نیب ترمیمی آرڈی ننس ۔ گزرتے سال کا آخری المیہ
Dec 31, 2019

نیب ترمیمی آرڈی ننس کو گزرتے سال کا آخری لطیفہ قرار دیا جائے یا ٹونٹی ٹونٹی (2020ئ) کی ممکنہ خوشگوار سیاست کی اس آرڈی ننس کے ذریعے تمہید باندھی جائے۔ اس بارے میں تو آرڈیننس کے روبہ عمل ہونے پر ہی کوئی رائے قائم کی جا سکے گی تاہم امر واقع تو یہی ہے کہ کرپشن فری سوسائٹی کے ایجنڈے پر عوام کا مینڈیٹ حاصل کر کے اقتدار کی منزل حاصل کرنے اور پھر تواتر کے ساتھ کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے دلپذیر اعلانات کرنے والے وزیراعظم عمران خاں نے خود کراچی میں سٹاک ایکسچینج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شرکائے تقریب کی جانب معنی خیز اشارے اور زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ یہ ’’مژدۂ جانفرا‘‘ سنایا تھا کہ بزنس کمیونٹی کو نیب کے دائرۂ اختیار سے باہر نکالا جا رہا ہے۔ پھر ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ سے منظور کیا گیا۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ جاری کر دیا گیا جس کے حوالے سے اگلے روز قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ اس آرڈی ننس کی بنیاد پر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف محکمانہ نقائص کی بنیاد پر کارروائی نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی سرکاری ملازم کی جائیداد عدالتی حکمنامہ کے بغیر منجمد کی جا سکے گی تاہم سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔ خبر میں واضح طور پر یہ بھی درج تھا کہ نیب پچاس کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن پر کارروائی کر سکے گا۔ خبر کی روسے ترمیمی آرڈیننس کے تحت ٹیکس، سٹاک ایکسچینج اور آئی پی اوز سے متعلق معاملات پر بھی نیب کا دائرۂ اختیار ختم ہو جائے گا اور ان تمام معاملات پر ایف بی آر، ایس ای سی پی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کارروائی کر سکیں گی۔

