افغان الیکشن کمشن کا ’’معرکہ‘‘ اور ہماری سر پھٹول
Dec 24, 2019

ہم اپنے الیکشن کمشن کی جو بھد اڑاتے ہیں، وہ اس ادارے اور اس کے سربراہ کی ہی ہمت ہے کہ کانٹوں کی سیج پر چھید چھید ہو کر بھی وہ ہر مرحلے کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ذمہ داریوں میں جتے رہتے ہیں، شائد غالب کا یہ شعر اس خودمختار قومی ادارے کے پیش نظر رہتا ہو گا کہ…؎

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

آپ ذرا اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے الیکشن کمشن کی ’’بے مثال‘‘ کارکردگی کے ساتھ اپنے الیکشن کمشن کی کارکردگی کا موازنہ تو کریں، آپ کو آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے معاملہ میں دال آٹے کا بھائو خوب معلوم ہو جائے گا۔ اندازہ لگائیے کہ تین ماہ قبل -29 ستمبر 2019ء کو منعقد ہونے والے افغان صدر کے انتخاب کا نتیجہ گزشتہ روز ابھی غیر رسمی طور پر سامنے آیا ہے جس میں موجودہ صدر اشرف غنی کو ہی دوبارہ منتخب صدر قرار دے دیا گیا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آنے والے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے ان انتخابی نتائج کو فراڈ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ الیکشن کمشن نے مکمل طور پر اشرف غنی کو سپورٹ کیا ہے۔

افغان الیکشن کمشن کی خاتون سربراہ مس حوا عالم نورستانی نہ جانے کس بکھیڑے میں پڑی رہیں کہ صدارتی انتخاب میں پڑنے والے ووٹوں کی گنتی میں تین ماہ لگا دئیے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اس انتخاب میں دوبارہ منتخب قرار پانے والے صدارتی امیدوار اشرف غنی کو 9 لاکھ 23 ہزار ووٹ ملے جبکہ ان کے قریب ترین حریف عبداللہ عبداللہ نے سات لاکھ 20 ہزار ووٹ لئے جبکہ سابق افغان وزیر اعظم اور مجاہدین دور کے مقبول لیڈر گلبدین حکمت یار کے کھاتے میں صرف 70 ہزار 273 ووٹ آئے اور چوتھے صدارتی امیدوار رحمت اللہ نبیل کے بکس میں سے 33 ہزار 927 ووٹ برآمد ہوئے۔ یہ پڑنے والے مجموعی ووٹ 18 لاکھ سے زیادہ نہیں۔ اشرف غنی نے مجموعی ووٹوں کے پچاس عشاریہ صفر 6 فیصد اور عبداللہ عبداللہ نے 39 عشاریہ 52 فیصد ووٹ لیے جبکہ باقیماندہ دو امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں۔ اگر پورے افغانستان کا صدارتی حلقۂ انتخاب 30 لاکھ ووٹروں پر بھی مشتمل ہو تو یہ ہمارے قومی اسمبلی کے پندرہ حلقوں سے زیادہ نہیں بنتا۔ پھر ووٹوں کی گنتی کا عمل بھی اتنا پیچیدہ نہیں کہ اس سے گزرتے گزرتے تین ماہ لگ جائیں مگر یہ سارا عرصہ افغان صدارتی امیدواروں نے صبر و سکون کے ساتھ گزارا۔ نتائج میں تاخیر پر کسی نے واویلا کیانہ نتائج آنے تک کسی نے الیکشن کمشن کو دھاندلیوں کا مرتکب قرار دیا۔ اب بھی صرف عبداللہ عبداللہ نے الیکشن کمشن کواشرف غنی کی باندی قرار دیا ہے مگر نتائج کے خلاف پورے افغانستان میں کہیں سے بھی کسی ہنگامے کی خبر نہیں آئی گویا دوسرے امیدواروں نے پہلے ہی کی طرح تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کا گھونٹ بھر لیا ہے۔ اگر ایسی ہی صورت حال ہمیں درپیش ہوتی تو اب تک اتھل پتھل ہو چکا ہوتا۔

ہمارا الیکشن کمشن تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک ہزار سے زائد نشستوں کے انتخابات کراتا اور اسی رات غیر سرکاری نتائج کے اعلان کا پابند ہوتا ہے ۔ ان انتخابات میں پانچ سے سات کروڑ تک ووٹ پول ہوتے ہیں پھر بھی چابکدستی کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے اور امیدواروں کو پڑنے والے درست ووٹوں کے ساتھ ساتھ مسترد شدہ ووٹوں کی بھی گنتی کر کے قوم کو آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر الیکشن کے ماتحت ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے مراحل بھی چلتے رہتے ہیں مگر مجال ہے الیکشن کمشن کے سربراہ، ارکان اور دوسرے سٹاف کی پیشانیوں پر ان فرائض کی ادائیگی کے دوران کبھی بل آیا ہو جبکہ امیدواران اور سیاسی جماعتوں کے قائدین لٹھ لیکر الیکشن کمشن پرچڑھ دوڑے ہوتے ہیں۔

