’’بات چل نکلی ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘
Nov 19, 2019

سیاسی اصطبل میں ’’گھوڑوں‘‘ کی خرید و فروخت کا سلسلہ تو غیر منقسم ہندوستان کے وقت سے ہی جاری ہے جس کے توڑ کے لیے فلورکراسنگ کے سدباب والا قانون اور پارٹی صدر کو ودیعت کیا گیا آئینی اختیار بھی کارگر نہیں ہو سکا۔ بس آنکھ کی شرم فروخت ہونے والے گھوڑوں کو سرعام بے نقاب ہونے سے بچانے کے لئے کام آتی رہی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی اصطبل سے ہانکے گئے گھوڑوں کی پردہ پوشی ہوئی اور ان جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے ان ’’گھوڑوں‘‘ کے خلاف انضباطی کارروائی کے بلند بانگ اعلانات بھی آنکھ کی شرم کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے، مگر اب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے تو بھانڈہ ہی پھوڑ دیا ہے اور یہ بھانڈہ بھی انہوں نے بیچ چوراہے میں پھوڑا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جہاں انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد دھرنے کو ختم کرانے والی ’’حکمتِ عملی‘‘ کو ملفوف انداز میں اجاگر کیا اور کمٹمنٹ والی ’’امانت‘‘ کا تذکرہ کر کے سارے معاملات سود و زیاں بھی کھول دئیے، وہیں انہوں نے حکمران تحریک انصاف کی 2010ء میں ہونے والی پرورش کی بھی اعلانیہ ساری پرتیں کھول دیں۔ کیسے مسلم لیگ (ق) کے لوگ جستیں بھرتے ہوئے تحریک انصاف کی جانب لڑھکے اور کس طرح چودھری صاحبان کی بھی عمران خاں سے ملاقات کے لئے گرائونڈ بنانے کی بات کی گئی ،اس کے بعد تو آنکھوں کی شرم میں لپٹے سارے معاملات سود و زیاں آشکارا ہونے کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ حائل ہی نہیں رہی۔ چودھری پرویز الٰہی نے یہ راز کسی بھولپن میں منکشف کئے ہیں یا سوچ سمجھ کر گگلی کرائی ہے۔ ان کا ذہن میں آگے کا کوئی نقشہ تو بہرطور موجود ہو گا مگر ان کی گگلی نے کئی بھرم توڑ دئیے ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان کی طرح دفاعی پوزیشن پر آ کر کوئی چودھری پرویز الٰہی کے بیان کردہ حقائق کی تردید کرے تو یہ الگ بات ہے مگر اب اصطبل فروشی میں درپردہ طے پانے والے معاملات کو زبان ضرور لگ گئی ہے اور آئندہ سوچ سمجھ کر ہی عالی دماغ کنگز پارٹی کی بنیاد رکھ کر اس کی پرورش کیا کریں گے۔

ویسے تو سپریم کورٹ میں دائر کردہ اصغر خاں مرحوم کا کیس بھی ایسے معاملات بھی عاقبت بچانے اور سنوارنے کے لئے کارآمد ہو سکتا تھا مگر اس کیس کی بھی محض صدائے بازگشت ہی سنائی دیتی ہے۔ فہم و فراست والوں نے اس کیس سے بھی سبق نہیں سیکھا تو اب چودھری پرویز الٰہی کے انکشافات سے تو ’’چٹے ننگے‘‘ چور پڑنے کے امکانات ہی بڑھیں گے۔ ہمارے سیاستدانوں کی موجودہ تقریباً ساری کھیپ 80ء کی دہائی سے اب تک کے اصطبل فروشی اور کنگز پارٹیوں کی تشکیل کے منصوبہ سازوں سے فیض پاتے ہی مقبول و توانا ہوئی ہے۔ اصولوں کی پاسداری کرنے والے سیاسی حلقوں کو آج بھی اس امر کا پچھتاوا ہے کہ جنرل ضیاء کی مزاحمت کرنے والی ایم آر ڈی ان کے اعلان کردہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتی تو سیاست کاری میں سیاسی بونوں کے قلانچیں بھرنے کا کبھی موقع نہ بن پاتا۔ آج کے سارے قدآور سیاستدان ایم آر ڈی کے اس بائیکاٹ کی مہربانی سے انتخابی سیاست میں کود کر اور مہربانوں کے مہرے بن کر قبولیت عامہ کی منزلوں سے ہمکنار ہوئے تھے۔ اندازہ لگا لیجئے ، اگر ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں پیپلز پارٹی ، تحریک استقلال، اے این پی، پی این پی ، مسلم لیگ (خیر الدین گروپ) جمہوری وطن پارٹی کے تمام قائدین 85ء کے انتخابات میں موجود ہوتے تو ان غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے بھی جنرل ضیاء الحق کو اپنی مطلق العنانیت مضبوط بنانے کا موقع نہ مل سکتا۔ اگر وہ غیر جماعتی انتخابات میں اپنی من مرضی کے تحت کٹھ پتلیوں کو بھی اسمبلی میں لا کر ان کے ہاتھوں زچ ہو گئے تھے تو ایم آر ڈی کی مرکزی قیادتیں اس اسمبلی میں بیٹھی ہوتیں تو انہیں عملاً تگنی کا ناچ نچا دیتیں۔