یہ خبر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست پر اپوزیشن کے لیے تو اندھے کے ہاتھ بٹیرہ آنے کے مصداق تھی اس لئے بالخصوص پیپلز پارٹی کے قائدین کی جانب سے اس خبر پر وزیر اعظم عمران خاں کی تقریر کا بطور خاص حوالہ دے کر حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اور نیب ترمیمی آرڈی ننس کو این آر او کی ماں قرار دے دیا گیا جبکہ مسلم لیگ (ن)‘ جماعت اسلامی اور اے این پی کی قیادتوں کو بھی اس آرڈی ننس کی بنیاد پر کرپشن فری سوسائٹی کی داعی حکومت پر تنقید کے نشتر چلانے کا موقع مل گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ہی پیدا کردہ ایک بحران سے مکمل طور پر نکل نہیں پاتی کہ اپوزیشن کو تنقید کا موقع فراہم کرنے کے لئے خود ہی دوسرا بحران منظرعام پر لے آتی ہے۔ آرمی چیف کے منصب میں توسیع، سابق صدر پرویز مشرف کی سزائے موت اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے معاملہ میں حکومت کے اپنے پیدا کردہ بحران ابھی ٹلنے کی نوبت تک نہیں پہنچے اور ان کے قانونی اور آئینی پہلوئوں پر حکومتی موقف کے حوالے سے ابھی تک قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اب حکومت نے ایک نیا بحران اپنے گلے ڈال لیا ہے اور اب وضاحتوں پر وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں کہ نیب ترمیمی آرڈی ننس میں وہ سب کچھ ہے ہی نہیں جس پر اپوزیشن تنقید کا شوق پورا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے بالخصوص پچاس کروڑ روپے تک کی کرپشن اور سرکاری ملازمین کو نیب کے دائرۂ اختیار سے باہر نکالنے کی خبر کو حکومتی حلقوں کی جانب سے بے بنیاد قرار دیا جا رہا ہے تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ امور بیرسٹر شہزد اکبر نے گزشتہ روز جووضاحتی پریس کانفرنس کی اس میں متذکرہ دونوں معاملات پر کسی قسم کی وضاحت کرنے کے بجائے یہ باور کرانا زیادہ ضروری سمجھا کہ نیب کا کام کرپشن کو پکڑنا ہے۔ اداروں کو ٹھیک کرنا نہیں۔ بالفرض محال اگر نیب آرڈی ننس میں پچاس روپے تک کی کرپشن اور سرکاری ملازمین کے محکمانہ نقائص پر نیب کی گرفت ختم کرنے کی کوئی شق شامل نہیں تو پھر یہ صورت حال حکومتی گورننس کے حوالے سے اور بھی تشویشناک ہونی چاہئے کہ وزیراعظم عمران خاں کی تقریر کے فوری بعد متذکرہ مندرجات پر مبنی خبر قومی میڈیا کو کیسے جاری ہو گئی۔ اگر اس خبر کی بنیاد محض قیاس آرائی اور قیافہ تصور کی جائے تو ہر اخبار میں اور ہر ٹی وی چینل پر ایک دوسرے سے مختلف خبر آتی ، اگر شائع اور نشر ہونے والی خبر کے مندرجات ایک ہی تھے تو یقینی بات ہے کہ یہ خبر کسی حکومتی ادارے کی جانب سے پورے وثوق کے ساتھ جاری کی گئی اور اس سے یہی پیغام دینا مقصود تھا کہ وزیراعظم نے آج تاجر کمیونٹی کو خوش اور مطمئن کر دیا ہے۔ پھر جناب! اپوزیشن کیوں یہ الزام عائد نہیں کرے گی کہ نیب ترمیمی آرڈی ننس کے ذریعے درحقیقت اپنوں کو نیب کے شکنجے سے باہر نکالا گیا ہے۔ اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کی کارروائیوں سے شاکی تھی کہ یہ صرف اس کے خلاف انتقامی سیاسی کارروائیاں ہیں اور چیئرمین نیب کے ہوا کارخ بدلنے کے اعلان نے بھی حکمران جماعت اور اس کی حلیف جماعتوںکے لوگوں کاکچھ نہیں پگاڑا، اب نیب ترمیم آرڈی ننس نے اس معاملہ میں اپوزیشن کے الزامات کو مزید تقویت پہنچا دی ہے۔ پھر آپ لگے ہاتھوں قوم کو یہ بتا ہی دیجئے کہ اگر نیب کے اختیارات میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی تو نیب ترمیمی آرڈی ننس جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وزیراعظم عمران خاں کو خالصتاً تاجروں کی تقریب میں انہیں نیب کے شکنجے سے نکالنے کی خوشخبری سنانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ شائد یہ 2019ء کا آخری جھٹکا تھا جو حکومت نے خود کو لگایا مگر اس کے آفٹر شاکس 2020ء میں بھی حکومت کو جھنجوڑنے کا باعث بنتے رہیں گے۔اپوزیشن تو نیب سے پہلے ہی خلاصی چاہتی تھی جس کے لیے نیب کی مبینہ یکطرفہ کارروائیوں کا حوالہ دیا جاتاہے۔ اب نیب کے اپوزیشن کے اپنے بقول پر کٹے ہیں تو اسے مطمئن ہونا چاہئے کہ نیب کو ختم کرنے یا غیر موثر بنانے کی اس کی خواہش حکومت کے ہاتھوں پوری ہو رہی ہے۔ مگر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں اپنے ممکنہ فائدے کو بھی پس پشت ڈال کر ضرب لگائی جاتی ہے۔

اس آرڈی ننس کے بعد نیب کتنا خودمختار اور غیرجانبدار رہ پا ئے گا اور اس کے بے لاگ اقدامات کے دعوئوں کا کیا بنے گا، اس کا تو آرڈی ننس کے آپریشنل ہونے کے بعد اندازہ ہوتا ہی رہے گا مگر کیا ایسے حکومتی اقدامات کے بعد پی ٹی آئی قائد کے سٹیٹس کو توڑنے ، سسٹم کی اصلاح کرنے اور کرپشن فری سوسائٹی تشکیل دے کر اسے ریاست مدینہ کے تصور سے ہمکنار کرنے کے اعلانات کی آب و تاب اسی طرح برقرار رہے گی؟ جناب! اگر اسی فرسودہ روایتی سیاست کا چلن اختیار کرنا ہے تو تبدیلی کے نعرے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ کم از کم عوام کا یہ شش و پنج تو دورکر دیجئے کہ…؎

کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی ۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com