مسئلہ یہ ہرگز نہیں کہ صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے آرمی چیف کی میعاد ملازمت اور ملازمت کی میعاد میں توسیع کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے یا اس کے لئے آئین کی دفعہ 243 کی متعلقہ شق میں ترمیم لازمی ہو گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آرمی چیف اور مسلح افواج کے دیگر سربراہوں کے تقرر کے لئے متعلقہ اتھارٹی کے آئینی اختیار کے ہوتے ہوئے اس معاملہ میں کسی قانونی اور آئینی ترمیم کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے۔ میں اس بارے میں سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کی اس رائے سے سو فیصد متفق ہوں کہ آرمی چیف کے منصب پر تقرر اور توسیع کا اختیار آئین کی دفعہ (3)B 243 کے تحت قطعی طور پر ریاست کے سربراہ کا اختیار ہے اس لئے اس معاملہ میں کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ اس تناظر میں بلاشبہ آج مسئلہ صرف سول سپرمیسی کا ہے اور سپریم کورٹ نے آرمی چیف کے منصب میں توسیع کے کیس میں درحقیقت سول سپرمیسی ہی کا تقاضہ کیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسی حوالے سے صرف دو نکات پر فوکس کیا اور یہ دونوں نکات سول سپرمیسی کے حوالے سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اس کیس میں (مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ کیس کس نے کس نیت سے دائر کیا ) فاضل چیف جسٹس نے سب سے پہلے یہی استفسار کیا کہ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی آئین اور قانون کی کون سی شق اجازت دیتی ہے جبکہ اس حوالے سے آئین کی متعلقہ دفعہ 243 میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ اسی طرح جب فاضل چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران وفاقی کابینہ کے مشاورتی اجلاس میں آرمی چیف کی شمولیت کا نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ حکومتی قانونی مشیروں کی نااہلیت کی وجہ سے آج آرمی چیف کو خود کابینہ کے مشاورتی اجلاس میں شریک ہونا پڑا ہے جو ان کی آئینی ذمہ داریوں کا تقاضہ نہیں تھا۔
یہی دو نکات ہیں جن کی تہہ تک حکومتی اکابرین و دانشمندان پہنچ جائیں تو انہیں آئین اور قانون کی متعلقہ شقوں میں ترمیم کے لئے اپوزیشن بنچوں کو قائل کرنے اور اپنی حلیف جماعتوں کو ساتھ ملائے رکھنے کا تردد ہی نہ کرنا پڑے کیونکہ فاضل عدالتِ عظمیٰ کے عبوری فیصلہ کی تہہ تک پہنچنے کی صورت میں اس ایشو پرسرے سے کسی قانونی اور آئینی ترمیم کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی۔ اس حوالے سے بے ضابطگی تو صرف وزیر اعظم کے دستخطوں کے ساتھ آرمی چیف کے منصب میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہوئی تھی کیونکہ یہ نوٹیفکیشن براہ راست وزیر اعظم کی جانب سے نہیں بلکہ آئین کی دفعہ 243(3)B کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کو اس کے لئے صدر ممملکت کو مراسلہ بھجوانا ہوتا ہے۔ مجھے آج اس بحث سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ یہ غلطی سہواً ہوئی یا اس میں کسی بدنیتی کا عمل دخل تھا۔ مجھے صرف اس کیس میں فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس میں موجود انکے مافی الضمیر کو فوکس کرنا ہے۔ اگر فاضل چیف جسٹس نے متعلقہ نوٹیفکیشن پر نظرثانی کا کہا تو اس کا مقصد صرف آئین کی دفعہ 243 (3)B کو پیش نظر رکھ کر نوٹیفکیشن کی تصحیح کرانے کا تھا مگر اٹارنی جنرل انور منصور اور آرمی چیف کی جانب سے پیش ہونے والے وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں آرمی چیف کے منصب میں توسیع کیلئے آئین اور قانون میں خلا موجود ہونے کا اعتراف کرکے فاضل عدالت کو یہ خلا دور کرنے کا حکم دینے پر مجبور کر دیا۔
