یوم اقبال اور کرتار پور راہداری
Nov 08, 2019

چلیں میں تصور کر لیتا ہوں کہ جب کرتار پور راہداری کے وزیر اعظم عمران خاں کے ہاتھوں افتتاح کے لئے -9 نومبر کی تاریخ طے کی گئی، اس وقت حکومتی اکابرین کے ذہن میں نہیں آیا ہو گا کہ -9 نومبر تو مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے اور یہ دن یوم اقبال کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا آغاز مزار اقبال پر گارڈ کی تبدیلی کی رسم کی ادائیگی اور ملک کی سلامتی، ترقی اور استحکام کی خصوصی دعائوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی یہ دن عقیدت و احترام کے ساتھ منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بالعموم وزیر اعظم پاکستان یوم اقبال کی کسی تقریب کی صدارت کرتے ہیں۔ اس ملک خداداد کی تشکیل کے حوالے سے اقبال کی خدمات کی اہمیت کا اندازہ بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم کے ان ارشادات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن کے ذریعے انہوں نے علامہ اقبال کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغام میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کی مملکت کے لئے اقبال کے وضع کئے گئے اصولوں پر ہی کاربند رہیں گے۔ یہی اقبال تھے جنہوں نے ترک وطن کر کے مستقل طور پر برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے والے بیرسٹر محمد علی جناح کو خط لکھ کر ملک واپس آنے اور مسلمانوں کے الگ خطہ کے لئے تحریک شروع کرنے پر قائل اور آمادہ کیا اور پھر اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ وہ قائد اعظم کے ہاتھوں اپنی خواہش کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں کے لئے مملکتِ خداداد تشکیل پاتے تو نہ دیکھ سکے مگر اس مملکت کا وجود خطبۂ الہٰ آباد میں مسلمانوں کے الگ خطہ کے لئے وضع کئے گئے ان کے زریں اصولوں کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا جس میں دو قومی نظریے کا تصور بھی صراحت کے ساتھ موجود تھا۔ اسی تناظر میں اقبال کا شمار بانیان پاکستان اور قومی مشاہیر میں ہوتا ہے جبکہ ان کی بطور قومی شاعر بھی اپنی الگ پہچان ہے اور مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو جگانے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کا درس دینے والی ان کی شاعری کی خوشبو چار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔

بے شک بانیان پاکستان اور قومی مشاہیر کے جوش و جذبے کے ساتھ دن منانا اور ان کی عزت و توقیر پر کوئی حرف نہ آنے دینا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم سے لے کر ارکان پارلیمنٹ تک اپنے مناصب کا حلف اٹھاتے ہوئے قیام پاکستان کا باعث بننے والے اسلامی نظریہ کی مکمل پاسداری کا عہد کرتے ہیں تو اس نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی الگ مملکت کا تصور پیش کرنے والے اسلامیان ہند کے قائد علامہ اقبال کی عزت و توقیر میں کوئی حرف نہ آنے دینا بھی اربابِ اقتدار سمیت ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ یوم اقبال منا کر درحقیقت اسی عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ان کے قومی لیڈر والے تشخص میں کوئی کمی نہیں آنے دی جائے گی۔