ان قیادتوں کو بائیکاٹ والے پچھتاوے نے تو ضرور کچوکے لگانے کا اہتمام کئے رکھا مگر ضیاء آمریت کی کوکھ سے نکلنے والی جمہوریت کو اصطبل فروشی کے ذریعے راندۂ درگاہ بنانے میں انہوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس ناطے سے چھانگا مانگا اور بھوربن والی اصطبل فروشی تو آج ضرب المثل بن چکی ہے۔ سیاسی محاذوں میں در آنے والی اسی کمزوری کو بعدازاں مہربانوں کی جانب سے کنگز پارٹی کی تشکیل کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کی کوکھ سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ، پیپلز پارٹی شیرپائو گروپ، پیپلز پارٹی زیڈ اے بھٹو اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کو نکالنے کے لیے راستے بہت آسانی کے ساتھ ہموار ہوتے رہے۔ ان میں صرف مرتضیٰ بھٹو فیم پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) مہربانوں کی جانب سے ڈوریاں ہلے بغیر معرض وجود میں آئی تھی جبکہ پیٹریاٹ رائو سکندر اقبال کے خالصتاً جنرل مشرف کے کلاس فیلو ہونے کی برکت سے پھلدار درخت بنی تھی۔، مخدوم فیصل صالح حیات سے کھوج لگا کر اس کے مقاصد و منابع تک پہنچا جا سکتا ہے۔ پھر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا تو سود و زیاں والا معاملہ ہی کچھ اور رہا ہے۔ کنونشن مسلم لیگ ایوب خاں کی مہربانی سے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے پر اُتاری گئی ، پھر پگارا لیگ ، فنکشنل لیگ بھٹو اور ضیاء آمریت کو زچ کرنے والی اپوزیشن کا خم ٹھونکنے کے لیے دستیاب رہی۔ کونسل مسلم لیگ پہلے خواجہ خیر الدین گروپ کے قالب میں ڈھلی پھر یہ قاسم لیگ ہو گئی اور پھر اس قاسم لیگ کے بھی مختلف دھڑے بچہ پارٹیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ 85ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیاء الحق کی ’’بصیرت‘‘ کے تحت مسلم لیگ جونیجو گروپ بنی جس نے اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد رکھ کر بے نظیر بھٹو کو زچ کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور پھر مسلم لیگ (ن) کے قالب میں ڈھل گئی اور پھر مشرف آمریت نے نون کے اندر سے قاف کی شاخ نکال کر مسلم لیگ (ق) کیلئے حکمرانی کی راہ ہموار کردی۔

یہی سارے معاملات سود و زیاں تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خاں مرحوم نے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپنی آئینی درخواست میں اجاگر کئے تھے جس کے فیصلہ کی ان کی زندگی میں نوبت ہی نہ آ سکی، اگر ان ادوار والی اقتدار کی غلام گردشوں کا جائزہ لیا جائے تو ہماری سیاست کاری میں متبرک و مقدس چہروں کے بے نقاب ہونے میں کوئی دقت نہیں ہو سکتی۔ بس چودھری پرویز الٰہی جیسے حوصلے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے 2010 ء والے معاملات سود و زیاں کا انکشاف کر کے درحقیقت اس شعر کو عملی قالب میں ڈھالا ہے کہ …؎
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com