میں نے گزشتہ کالم میں سول سپرمیسی کا سوال اُٹھایا تو اس حوالے سے کئی احباب کو جنرل مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے کیس میں سابق اور موجودہ حکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے طرزعمل سے بھی سول سپرمیسی کا معاملہ غتربود ہوتا نظر آیا۔ جناب! آئین پاکستان میں تو سول حکمرانی میں منتخب پارلیمنٹ نے ہی دفعات 245, 244, 243 کے ذریعے سول سپرمیسی کی ضمانت فراہم کی ہے۔ اگر ہمارے منتخب سول حکمران ہی سول سپرمیسی کی پاسداری نہیں کر پا رہے تو اس میں آئین کا کیا قصور ہے اور اس حوالے سے سول حکمرانوں اور پارلیمنٹ کے کرنے کا کام عدلیہ کیوں سرانجام دے ۔ آرمی چیف کے منصب کی توسیع کے کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آئین کی دفعہ 243 کا حوالہ دے کر درحقیقت حکومت اور پارلیمنٹ کو سول سپرمیسی کے تحفظ کیلئے ان کا کردار ہی یاد دلایا تھا۔ آئین کی متعلقہ دفعات میں سول سپرمیسی کس طرح راسخ کی گئی ہے ذرا ملاحظہ فرما لیجئے۔
دفعہ 243 اور اسکی ذیلی شقوں میں جہاں مسلح افواج کو وفاقی حکومت کی کمان اور کنٹرول میں دیا گیا ہے اور صدر مملکت کو آرمڈ فورسز کی سپریم کمان سونپی گئی ہے وہیں مسلح افواج کے تمام سربراہان کے تقرر کا بھی وزیراعظم کی مشاورت کے ساتھ صدر مملکت ہی کو اختیار دیا گیا ہے۔ پھر آئین کی دفعہ 244 کے تحت مسلح افواج کے سربراہ سے رینکر تک ہر رکن کو حلف اُٹھانے کا پابند کیا گیا ہے جو آئین کے تھرڈ شیڈول میں شامل ہے۔ یہ حلف آرمڈ فورسز سے متقاضی ہوتا ہے کہ وہ آئین میں متعین اپنی ذمہ داریوں کے پابند ہوں گے۔ آئین پاکستان کی پاسداری کریں گے اور خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیںکریں گے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 245 شق ایک کے تحت آرمڈ فورسز وفاقی حکومت کی ہدایات کیمطابق کسی بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع پاکستان کی ذمہ داریاں اور اسی طرح دوسری ذمہ داریاں ادا کرینگی جس کیلئے انہیں سول انتظامیہ کی معاونت کیلئے طلب کیا جائیگا جبکہ اس آئینی دفعہ کی شق 2 میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ شق ایک کے تحت وفاقی حکومت کے اُٹھائے گئے کسی اقدام کا کسی بھی عدالت میں سوال نہیں اُٹھایا جائیگا۔ حضور والا! سول سپرمیسی کیلئے اس سے بڑی ضمانت اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ آئین کی دفعہ 6سول سپرمیسی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے جس کے تحت آئین کو توڑنے، سبوتاژ کرنے کا کسی فرد واحد کا اقدام ہی غداری کا جرم نہیں بنایا گیا بلکہ دفعہ 6 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت فرد واحد کے اس اقدام کی معاونت کرنیوالے بھی آئین سے غداری کے جرم کے ہی مرتکب ہوں گے۔
73ء کے آئین سے پہلے تو کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت آئین توڑنے یا لپیٹنے کا جرم سرے سے غداری کا جرم تھا ہی نہیں اس لئے جنرل ایوب خاں ، جنرل یحییٰ خاں اور انکے ساتھیوں کو غداری کے جرم کا مستوجب قرار نہیں دیا جا سکتا مگر 73ء کے آئین میں اس آئین کی خالق پارلیمنٹ نے دفعہ 6 ذیلی دفعہ ایک اور دفعہ 6 ذیلی دفعہ 2 کے تحت آئین کو سبوتاژ کرنا فرد واحد اور اسکے معاونین و متعلقین کیلئے غداری کا جرم بنا دیا جس کی سزا کا بھی اسی آئینی دفعہ میں تعین کر دیا گیا ہے تو سول سپرمیسی کی حفاظت منتخب سول حکمرانوں اور پارلیمنٹ کے ہی دست قدرت میں ہے جسے تسلیم کرانے کی پہلی آزمائش سول سیٹ اپ کیلئے جنرل مشرف کے حوالے سے سامنے آئی۔ میاں نواز شریف اپنے اپوزیشن کے دور میں بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر جنرل مشرف کو آئین سے غداری کے جرم میں کٹہرے میں لائیں گے اور غداری کے اس جرم کا ارتکاب مشرف نے نوازشریف ہی کی حکومت کی بساط لپیٹ کر آئین پاکستان کو معطل کرنے والے اپنے 12 اکتوبر 1999ء والے اقدام کی بنیاد پر کیا تھا۔ مشرف کا 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او نافذ کرنیوالا اقدام تو بنیادی طورپر عدلیہ کے خلاف تھا جسکے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے تمام جج اپنے مناصب سے فارغ ہو گئے تھے اور پھر جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانا قبول کر لیا تھا وہ دوبارہ عدالتی مناصب پر فائز ہوگئے تھے۔