الیکشن کمشن کو انتخابی دھاندلیوں کے الزام کے زیر بار رکھنا تو ہمارا قومی کلچر بن چکا ہے جو اب تک ہر الیکشن کمشن بھگتتا آیا ہے۔ جب چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمشن کا تقرر صرف وزیراعظم کی صوابدید تھی، اس وقت تو الیکشن کمشن پر حکومتی پارٹی کے لیے جانبداری کا الزام جچ بھی جاتا تھا جبکہ انفرادی سطح پر انتخابی دھاندلیوں سے بچنا ویسے ہی مشکل ہوتاہے مگر اب تو سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے الیکشن کمشن کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خود مختار بنا دیا گیا ہے جس کے سربراہ اور ارکان کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے عمل میں آتا ہے۔ اگر ہمارے انتخابی کلچر میں شکست تسلیم کرنے کی روایت بھی پڑ جائے تو الیکشن کمشن سب کے لئے قابلِ قبول بنا رہ سکتا ہے مگر خوشدلی کے ساتھ شکست تسلیم کرنا ہمارے خمیر میں شامل ہی نہیں اس لئے خودمختار الیکشن کمشن نے بھی دھاندلیوں کے شور شرابے والے ہمارے کلچر کا کچھ نہیں بگڑنے دیا۔ ہماری تسکین صرف اس صورت ہی ہو سکتی ہے کہ الیکشن کمشن کے سربراہ اورارکان کے منصب پر ہمارا اپنا بندہ موجود ہو۔ اسی کشمکش میں آج خودمختار الیکشن کمشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے انتخابات متنازعہ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی اور بطور خاص چیف الیکشن کمشنر تو دشنام طرازی کی زد میں ہی رہتے ہیں۔ اس کلچر نے نیک نام چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کو بھی زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس پر وہ آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے مشن سے توبہ تائب ہو کر استعفیٰ دینے پرمجبور ہو گئے اور پھر اس منصب کے لئے بعض دوسری نیک نام شخصیات کی جانب سے بھی معذرت سامنے آنے لگی ، پھر جسٹس (ر) سردار رضا خاں نے یہ بھاری پتھر اٹھایا جن پر سیاسی قائدین کی جانب سے پہلے تو اعتماد کا اظہار کیا گیا مگر شکست کو قبول نہ کرنے کی روش نے جلد ہی اس اعتماد میں خلل پیدا کرنا شروع کر دیا۔ 2013 ء کے انتخابات اس وقت کی اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کے نزدیک متنازعہ بنے رہے اور اسی بنیاد پر لانگ مارچ اور دھرنا تحریک کا شور شرابا ہوا اور نوبت لاک ڈائون تک آ گئی۔ اب 2018ء کے انتخابات موجودہ اپوزیشن بشمول مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف) اے این پی وغیرہ وغیرہ کوہضم نہیں ہو رہے اور سب یار لوگ تہۂ طوفان کئے بیٹھے ہیں جبکہ اب چیف الیکشن کمشنر اور دو ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمشن کی تشکیل نو ہی ممکن نہیں ہو پا رہی اور دو ملائوں میں مرغی حرام والی نوبت آ گئی ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک نام پر متفق نہیں ہوئے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس آیا اور اعلیٰ عدلیہ میں بھی چیلنج ہو گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے دو بار دس دس دن کی مہلت کسی ایک نام پر اتفاق رائے کی خاطر لی جا چکی ہے۔ اب آج -24 دسمبر کو اس اتفاق رائے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ہے مگر اب بھی کوئی امید بر نہ آنے والی کیفیت ہی نظر آ رہی ہے۔ پھر عدلیہ کے ہاتھ میں باگ ہو گی جس پر اعتماد کا معاملہ مشرف کیس کے حوالے سے پہلے ہی دگرگوں ہو چکا ہے تو بھائی صاحب! ذرا اپنے پڑوسی افغانستان کے الیکشن کمشن سے ہی کچھ گر سیکھ لیجئے کہ انتخابی نتائج کے اعلان میں دوتین ماہ تاخیر کر کے بھی دھاندلیوں کے الزامات پر ہنگاموں کی نوبت نہ آنے دینے کی فضا کیسے بنائی جاتی ہے۔ الیکشن کمشن میں ’’اپنا بندہ‘‘ لانے کی تگ و دو میں ہم کب تک اپنا تماشہ بناتے رہیں گے۔ اس سے بہترہے کہ افغانستان کا الیکشن کمشن ہی مستعار لے لیں۔ شائد آنکھ کی شرم ہمارے لئے بھی سدھار کی کوئی صورت حال بنا دے۔

٭…٭…٭
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com