اب ظاہر ہے یہ خلا سپریم کورٹ کے فیصلہ کی منشا کے مطابق دور کرنا مقصود ہوگا تو اس کیلئے صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کام نہیں چلے بلکہ آئین کی دفعہ 243 (3) B میں مزید ایک شق شامل کرکے آرمی چیف کے منصب کی مدت اور اس منصب میں توسیع کی مدت کا تعین کرنا پڑے گا۔ یہی گلے کی وہ پھانس ہے جو سول سپرمیسی کیلئے زہر قاتل ہے اور اسے قبول کرنا کم از کم سول حکمرانی کیلئے تو جان جوکھوں کا ہی کام ہوگا۔ اگرآج بھی ہماری عدلیہ نظریہ ضرورت والی ہوتی تو اس ترمیم کیلئے حکومت کو زحمت ہی نہ دیتی بلکہ خود ہی اسی طرح ترمیم کرکے کسی کیلئے سرخرو ہو جاتی جیسا کہ جنرل مشرف کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف سید ظفر علی شاہ کی آئینی درخواست کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ارشاد حسن خان نے اس اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے جرنیلی آمر کو بغیر استدعا کے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیدیا تھا مگر نظریہ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے والی آج کی عدلیہ آئین و قانون کی پاسداری و عملداری کا عہد کر چکی ہے۔ اس لئے فاضل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے موجودہ کیس میں سب سے پہلے یہی باور کرایا کہ ہم آئین اور قانون کے دائرے سے ہرگز باہر نہیں نکل سکتے۔ ان کا یہ کہنا درحقیقت حکومت کو آئین کی دفعات 243‘ 244 اور 245 میں وضع کی گئی سول سپرمیسی کو برقرار رکھنے اور اس پر کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کی تلقین تھی جبکہ تین دن تک اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس کے ذریعے اس تلقین کا ہی اعادہ کیا جاتا رہا۔ سو یہ سوال آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی خاطر آئین اور قانون میں کسی ترمیم کا نہیں بلکہ سول سپرمیسی پر کوئی گزند نہ پہنچنے دینے کا ہے جس کیلئے بہرصورت آئین اور قانون کی پاسداری اور عملداری مقصود ہے۔ مگر حضور والا! جس حکومت میں خود وزارت داخلہ کی جانب سے جرنیلی آمر مشرف کے خلاف ایک نہیں دو بار آئین کو پائوں تلے روندنے کی مستوجب سزا غداری کیس کا فیصلہ صادر ہونے سے رکوانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جا رہا ہو اور جس حکومت کی کابینہ میں اس کیس میں جنرل مشرف کی وکالت کرنے والے بیرسٹر فروغ نسیم وزیرقانون کے منصب پر فائز ہوں اور پھر جس حکومت کی کابینہ میں مشرف کو قوم کا محسن قرار دینے اور ان کے خلاف دفعہ 6 کے تحت آئین توڑنے کے جرم کا مقدمہ چلانے کا تقاضا کرنے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ 4 کے تحت کارروائی کرنے کا تقاضا کرنے والے فواد چودھری بھی وفاقی وزارت کے اہم منصب پر فائز ہوں اور اسی طرح جس حکومت کی کابینہ میں آرمی چیف کے منصب میں توسیع کی خاطر چیف جسٹس اور دوسرے آئینی مناصب میں توسیع کا بھی دانہ ڈالنے والے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد موجود ہوں‘ کیا اس سے فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس کے مافی الضمیر کے مطابق آئین و قانون کی عملداری کی بنیاد پر سول سپرمیسی کیلئے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی توقع کی جائے۔ نہیں جناب‘ نہیں۔ آج کی فضا تو حضور والا! علامہ اقبال کے شعر کے اس مصرے کی عملی طور پر منظر کشی کر رہی ہے کہ…ع
ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔
یہی وہ فضا ہے جس کی بنیاد پر نامور قانون دان وسیم سجاد اور محمد اکرم شیخ حامد میر کے ٹاک شو میں متفق الیہہ تھے کہ آرمی چیف کے منصب کی میعاد مقرر کرنے اور اس منصب میں توسیع کے لئے آئین اور قانون میں ترمیم کی جائے گی تو اس سے سول سپرمیسی کے زد میں آنے کا خدشہ لاحق رہے گا۔ آپ سول سپرمیسی کے قائل ہیں تو عساکر پاکستان کے مناصب کے حوالے سے آئین اور قانون میں کسی ترمیم کا تردد ہی کیوں کریں گے۔ میرا بھی یہی استفسار ہے جس کے جواب میں سول سپرمیسی کے ساتھ کھڑا ہونے کا عزم کسی آئینی اور قانونی ترمیم اور اس کے خلاف کسی کے دوبارہ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی نوبت ہی نہیں آنے دے گا۔ حضور یہ مجرب نسخہ ہے ۔ بس ذرا آزما کر دیکھ لیجئے۔