میں نے تو اپنے تئیں یہ تصور کر لیا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کے لئے -9 نومبر کی تاریخ طے کرتے وقت حکومتی اکابرین کے ذہن سے یوم اقبال کی -9 نومبر کی تاریخ محو ہو گئی ہو گی مگر محض میرے تصور کرنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ کرتارپور راہداری کے لئے-9 نومبر کی تاریخ کے تعین پر سوشل میڈیا حیرتوں کے اظہار میں ڈوبا نظر آیا، تو کیا یہ بھی تصور کر لیا جائے کہ اس بارے میں سوشل میڈیا پر کئے جانے والے تحفظات کے اظہار سے بھی حکومتی اکابرین لاعلم رہے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کا نیٹ ورک تو ویسے ہی بہت متحرک ہے اور ہر حکومتی اقدام کے دفاع اوراپوزیشن کو بے نقط سنانے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ -9 نومبر کو کرتارپور راہداری کے افتتاح کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری تنقید حکومتی سوشل میڈیا کی ٹیم کی آنکھوں سے اوجھل رہی ہو۔ اگر اس تنقید سے دانستہ طور پر صرفِ نظرکیا جاتا رہا ہے اور وزیر اعظم عمران خاں کل-9 نومبر کو یوم اقبال ہی کے موقع پر نارووال جا کر کرتارپور راہداری کا افتتاح کر رہے ہیں تو راز ونیاز کے کچھ معاملات ضرور ایسے ہیں جنہوں نے -9 نومبر ہی کو کرتار پور راہداری کا افتتاح ہمارے حکومتی اکابرین کی مجبوری بنایا ہے۔ ان میں ایک معاملہ تو یقیناً بابا گورونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ کمیونٹی کو اس سہولت کے ذریعے خوش کرنے کا ہے مگر جناب۔ کیا ہمیں اپنے قومی مشاہرین کے ایام کو نظرانداز کر کے دوسروں کے دینی پیشوائوں کے پیروکاروں کی عزت افزائی کرنی چاہئے۔ اگر اس پر ہمارا ضمیر مطمئن ہو جائے تو بھلے اپنے ایجنڈے پر کاربند رہیئے مگر تحریک پاکستان اور تشکیل پاکستان کے مراحل میں اس ارض وطن کے لیے ہجرت کرنے اور اپنی جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دینے والے مسلم خاندانوں کے ذہنوں میں موجود تلخیاں کچوکے مار کر جگانے کا اہتمام کرنے سے بہرصورت گریزکیجئے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ان تلخیوں کا تذکرہ کیا تو مجھ تک پہنچنے والی ’’چاک دامنوں‘‘ کی کراہوں نے میرا سکون بھی چھین لیا، جبکہ اسلامیان پاکستان کے ذہنوں میں موجود ایک اور تلخی بھی عود کر آئی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعد 18 فیصد جی ایس ٹی لگا کر ان کے لئے تو فریضۂ حج و عمرہ کی ادائیگی مزید مہنگی اور مزید مشکل بنا دی ہے مگر سکھوں کو کرتار پور میں اپنے مذہبی پیشوا بابا گورونانک کے دربار کی زیارت کے لئے پاسپورٹ ، ویزہ اور شناختی کارڈ کے بغیر آنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں فری انٹری کی بھی سہولت دے دی گئی ہے۔ یہ تو بین المذاہب ہم آہنگی کی اچھوتی مثال ہے جناب جس میں ملک کی سلامتی کے تقاضوں کا بھی احساس نہیں کیا گیا اور مکار دشمن ملک سے سکھوں ہی نہیں، ہندوئوں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے کرتار پور راہداری کے ذریعے پاکستان آنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔

یہ تو ہمارے دشمن ملک کا معاملہ ہے جس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے حوالے سے ہمیں ہر پل محتاط رہنے کی ضرورت ہے مگر کیا کوئی دوست ملک بھی کسی دوسرے ملک کے شہریوں کی اپنے ملک میں پاسپورٹ اورویزہ فری انٹری کا متحمل ہو سکتا ہے؟ برادر سعودی عرب کے لئے حج اور عمرہ قومی ریونیو بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے صرف مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو ہی سعودی عرب آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر سعودی حکومت انہیں پاسپورٹ اور ویزہ فری انٹری کی سہولت دے دے تو اس کا قومی خزانہ لبالب بھر جائے مگر کیا سعودی عرب اپنے مسلمان بھائیوں کی بھی پاسپورٹ اور ویزہ فری انٹری کا متحمل ہو سکتا ہے؟ پھر ہمیں ایسی کیا مجبوری آن پڑی ہے کہ ہم اپنے دشمن ملک کے غیر مسلم شہریوںکو بھی اپنے ملک آنے کی کھلی چھوٹ دئیے جا رہے ہیں۔ جناب ! آج ہمیں ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کی پاسداری کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم اس تقاضے سے ہٹیں گے تو کہیں کے نہیںرہیں گے۔
    Bookmark and Share   
       Copyright © 2010-2011 Saeed Aasi - All Rights Reserved info@saeedaasi.com