آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے مجھے آج پھر اس سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس یاد آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس کیس کے پس پردہ محرکات کو محسوس کر کے ہی ریمارکس دئیے تھے کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے معاملہ میں حکومت ہمارا کندھا استعمال نہ کرے اور اپنا بوجھ خود اُٹھائے، میں نے گزشتہ کالم میں بھی اس بحث سے اجتناب کیا تھا کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا مقصد کس کا اور کیا ہو سکتا ہے مگر اب گتھیاں خود ہی سلجھتی جا رہی ہیں۔ آج آپ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومتی رویے کا جائزہ لے لیں تو آپ کو متعلقہ کیس کے حوالے سے کسی قسم کا قیافہ لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خاں اپنے اپوزیشن کے دور میں آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار فرماتے رہے وہ سپریم کورٹ میں متذکرہ کیس کی سماعت کے دوران بھی لوگوں کی یادداشتیں کھولنے کا باعث بنتے رہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر ہمارے قائدین کے ماضی کے کہے ہوئے الفاظ ہمیشہ تروتازہ ہی رہتے ہیں۔ چنانچہ عمران خاں کے متعلقہ بیانات ہی کی روشنی میں ان کے بطور وزیر اعظم آرمی چیف کے منصب میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے عمل کو ان کی قانونی ٹیم کی محض نالائقی کے کھاتے میں ڈال کر فیس سیونگ تو کی جا سکتی ہے مگر اس کے پس پردہ سوچ کو بہرصورت کسی نالائقی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے یقیناً اس سوچ کو محسوس کر کے ہی حکومت کو اس معاملہ میں خالصتاً آئین اور قانون کی پاسداری ملحوظ خاطر رکھنے کا رستہ دکھایا تھا۔ اگر اس حوالے سے مروجہ آئین و قانون کی پاسداری کی جائے تو اس سے آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی سرے سے گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اگر آرمی چیف کی ملک و قوم کے لیے بے پناہ خدمات اور ان خدمات کے تسلسل کی ضرورت کے تحت ان کے منصب میں توسیع کی گنجائش نکالنا مقصود ہے تو آئندہ قانون کی پاسداری کی خاطر لازماً آئین اور آرمی ایکٹ میں اضافی شقیں لانا پڑیں گی مگر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد حکومتی حلقوں کی جانب سے صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کام چلانے کا عندیہ دیا جانے لگا۔ دوسری جانب وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور بعض دوسرے حکومتی اکابرین اس امر کے داعی نظر آئے کہ اپوزیشن بنچوں سے بھی متعلقہ ترامیم کی خوشی خوشی منظوری دے دی جائے گی۔ آج مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بھی یہ کہہ کر متعلقہ ترامیم کے لئے اپوزیشن کی رضامندی کا عندیہ دے دیا ہے کہ آرمی چیف کے لئے قانون سازی اتفاق رائے سے ہونی چاہئے۔ یقیناً یہی باعزت راستہ ہے کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے حوالے سے کسی اختلاف رائے کی گنجائش ہی پیدا نہ ہونے دی جائے۔
