’’اتنے نہ در بنائیے کہ دیوار گر پڑے‘‘
Feb 07, 2020

سوشل میڈیا نے جہاں بہت سی سماجی اور اخلاقی برائیوں کو جنم دیا ہے وہیں سوشل میڈیا عالمی برادری کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے اور ایک دوسرے کے سنجیدہ مسائل سے آگاہی کا ذریعہ بھی بنا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے کی پل پل کی خبر انٹرنیٹ کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے جس سے اپنے معاملات کا موازنہ کرنا اور کتھارسس کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ان دنوں بھارت کی دہلی سٹیٹ کے انتخابات کی مہم جاری ہے۔ غالباً کل -8 فروری کو پولنگ ہے۔ اس مہم میں دہلی کی حکمران عام آدمی پارٹی تو عوامی ایشوز کو اجاگر کرنے کے معاملہ میں خاصی ’’ماٹھی‘‘ نظر آتی ہے اور وزیراعلیٰ کجریوال خود بہت کم ہی اپنے امیدواروں کے انتخابی جلسوں میں آئے ہیں مگر سابق حکمران کانگرس آئی کی نوجوان قیادت پریانکا اور راہول گاندھی نے انتخابی میدان جمایا ہوا ہے جنہوں نے اپنی توپوں کے دہانے دہلی کی کجریوال سرکار ہی نہیں، بھارت کی مودی سرکار کی جانب بھی پورے زور شور کے ساتھ کھول رکھے ہیں۔


گزشتہ روز سوشل میڈیا پر مجھے دہلی کے ایک انتخابی جلسے کی ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا جو میں نے بھارتی کانگرس کی نوجوان قیادت کے اپنی سیاسی قیادتوں کے ساتھ موازنے کیلئے راہول اور پریانکا کی تقاریر سمیت پوری کی پوری دیکھی اور مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ نہرو خاندان کے یہ دونوں نوجوان پارٹی قائدین اپنے ملک اور عوام کے متعلقہ ایشوز کا نہ صرف مکمل ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان کا اظہار کیلئے زبان و بیان کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں۔ پھکڑ پن سے کام نہیں لیتے۔ عامیانہ زبان استعمال نہیں کرتے۔ اپنی مخالف حکومتوں پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں تو منطق اور دلیل کے ساتھ جبکہ سنجیدگی اور متانت انکے چہروں سے ٹپکتی نظر آتی ہے۔ اس جلسے میں ان دونوں نے ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ نریندر مودی اور کجریوال کے عوام سے کئے گئے وعدوں اور حکومت میں آنے کے بعد ان پر عملدرآمد کا کچا چٹھہ کھولا اور پھر کانگرس آئی کے دور کا انکے ساتھ موازنہ کیا۔


انکی تقاریر سے ہی مجھے بھی یہ مکمل آگاہی ہوئی کہ بھارتی جنتا بھی مودی سرکار کی پیدا کردہ بے روزگاری اور مہنگائی سے عاجز آئی ہوئی ہے جس کی ترجمانی کرتے ہوئے پریانکا اور راہول نے نریندر مودی اور کجریوال کی حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے مہذب لہجے میں خوب درگت بنائی۔ انکے بقول مودی نے اپنے پہلے انتخابات کی مہم کے دوران جنتا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینگے مگر آج انکے اقتدار کا چھٹا سال شروع ہو چکا ہے، جنتا کو نوکریاں تو کیا ملتیں، ان کے پہلے موجود روزگار بھی ختم ہو گئے ہیں اور اب یہی مودی انہیں کہہ رہے ہیں کہ انکے پاس کوئی نوکریاں نہیں ہیں، جنتا بھوکی مررہی ہے، خودکشیوں پر اتر آئی ہے مگر مودی جی انکے اصل ’’مدعا‘‘ پر آنے کے بجائے جنتا میں مذہبی بنیادوں پر پھوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ سیکولر بھارت میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور منافرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ اقلیتوں کو ہندوستان سے دھکیل رہے ہیں اور پاکستان کیخلاف محاذ گرما رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اقتصادی مسائل پر مضطرب جنتا کو جنگ و جدل کے راستے دکھا کر اپنے لئے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی مفاد پرستانہ سیاست کر رہے ہیں جنہیں ملک اور عوام کے مفادات سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔


یقیناً آبادی کے تناسب سے انکے انتخابی جلسوں میں بھی ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں جو اپنی اپنی پارٹی قیادتوں کا دم بھرتے ہیں اور انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں مگر کانگرس آئی کی نوجوان قیادت اپنے ووٹروں کو مخالفین کیخلاف مشتعل کرنے والی تقاریر کے بجائے انکے اصل ’’مدعا‘‘ کو فوکس کرتی ہے اور پھر موازنے کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیتی ہے۔ مجھے بھی کانگرس آئی کے اس انتخابی جلسے کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے کا موقع ملا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے مسائل تو ایک جیسے ہی ہیں اور دونوں ممالک کے حکمرانوں کے لچھن بھی یکساں ہیں۔ آج پاکستان کے عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں وہ نئے پاکستان والے حکمرانوں کی اقتصادی اور مالی پالیسیوں کا ہی پیدا کردہ ہے جنہوں نے کرپشن ، مہنگائی، بے روزگاری سمیت ہر برائی کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر عوام کو اس دلدل سے نکالنے کے بلند بانگ دعوے کئے۔ عوام کو لا انتہاء ٹیکسوں اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے بچانے کی نوید سنائی اور دشنام طرازی کے کلچر کو فروغ دے کر انتخابی سیاست کا نقشہ ہی بدل ڈالا مگر اقتدار میں آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کے معاملہ میں انکے رویے اور لہجے میں بے اعتنائی والی تبدیلی درآئی چنانچہ مودی کی طرح آج ہمارے حکمران بھی عوام کو یہی باور کرا رہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی نوکریاں موجود نہیں اور نوکریاں دینا تو حکومت کا کام ہی نہیں ہے۔ آج وہی آئی ایم ایف ہے جس کی شرائط کے تابع ہماری معیشت ڈوب رہی ہے اور عوام کے پائوں میں زنجیر باندھ کر انہیں غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے عفریت کے آگے پھینکا جا رہا ہے اور ان کے دماغوں سے خودداری کے کیڑے چن چن کر نکالے جا رہے ہیں۔ یہ تو مودی سرکار اور ہماری تبدیلی سرکار کا کمال کا یکساں ایجنڈا ہے۔ مودی نے اپنے خلاف عوامی اضطراب کا علاج سیکولر بھارت کو جنونی ہندو ریاست میں تبدیل کرکے اور پاکستان کے ساتھ جنگ کا محاذ گرم کرکے نکالا ہے جبکہ ہمارے دبنگ قائد عمران خان نے عوام کی توجہ انکے گوناگوں مسائل سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن اور دوسرے تمام حکومتی مخالفین کو ’’دھررگڑا‘‘ کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس پالیسی کے تحت اتنی منافرت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے لوگ ایک دوسرے کیساتھ ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہ ہوں۔


اگر تو اس پالیسی کا نتیجہ سوسائٹی کے سدھار کی صورت میں نکلا ہوتا، فی الواقع کرپشن فری سوسائٹی کی بنیاد رکھی جاچکی ہوتی اور ریاست مدینہ کے تصور والی فلاحی ریاست کے ثمرات عوام تک انکے گوناگوں مسائل میں ریلیف کی صورت میں پہنچ رہے ہوتے تو لوگ پرانے پاکستان کو بھول کر نئے پاکستان کے ڈنکے بجا رہے ہوتے مگر ریاستی مملکتی معاملات تو سارے سابقین والے ہی چل رہے ہیں اور گورننس کے معاملات میں بھی وہی اک چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے تو جناب پھر کس کے گھر جائیگا سیلاب بلا میرے بعد۔ آج راہول اور پریانکا بھی مودی سے پرانا بھارت واپس لوٹانے کا تقاضا کر رہے ہیں اور نئے پاکستان نے ہم عوام کو بھی راندہ درگاہ بنا کر پرانے پاکستان کے تقاضے پر مجبور کر دیا ہے۔


اور پھر عوام کو بخوبی یاد تو ہوگا کہ ہمارے قائد عمران خان نے مودی کی دوسری ٹرم کیلئے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی کی بھی اس لئے تمنا کی تھی کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے تو اس سے مسئلہ کشمیر کا حل آسان ہو جائیگا۔ مودی نے دوسری ٹرم کے اقتدار پر آتے ہی مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرکے اور کشمیریوں کو جان لیوا کرفیو کے ذریعے انکے گھروں میں محصور کرکے اور پھر پاکستان کے خلاف سرحدی محاذ گرماکر مسئلہ کشمیر کا جو حل نکالا ہے، کیا ہماری قیادت کو یہی حل مقصود تھا۔ آج پوری دنیا مودی سرکار پر تھو تھو کر رہی ہے اور اس فضا میں ہم بطور قوم یکجہت ہو کر جنونی ہندو کی اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور لگا کر اس میں سے کشمیریوں کی آزادی کا راستہ نکال سکتے ہیں مگر ہمیں تو آج بھی بس اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے سے غرض ہے۔ حضور کچھ ملک کی فلاح و بقاء کا سوچ لیجئے۔ عوامی اضطراب کا مداوا انکے روٹی روزگار کے مسائل عملی اقدامات کے ذریعے ختم کرکے کیجئے اور خود کو مودی کی ڈگر پر مت چلائیے۔ عملیت پسندی کی طرف آئیے اور تازہ ہوا کے شوق میں اتنے نہ در بنائیے کہ دیوار گر پڑے۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com