بس آگاہ رہئیے جناب!
Feb 14, 2020

قومی معیشت کے سدھار کے لئے حکومت کی کوششوں اور خود وزیر اعظم عمران خاں کی نیک نیتی پر تو مجھے کوئی شک و شبہ نہیں۔ اگر عمران خاں نے 23 سال قبل ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے اور پدرم سلطان بود کی شاہکار موروثی اقتداری سیاست سے ملک اور عوام کو خلاصی دلانے کے لئے سیاست کی خارزار وادی میں قدم رکھا تھا تو یقیناً ان کے پیش نظر ایک واضح نصب العین تھا اور وہ تھا قائد کے پاکستان سے قوم کو سرفراز کرنا جو قائد کی وفات کے بعد ہندو اور انگریز کے ٹوڈی جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور مفاد پرست سیاستدانوں نے چھین لیا تھا اور ملک پر وہی استحصالی ، طبقاتی نظام مسلط کر دیا تھا جس سے خلاصی کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کو قائد اعظم کی قیادت میں پرعزم تحریک چلانا پڑی اور بھاری جانی اور مالی قربانیاں دے کر ملک خداداد پاکستان کی شکل میں اپنے لئے ایک الگ خطۂ ارضی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

قائد کے ذہن میں تو یقیناً تعمیر و استحکام پاکستان کا ایک واضح نقشہ موجود تھا جو بلاشبہ ریاست مدینہ جیسی جمہوری، اسلامی، فلاحی ریاست سے مطابقت رکھتا تھا اور اس ریاست کے دستور کی بھی انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر واضح جھلک دکھا دی تھی کہ ہمارا دستور وہی ہے جو ذات باری تعالیٰ نے کتابِ ہدایت قرآن مجید کی شکل میں پہلے ہی ہمارے لئے گائیڈ لائین کے طور پر نازل فرما دیا ہوا ہے۔ بے شک اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کا مقصد متعصب اور جنونی ہندو سے مذہبی آزادی کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ ہندو ساہوکار کے استحصالی اقتصادی نظام سے خلاصی پانا بھی مقصود تھا تاکہ مملکت خداداد کے باسی ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفکرات سے بے نیاز ہو کر آبرومندی کے ساتھ کاروبار کر سکیں، روزگار اپنا سکیں اور پراعتماد و خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔ اگر قائد نے ہندو اور انگریز کی ملی بھگت سے معیشت کو انتہائی کمزور کر کے اور کاٹ پیٹ کر دئیے گئے پاکستان کو دس گیارہ ماہ کے مختصر عرصہ میں اپنے پائوں پر کھڑا کر کے دکھایا اور جنونی ہندو لیڈر شپ کے چند ماہ میں ہی پاکستان کے نہ سنبھالے جانے کے باعث واپس ان کی جھولی میں آ گرنے کے خواب چکنا چور کر دئیے تھے تو بخوبی تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ قیام پاکستان کے بعد مزید کچھ عرصہ حیات رہتے تو اقوام عالم میں ایک آزاد ، خودمختار اور خوشحال ملک کی حیثیت سے پاکستان کس بلند مقام تک جا پہنچتا۔

قائد کے بعد تو ہماری تاریخ میں ہزیمتیں ہی ہزیمتیں ہیں۔ اقبال کے خواب والی سلطانیٔ جمہور کو پنپنے نہ دینے کی ہزیمتیں، ماورائے آئین اقدام والوں کی ننگی آمریتوں کی شکل میں مسلط کی گئی ہزیمتیں، اپنوں ہی کی سازشوں سے ملک کے دولخت ہونے کی ہزیمتیں اور پھر ملک کی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑوانے کی ہزیمتیں۔ ہماری آزادی، خود مختاری اور آبرومندی کو تو پل پل جھٹکے لگتے رہے ہیں۔ قومی خودداری تو لمحہ لمحہ رگڑے کھاتی رہی ہے اور اسی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے ہم 70 دہائیوں کا سفرطے کر گئے۔ اسکے دوران عالم پناہ مزید قہرآلود ہوتے رہے۔ عالیجاہ رعایا کو نابود کرنے کے مزید عزم باندھتے رہے اور پھر سلطانیٔ جمہور میں بھی جمہور ہی راندۂ درگاہ بنتے رہے۔ حبیب جالب بے چارہ پکارتا ہی رہ گیا کہ…؎

کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے

ملک کے مجبور و مقہور عوام کو تو یقیناً ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو ظلم و جبر اور اقتصادی ناہمواریوں والے استحصالی نظام سے انہیں خلاصی دلا کر انہیں قائد کا پاکستان واپس لوٹانے کا چارہ کر سکے۔

آپ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو عمران خاں اس حوالے سے خوش قسمت نظر آئیں گے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں تبدیلی کا بگل بجایا جب استحصالی سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاسی قیادتوں سے نکو نک آئے عوام اس سے خلاصی پانے کے راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے کرپشن فری سوسائٹی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اس کیلئے پہلے سے آمادہ عوام نے انہیں لبیک کہتے ہوئے اپنے سہانے سپنوں کی تعبیر بنا لیا۔ بے شک عمران خاں نے ریاست مدینہ والے جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو ہی اپنے اقتدار کی بنیاد بنایا اور ’’سٹیٹس کو‘‘ والوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے جس میں انہیں دوسرے ریاستی اداروں کو بھی مکمل تائید و حمایت حاصل رہی مگر شائد کہیں پر کوئی ’’مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ رہ گیا تھا کہ ریاست مدینہ والے سارے دعوے بس ہوا میں ہی تحلیل ہوتے رہے اور فلاحی ریاست کے تصور میں بندگان خدا عام عوام اقتصادی پسماندگی کی آخری حدوں کو چھوتے خط غربت سے تیزی سے نیچے گرتے رہے۔ عوام پر ٹوٹنے والے اس قہر مزّلت کا پس منظر روٹی ، روزگار ، غربت مہنگائی کے گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے وہی مسائل ہیں جن سے خلاصی دلانے کا ماٹو لے کر عمران خاں ان کے پاس گئے اور پھر ان کا مینڈیٹ حاصل کر کے اقتدار میں آئے۔ اور جناب ! ان سارے مسائل کے گھمبیر ہونے کا پس منظر ہمیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف ) کی ناروا شرائط ہیں جو آج پہلے سے بھی زیادہ فرمانبرداری کے ساتھ سرتسلیم خم کئے من و عن قبول کی جا رہی ہیں۔

یہ محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ مسلمہ عالمی اور قومی اداروں کی ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ تیار کی جانے والی رپورٹیں کہہ رہی ہیں کہ موجودہ دور کے ایک سال میں مہنگائی نے ساری حدیں عبور کر لی ہیں اور آئندہ سال دو سال میں بھی مہنگائی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اسکے برعکس آئی ایم ایف کی ہر قسط کے عوض نئی شرائط آئیں گی تو ان کی بنیاد پر لگنے والے نئے ٹیکس اور بڑھائی جانیوالی بجلی ، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں راندۂ درگاہ عوام کے ہاتھ پائوں باندھ کر اور کند چھری کے ساتھ ذبح کر کے ان سے وصول کی جائیں گی۔

تو جناب۔ مہنگائی میں کمی لانے کے وزیراعظم عمران خاں کے تفکر و تجسس اور انکے اعلان کردہ اقدامات سے تو زخموں پر پھاہے رکھے جاتے نظر نہیں آ رہے اور گھن چکر ایسا ہے کہ کہیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ریلیف دیا جاتا ہے تو اس فارمولے کے لاگو ہونے سے پہلے ہی اس کے ممکنہ ثمرات متعلقہ اشیاء کے نرخوں میں اضافہ کر کے منہا کر لئے جاتے ہیں۔ پھر آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ ریاست مدینہ کے تصور والی فلاحی ریاست پر بھی راندۂ درگاہ عوام کا مان ٹوٹ گیا تو یہ کس انقلاب کی نوید بنے گا اور عالیجائوں، عالم پناہوں، ناخدائوں اور عیش و طرب میں ڈوبے سارے ’’تجمل حسین خانوں‘‘ پر کیا حشر ڈھائے گا، بس آگاہ رہئیے اور بچائو کی سبیل کر لیجئے اس وقت سے جب راج کریگی خلق خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com