اگر حکومتی اکابرین اور احسن اقبال کے بقول پارلیمنٹ میں متعلقہ ترمیم کی منظوری کے لیے فضا مکمل سازگار ہے تو حکومت کو اس فضا سے فائدہ اُٹھا کر اب تک پارلیمنٹ میں اس ترمیم کے معاملہ میں سرخرو ہو جانا چاہئے تھا مگر وزیر دفاع پرویز خٹک نے گزشتہ روز یہ بیان دے کر پس پردہ محرکات والی حکومتی ذہن کی کئی پرتیں خود ہی کھول دی ہیںکہ آرمی چیف سے متعلق تفصیلی عدالتی فیصلہ کے بعد حکومت لیگل ٹیم سے مل کر فیصلہ کرے گی۔ حضور والا! جب عدالت عظمیٰ نے اپنے مختصر فیصلہ میں ہی اس معاملہ میں یہ سب کچھ واضح کر دیا ہے اور حکومت و پارلیمنٹ کے کرنے کا کام انہی کے لئے چھوڑ کر متعلقہ آئین و قانون سازی کے لئے چھ ماہ کی مہلت دے دی ہے تو کیا حکومتی قانونی ٹیم کو عدالتِ عظمیٰ کے مفصل فیصلہ میں اس کے برعکس کسی معاملہ کی توقع ہے؟ اگر کان کو پکڑنا مقصود ہو تو ہاتھ کوالٹا گھما کر اور مشقت کر کے پکڑنے کے بجائے آسانی کے ساتھ سیدھے سیدھے پکڑ کر مطلوبہ مقصد پورا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے لیے حکومتی خوشدلی شامل حال ہے تو اسے کوئی الٹا راستہ اختیار کرنے اور مزید سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ صادر ہونے کے بعد تو حکومتی ٹیم کو متعلقہ ترامیم کے لئے ہوم ورک پر جت جانا چاہئے تھا۔ بے شک اپوزیشن کی جانب سے بھی ایسی قانون و آئین سازی کے لئے کسی قسم کے اختلافِ رائے یا تحفظات کا اظہار سامنے نہیںآیا پھر بھی فضا مزیدسازگار بنانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کر لیا جانا چاہئے تھا تاکہ اس معاملہ میں پارلیمنٹ میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش ہی نہ نکل سکتی اور آرمی چیف کے لئے مکمل اتفاق رائے والی سرخروئی حاصل ہو جاتی مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہوتے ہی خود وزیراعظم نے جس جارحانہ انداز میں اپوزیشن پر چڑھائی کی اور اس کے بعد حکومتی وزیروں مشیروں نے یہ کہہ کر اپنی تنقیدی توپوں کا رخ تسلسل کے ساتھ اپوزیشن کی جانب کر رکھا ہے کہ مجرموں سے قانون سازی کیوں کرائی جائے تو کیا یہ متعلقہ قانون سازی کے لئے اپوزیشن کو خوش دلی کے ساتھ اتفاق رائے کی جانب لانے کی پالیسی ہے یا اس سے بنا بنایا کام بگاڑنا مقصود ہے؟
اس مصلحت کا تقاضا کیا ہے؟ اگر آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے معاملہ میں اپوزیشن حکومتی رویہ کی بنیاد پر مخالفانہ ووٹ دینے پر اترآئی تو اس سبکی کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا۔ یہ کوئی ایسی جلیبی والی گتھی نہیں کہ اس کا سرا ہاتھ میں نہ آسکے بلکہ حکومتی رویئے اور پالیسیوں سے تو گتھیاں خود بخود سلجھتی جا رہی ہیں۔ شاید حکمران پی ٹی آئی اب آرمی چیف کے منصب میں توسیع کیلئے آئین و قانون سازی نہ ہونے کا الزام اپوزیشن بنچوں پر دھر کر اس معاملہ میں اپنی اصل سوچ اور حکمت عملی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ آنے والے کسی وقت میں اسے اپنے ’’زریں اصول‘‘ کو کیش کرانے کا موقع مل سکے۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ اپنے مقصد کے لئے دوسروں کا کندھا استعمال کرنے کی حکمران پی ٹی آئی کی حکمت عملی پر اسے اپوزیشن کی جانب سے بھی سپریم کورٹ جیسا ’’سیدھا‘‘ راستہ دکھایا جاتا ہے یا مجوزہ ترمیم کیلئے حکومتی حکمت عملی پر ہی صاد کیا جاتا ہے۔ جذبات سے عاری سیاست کے کھیل میں ایسے الٹ پھیر کوئی اچنبھے کی بات نہیں جس میں اپنے مقصد کے حصول کیلئے ’’صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں‘‘ والی حکمت عملی ہی بہترین حکمت عملی تصور کی جاتی ہے۔ ارے جناب! کبھی تو اپنا بوجھ خود اٹھا کر بھی سرخروئی کی منزل حاصل کرنے کی کوشش کر لی جائے۔