اس حوالے سے سول سپرمیسی کیلئے گیند مکمل طور پر میاں نوازشریف کی 2013ء کو قائم ہونے والی حکومت کی کورٹ میں آگئی تھی جن سے آئین کی دفعہ 6 اس امر کی متقاضی تھی کہ وہ اپنے اپوزیشن لیڈر والے اعلانات کی پاسداری کرتے ہوئے مشرف کو انکے 12 اکتوبر 1999ء والے ماورائے آئین اقدام کے تحت کٹہرے میں لائیں مگر وہ اپنے اقتدار کے پہلے ایک سال تک شش و پنج میں ہی پڑے رہے اور جب انہوں نے مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت ریفرنس دائر کرایا تو انکے 12۔ اکتوبر 1999ء والے اقدام کے بجائے یہ کہہ کر انکے 3 نومبر 2007ء والے اقدام کو انکے غداری کے جرم کا جواز بنایا کہ وہ ان سے ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتے کیونکہ مشرف کا 12۔ اکتوبر کا اقدام ان کیخلاف تھا۔ جب مشرف کیخلاف انکے 3۔ نومبر 2007ء والے اقدام کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہوا تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسی جواز کے تحت خود اس کی سماعت سے گریز کیا کہ ان کا 3۔ نومبر 2007ء کا اقدام عدلیہ کے خلاف تھا اس لئے وہ بھی ان سے ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتے۔ حضور! اس کیس میں مقصد ذاتی انتقام نہیں‘ آئین کی پاسداری و عملداری اور سول سپرمیسی تسلیم کرانے کا تھا۔ یقیناً مشرف کے خلاف ان کے 3۔ نومبر 2007ء کے اقدام کی بنیاد پر دفعہ 6 کے تحت دائر کیا گیا کیس ایک کمزور کیس تھا مگر اس کیس میں بھی ہر سطح پر مفاہمت ہوتی رہی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مشرف قانون و آئین اور انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئے اور سول سپرمیسی اپنی جبینِ نیاز سے بس خجالت کے قطرے ہی اُتارتی رہ گئی۔
جناب! اس مشرف کیس کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان کے بیانات بھی ہماری تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں جو گاہے بگاہے سوشل میڈیا پر اجاگر ہوتے رہتے ہیں مگر جب غداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت کی جانب سے کیس کے فیصلہ کی تاریخ متعین ہوئی تو سول سپرمیسی کی ضامن موجودہ حکومت کی جانب سے بھی اسکی وزارت داخلہ کے ذریعے اس کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا گیا جس کے باعث فیصلہ صادر ہونے کی نوبت تو نہیں آئی مگر متعلقہ خصوصی عدالت نے یہ کہہ کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکام کی تعمیل سے معذرت کر لی کہ ہم صرف سپریم کورٹ کے احکام کے پابند ہیں۔ حضور والا! سپریم کورٹ تو سول سپرمیسی کے ساتھ کھڑی ہے مگر کیا سول سپرمیسی والے بھی اپنے پائوں کھڑے ہیں؟
اس کیلئے حکومت کابینہ سے مشاورت کر رہی ہے جس کے ارکان میں سے ایک مشرف کو قوم کا محسن قرار دے چکے ہیں اور انکے خلاف غداری کا کیس بنانے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ 4 کے تحت کارروائی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ دوسرے رکن غداری کیس پرآج بھی مشرف کے وکیل ہیں اور تیسرے رکن آرمی چیف کے منصب کی توسیع کی ڈن ڈن ڈن کہہ کر ڈنکے کی چوٹ پر تائید کر رہے ہیں۔
اب لاہور ہائیکورٹ نے مشرف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر مشرف کیخلاف غداری کے کیس کا اسی جواز کے تحت سوال اٹھا دیا ہے کہ یہ کیس تو انکے -3 نومبر 2007ء کے اقدام کیخلاف دائر ہوا ہے۔ اس میں ان سے آئین کو توڑنے کا جرم کہاں سرزد ہوا ہے۔ پھر جناب اب بھگتیں اور قوم کو بتائیں کہ مشرف پر غداری کے جرم کے اطلاق کیلئے سول سپرمیسی والوں کو کن حالات نے انکے -12 اکتوبر 1999ء والے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے روکا تھا۔ آج تو غداری کیس میں حکومت خود عدلیہ کے روبرو مشرف کا دفاع کر رہی ہے چاہے یہ بالواسطہ ہی سہی۔ ایسے حالات میں ہم سول سپرمیسی کے سہانے خواب کہاں تک اور کس بنیاد پر دیکھتے رہیں۔ ناطقہ سربگریباں ہے، اسے کیا کہئیے۔