گزرتے سال کے آخری دن وزیراعظم عمران خاں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے آنے والے سال 2020ء کو عوام کا سال قرار دیا اور ساتھ ہی یہ مژدۂ جانفرا بھی سنایا کہ مشکل ترین مالی حالات کے باوجود حکومتی کوششوں کے نتیجہ میں ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو چکا ہے اور کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ وزیراعظم کے اس دل خوش کن بیان میں درحقیقت عوام کو اس حوالے سے خاطر جمع رکھنے کا پیغام دیا گیا کہ اب ان کے مشکل دن بھی ختم ہو رہے ہیں اور اقتصادی استحکام کے ثمرات ان تک بس پہنچنے ہی والے ہیں ، مگر جناب عام عوام کی بدنصیبی تو سالہا سال سے ان کا پیچھا کر رہی ہے جنہیں ان کے ممکنہ اچھے دنوں کی جھلک محض لچھے دار تقریروں اور دلفریب بیانات میں ہی دکھائی جاتی ہے اور فی الحقیقت وہ گزشتہ صدی کے فکاہیہ شاعر عاشق جالندھری کے اس شعر کی تصویر بنے ہی نظر آتے ہیں کہ …؎
جو تھی قسمت میں سیاہی وہ کہاں ٹلتی ہے
کھیر بھی آئی میرے سامنے دلیا ہو کر
سو اسی پیچھا کرتی بدنصیبی نے عوام کو دسمبر 2019ء کی آخری رات نئے سال کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ڈس لیا جب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بے مہا با اضافے کے جاری کردہ نوٹیفکیشن نے مہنگائی کے نئے بوجھ کی نوید سنا کر ان کی زندہ رہنے کی بچی کھچی آس کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ وزیراعظم کے اعلان کردہ عوام کے سال کے آغاز ہی میں صرف پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ بجلی، آٹا اور ایل پی جی سلنڈر کے نرخ بھی بلند پروازی کا شاہکار بنے نظر آئے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے پاکستان میں قرار دئیے گئے عوام کے سال کے دوران راندۂ درگاہ عوام کس بے دردی کے ساتھ مہنگائی کے سونامی میں رگڑے کھائیں گے۔ گزشتہ دہائی کے آغاز میں بھی عوام کی مہنگائی اور دوسرے مسائل میں ایسے ہی درگت بنتی نظر آئی تھی۔ یکم جنوری 2010ء کو پیپلز پارٹی کا اقتدار تھا اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر سید یوسف رضا گیلانی براجمان تھے۔ ان کے ہاتھوں 2010ء کے پہلے ہی روز عوام کو مہنگائی کی آگ میں جھونکنے کا جو اہتمام ہوا وہ عوام کے آج والے حالات سے مکمل مطابقت رکھتا ہے بلکہ آج کئی حوالوں سے عوام کی کسمپرسی گزشتہ دہائی سے دو چند نظر آتی ہے۔ بس چہرہ ہی بدلا ہے۔ عوام کی حالت بدلی ہے نہ ’’سٹیٹس کو‘‘ والے سسٹم کا کچھ بگڑا ہے۔ کیا آج کے حالات عوام کے لئے دس سال قبل والے حالات سے بہتر نظر آتے ہیں؟ اس موازنے کے لئے ہی میں -2 جنوری 2010ء کو نوائے وقت میں شائع ہونے والا اپنا کالم یہاں من و عن پیش کر رہا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائیں اور عوام کا سال قرار دئیے گئے 2020ء کے دوران عوام کی ممکنہ حالت زار کا خود اندازہ لگا لیں۔ بس یہی عام عوام کا مقدر ہے جس کے ساتھ کھیلنا ہر حاکم وقت کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے۔ ’’ہم گزرے سال کے آخری روز دست بددعا رہے، یا خدا آنے والے سال کو ہمارے لئے رحمت و برکت کا وسیلہ بنا دے۔ گزرے سال کے دکھوں کی ہوا بھی نہ لگنے دینا، اس وطنِ عزیز اور اس کے باسیوں کو آندھیوں، تھپیڑوں، طوفانوں، سختیوں اور ہر قسم کی پریشانیوں سے محفوظ رکھنا۔ ڈھیروں ایس ایم ایس بھی آئے۔ اُمیدوں کی جوت جگائے کہ نیا سال ہمارے لئے خوش بختی، خوشی، خوشحالی کی علامت بنے۔
نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کے لئے دل رجائیت پسندی کے جذبات سے لبریز تھا کہ نئے سال کے پہلے دن کے اخبار پر نگاہ پڑی اور پہلی ہی خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے، گیس کے نرخوں میں 18 فیصد اضافے کے لئے اوگرا کی جانب سے بھجوائی گئی سمری پر اپنے دستخط ثبت کر کے۔ بس بجلی کے نرخوں میں مزید ساڑھے بارہ فیصد اضافے کے نوٹیفکیشن کو فی الحال جاری ہونے سے انہوں نے روکا ہے اور طفل تسلی پٹرول کے نرخوں میں آٹے میں نمک سے بھی کم صرف 89 پیسے فی لٹر کمی کر کے دی ہے۔ آج کا ایک روپیہ تو بھکاری بھی ایک پیسہ سمجھ کر قبول نہیں کرتے، وزیر اعظم نے دکھوں ماری قوم کو رعایت بھی دی تو روپے میں نہیں، پیسوں میں جو ویسے ہی ناپید اور نایاب ہو چکے ہیں۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا اپنے مفلوک الحال عوام کو خوش کرنے کا انداز۔
رات بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی ہر گھنٹہ بعد جاری تھا اور نئے سال کا آغاز بھی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ہوا کہ 2010ء کا سورج طلوع ہوا تو بجلی کی چمک کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ گیس کا بل بھی نئے سال کے پہلے روز ہی موصول ہوا جس میں ایک چوکھٹے میں صارفین کو پیغام دیا گیا تھا کہ یکم جنوری سے گیس کے نرخ فلاں تناسب سے مقرر ہوئے ہیں۔ اس تناسب میں گیس کا بل گزشتہ ماہ کی نسبت دوگنا ہو گیا ہے۔ یہ ہے نئے سال کے استقبال کا انداز۔ سی این جی سٹیشنوں کی ہڑتال بھی گئے سال کی جانب سے نئے سال کو منتقل ہو چکی ہے اور نئے سال کے خبروں کے بلیٹن میں یہ خبر بھی نمایاں چل رہی تھی کہ سی این جی اس ماہ سے سات سے آٹھ روپے فی کلو مہنگی ہو رہی ہے۔ زخمی زخمی ، لہو لہو اس دکھیاری قوم کو نئے سال کے دوران چھلنی چھلنی کرنے کے لئے کیسا کیسا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کامحض نوٹیفکیشن فی الحال روکا گیا ہے۔ اضافے کا فیصلہ تو اپنی جگہ قائم ہے۔ شاید نئے سال کے پہلے روز جھٹکا در جھٹکا دینا مقصود نہیں تھا اس لئے چند روز گزر جائیں ، قوم کو یہ جھٹکا بھی مل جائے گا اور پھر آئی ایم ایف تو ہمارے حاکمانِ ملک و مختار کے سروں پر چھانٹے لئے کھڑا ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسوں کی مد میں نہ جانے اور کتنے ٹیکس کس انداز میں وارد ہونے والے ہیں۔ انکار کی مجال نہیں کہ ہمارے والیانِ عزوشرف نے اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگوڑی شرطوں کے ساتھ بندھوا دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی جانب سے ہمیں سعادت مندی کے ساتھ ساتھ سلیقہ مندی اختیار کرنے کی بھی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں اور سلیقہ مندی یہ ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے جو کچھ بھی آپ سے بن پڑتا ہے، وہ سب بغیر کسی حیل و حجت کے ہمارے حوالے کر دو۔ اپنے ارمان اور کوئی شوق پورا کرنے کا آپ کو قطعاً حق حاصل نہیں ہے۔ ہم جو کچھ آپ پر لادتے جائیں گے، برداشت کرتے جائو اور نہیں کر سکتے تو بے شک مر جائو، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں تو آپ کی کھال ادھیڑنے ، خون نچوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے سو وہ ہم استعمال کرتے رہیں گے۔
یہ ہے عوضانہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ ایک عشاریہ پانچ ارب روپے قرض کی چوتھی قسط کی وصولی کا۔ یہ سالانہ قسطیں پانچ سال تک چلنی ہیں تب تک بطور قوم ہم زندہ بھی رہ پائیں گے اور ہمارے تن پر لباس کا کوئی ٹکڑا بھی رہ پائے گا؟ سوچیں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ نئے سال کے پہلے ہی روز اتنے صدمے، اتنے غم، اتنا بوجھ؟۔ قوم تو پہلے ہی لڑکھڑا رہی تھی۔ اب چال بے ڈھنگی ہوئی تو ڈھب سے آگے قدم بڑھانا ناممکنات میں شامل ہو جائے گا۔ ہم تو نئے سال کا نئی اُمیدوں، نئے جذبوں کے ساتھ استقبال کرنے بیٹھے تھے۔ یہ جھٹکے، یہ چرکے اور مایوسیوں کے یہ بادل کہاں سے امڈ آئے ہیں۔ خدا خیر کرے! آغاز یہ ہے تو انجام کیسا ہو گا؟‘‘