے لئے؟ جبکہ آج وہی پتّے انہیں ہوا دیتے بھی نظر آتے ہیں اور وہ اقتدار ختم ہونے کے دھڑکے سے ان کا دامن تھامے رکھناہی اپنی مجبوری بنائے ہوئے ہیں۔ اور پھر فلاحی ریاست والے معاملات کا کیا کہیئے۔ عوام پر مہنگائی کے عفریت چھوڑنے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی گئی۔ نت نئے ٹیکسوں سے ان کا کچومر نکال دیا گیا ہے اور لاکھوں نئے روزگار نکالنے کے وعدے کرتے کرتے لاکھوں روزگار والوں کو بے روزگار کر دیا گیا ہے۔ اس فلاحی مملکت کے وزراء عوام کو باور کراتے ہیں کہ روزگار دینا حکومت کا کام نہیں اور وزیر اعظم خود یہ کہہ کر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کرنے کا عندیہ دیتے ہیں کہ سرکاری ملازمت تو آدمی کو سہل پسند اور نکما بنا دیتی ہے۔ آج کئی ملیں ، فیکٹریاں، کارخانے اور دوسرے کاروباری ادارے حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں بند ہو کر بے روزگاری کے سونامی لا چکے ہیں اور جو ملازمتیں موجود ہیں وہ بھی قطعی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسی طرح سرکاری سطح پر تعلیم اور علاج کے معاملات بھی اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ اب فلاحی ریاست کا تصور ہی شرمانے لگا ہے۔ جناب! کرپشن فری سوسائٹی تشکیل دینی ہے اور ریاست مدینہ والی فلاحی ریاست عملی طور پر بنانی ہے تو آپ کو خود کو کجریوال کے قالب میں ڈھالنا ہو گا۔ آپ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں اور پھر کجریوال کے اقتدار کے ساتھ اپنا موازنہ کریں۔ سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ آپ کجریوال کے طرز حکمرانی کی عملی مثال بن جائیں، عوام آپ کو بھی قطعی اور اٹل اکثریت سے سرفراز کر دیں گے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔
٭…٭…٭