ماشاء اللہ ہمارے وزیر اعظم اتنے معروف و مقبول ہیں کہ سپرپاور کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی انہیں عزیز رکھتے ہیں اور انکی دوستی پر اعلانیہ فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ عالمی اجتماع کے موقع پر وزیر اعظم عمران خاں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوران ملاقات خوشگوار لہجے میں خندہ پیشانی، ناچتی آنکھوں اور دمکتے گالوں کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کرتے ہوئے یوں باہم شیر و شکر نظر آئے جیسے وہ ہمجولی رہے ہوں اور ملاقات کے اس موقع سے باہمی اظہار یکجہتی کیلئے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں۔ ہمجولی باہم ملتے ہیں تو یارانِ طرح دار کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ٹھٹھہ مذاق کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کی یادیں بھی تازہ کرتے ہیں۔ مجھے عمران خاں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین اقتدار سے پہلے کے بے تکلفانہ تعلقات کے بارے میں تو کوئی علم نہیں ہے البتہ ان کی ڈیووس والی ملاقات انکی دیرینہ بے تکلفانہ دوستی کی ہی عکاسی کر رہی تھی۔ مگر اس سے بھی کہیں زیادہ بے تکلفانہ دوستی ٹرمپ کی ہمارے موذی دشمن مودی کے ساتھ ہے تو پھر جناب ’’یہ تکلف ، یہ تکلّم تیری عادت ہی نہ ہو۔‘‘
ٹرمپ، عمران ملاقات میں یہ تکلف اور تکلم دو آتشہ اس لئے نظر آیا کہ دوطرفہ تھا اور دونوں کو لاحق اپنے اپنے خطرات کا غم غلط کرنے کیلئے اختیار کیا گیا نظر آتا تھا۔ یقیناً ٹرمپ پر ایسا جملہ بے تکلفی میں ہی کسا جا سکتا ہے کہ اب ہم آپ کی جنگ کبھی نہیں لڑیں گے۔ وزیر اعظم عمران خاں کا یہ فقرہ ممکنہ امریکہ ایران جنگ کے حوالے سے تھا ، مگر اس فقرے میں انہیں افغان جنگ میں پاکستان کی امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے والی غلطی بھی یاد دلا دی گئی اور ٹرمپ بس کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالث بننے کی پیشکش کا ہی اعادہ کرتے رہ گئے۔ ان کا صرف ایک ذومعنی فقرہ ان کے ساتھ وزیراعظم عمران کی بے تکلفی پر حاوی ہو سکتا ہے کہ ہم کچھ سرحدوں پر بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔ اگر یہ سرحدیں پاکستان کے ساتھ منسلک ہیں تو ان میں افغانستان اور بھارت کے علاوہ ایران کی سرحدیں بھی شامل ہیں اور سردست امریکہ کا ان سرحدوں کے ساتھ ہی معاملہ ہے۔ اس لئے کھوج لگانے والے جانیں کہ ٹرمپ کے اس فقرے کا کیا مفہوم اور کیا پس منظر ہو سکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے تو انہیں دو ٹوک باور کرا دیا ہے کہ اب ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ جب ’’کھوجی‘‘ اس فقرے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو پھر ہمیں بھی اپنے وزیراعظم کے دو ٹوک اعلان کے حوالے سے کچھ قیافے لگانے کی سہولت مل جائیگی۔ سردست تو اس بے تکلفانہ ملاقات میں ایک دوسرے کو درون خانہ لاحق جن ممکنہ خطرات اور دکھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیا گیا ہوگا وہ اتھل پتھل والے خطرات اور ایک جیسی آنچ دینے والے دکھ ہی ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو آج امریکی ایوان نمائندگان میں مواخذے کی تحریک کا سامنا ہے جس کیلئے جیوری کے ارکان نے مواخذے کی کارروائی میں مکمل غیر جانبدار رہنے کا حلف اٹھا کر اس کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ یہ تحریک عین اس وقت شروع ہوئی ہے جب ٹرمپ کی جانب سے آئندہ نومبر میں ہونیوالے امریکی صدارتی انتخاب میں دوبارہ امیدوار بننے کا عندیہ دیا جا چکا تھا۔ یہ تحریک کب تک چلتی ہے اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ یہ تو بعد کی بات ہے مگر ٹرمپ کے سر پر سنگین خطرات کی تلوار تو ابھی سے لٹک گئی ہے، بے شک ٹرمپ مواخذے کی اس تحریک کو امریکی جمہوریت کے ساتھ بھونڈے مذاق سے تعبیر کر رہے ہیں اور اسے ری پبلکن مخالف ڈیموکریٹس کی سپیکر ننسی پلوسی کی کسی سازش سے تعبیر کر رہے ہیں مگر وہ اس تحریک پر کارروائی روکنے کے تو ہرگز مجاز نہیں۔ اس لئے انہیں اس تحریک کا سامنا بھی کرنا ہو گا اور اس کے نتائج کو قبول بھی کرنا ہو گا۔ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے انہیں دوبارہ صدارتی امیدوار بنانے کے فیصلہ کا بھی اس تحریک کے فیصلہ پر ہی انحصار ہے۔ اس لئے ’’ہمجولیوں‘‘ کی ملاقات میں ایسے معاملات سود و زیاں پر کوئی بات نہ ہونا ہمجولی ہونے پر شکوک و شبہات لا سکتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کو تو درون خانہ ایسے بے شمار خطرات اور غم لاحق ہیں۔ انکے تمام کے تمام اتحادی اچھل کود کر رہے ہیں۔ ایک اتحادی وفاقی کابینہ سے نکل چکے ہیں اور روٹھے سیّاں کو منانے کی تمام کوششیں بھی اکارت جا چکی ہیں۔ بلوچستان والے اتحادی اتنے بدکے ہیں کہ وفاق کو جھنجوڑتے جھنجوڑتے اب بلوچستان کی مخلوط حکومت کو بھنبھوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ روز ندیم ملک کے ٹی وی ٹاک شو میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اور سپیکر بلوچستان اسمبلی باہمی اختلافات کے قصے چھیڑ کر بلوچستان حکومت کیلئے صبح گیا یا شام گیا والی منظر کشی تک جا پہنچے تھے۔ ماضی بعید و قریب کے تجربات تو اس حقیقت کی ہی گواہی دیتے ہیں کہ وفاق کو ہلانے کے لئے پہلے بلوچستان میں اتھل پتھل کیا جاتا ہے۔ تو کیا اب کی بار بھی آغاز بلوچستان سے کیا جا رہا ہے کیونکہ سپیکر بلوچستان کے بقول تو اب وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں سرخروئی ایک دو دن کا معاملہ ہی رہ گیا ہے۔ اور جناب یہ خیبر پی کے والی خالصتاً اپنی حکومت کی جوتیوں میں یکایک کیوں دال بٹتی نظر آنے لگی ہے۔ اس معاملہ میں میڈیا پر آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کیخلاف پانچ وزراء اور 20 ارکان اسمبلی نے اپنا گروپ بنا لیا ہے اور ان پانچوں وزرا نے وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے وزارت سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
اور حضور والا! ایسی ہی اتھل پتھل پنجاب میں بھی شروع ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کہیں وزیر اعلیٰ کے خلاف 20 ارکان کے باغی گروپ کے تذکرے ہو رہے ہیں، کہیں گورنر پنجاب کے ساتھ پندرہ ارکان کے کھڑے ہونے کی باتیں چل رہی ہیں اور پھر سب سے بڑھ کرحکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) جھٹکے لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے تو گزشتہ روز یہ تک باور کرا دیا کہ ان کی پارٹی کا حکومتی پارٹی کے ساتھ نہیں، حکومت کے ساتھ اتحاد ہے اس لئے ہمیں محض اتحادی کی کیٹگری میں شامل نہ کیا جائے۔ اس سے پہلے چودھری مونس الٰہی اور کامل علی آغا کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا وہ ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے مصداق ہی نظر آتے تھے۔ اس ماحول میں جب ایک وفاقی وزیر چودھری فواد حسین ’’ایک دھکا اور دو‘‘ کے الاپے جانے والے راگ میں اپنی شیریں بیانی بھی شامل کر رہے ہوں تو کھوجیوں کیلئے معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچنا کوئی مشکل تو نہیں رہتا۔ تو جناب! وفاق اور تین صوبوں میں پکنے والی اس کھچڑی کے کچھ تو اسباب ہیں۔ اگر ہمارے وزیراعظم کو اپنے ’’ہمجولی‘‘ ٹرمپ کے ساتھ بے تکلفی والے ماحول میں اپنے اردگرد منڈلاتے ان خطرات کے تذکرے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہو گی تو یہ انکے اعصاب کی مضبوطی کی ہی دلیل ہے۔ مگر زائچے تو سارے بادمخالف کے موثر ہونے کی ہی عکاسی کر رہے ہیں۔ گزشتہ کالم میں میں نے ایک ماہر علم الاعداد کی ایک ٹی وی ٹاک شو میں ہونے والی گفتگو کا تذکرہ کیا تھا جو وزیر اعظم کیلئے اپریل مئی تک کی سختیوں کا حساب کتاب لگا رہے تھے۔ آج کے زمینی حقائق تو بہت جلدی وہی نتیجہ نکالتے نظر آ رہے ہیں کہ آج خلق خدا اپنے روٹی روز گار کے گھمبیر مسائل کے آگے مکمل بے بس ہو چکی اور عاجز آئی نظر آتی ہے۔ اگر خلق خدا کی بے بسی آپکی پالیسیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے تو ’’افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر‘‘۔ حضور خلق خدا کیلئے کچھ کر لیجئے تو بچت ہے ورنہ کسی کی مقبولیت کا بھرم ٹوٹتے کوئی دیر تو نہیں لگتی۔